Youm e Madar
یومِ مادر
عُمیر ریلوے اسٹیشن پر بڑی بےصبری کے ساتھ ہاتھوں میں گُلدستہ لئے اپنی ماں کا انتظار کر رہا تھا۔ جب ریل گاڑی اسٹیشن پر پہنچ کر رُک گئی تو لوگ جُوق در جُوق ٹرین سے اُتر رہے تھے اور لوگوں کا ایک اژدحام اسٹیشن پر جمع ہوا۔ لوگوں کی اس بِھیڑ میں عُمیر کی نظریں اپنی ماں کو تلاش کر رہی تھیں مگر لوگوں کے جم غفیر میں عُمیر کو اپنی ماں کہیں نظر نہیں آ رہی تھی۔ اچانک عمیر کی نظر ریل کے ڈبے سے اُترتی ایک بزرگ خاتون پر پڑی جو ریل کے ڈبے سے اپنا بریف کیس اور ایک صندوقچہ نیچے اُتارنے کی کوشش کر رہی تھی مگر اُس کے کمزور بازوں اُس کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔
کچھ دیر کی کشمکش کے بعد وہ خاتون اپنا سامان اُتارنے میں کامیاب ہوئی اور عُمیر یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ اپنا سامان اُتارنے کے بعد وہ عورت جب آگے بڑھنے کو تیار ہوئی تو اپنے بریف کیس اور صندوقچے کو اُٹھانے میں اُس کو بڑی دشواری پیش آ رہی تھی۔ اگرچہ اُن کا وزن کچھ زیادہ تو نہیں تھا لیکن ایامِ بزرگی میں ناتواں جسم بوجھ اٹھانے سے قاصر تھا اور ایسا لگ رہا تھا کہ اُس کا جسم اُس سے درخواست کر رہا تھا کہ خدارا مجھ پر یہ ظلم نہ کرو۔
اِسی اثنا میں عُمیر کی نظر اُس کے چہرے پر پڑی اور عمیر نے اِس مایوس اور پُرشکن چہرے کو پہچان لیا۔ شاید یہ وہی چہرہ تھا جو کبھی خوبصورت ہوا کرتا تھا لیکن اپنے بیٹے کو پروان چڑھانے میں اس پر جُھریاں پڑ گئی تھیں۔ یہ وہی جسم تھا جو کبھی جوان ہوا کرتا تھا مگر کبھی کبھار خود بھوکا رہ کر اپنے بیٹے کو کھانا کھلا کر اور گزرتی عمر کے ساتھ یہ کمزور پڑ چکا تھا۔ اسی سوچ میں عُمیر اپنے آپ سے کہنے لگا۔ یا اللہ، یہ تو میری امی جان ہے۔ عُمیر اپنے ہاتھوں میں گُلدستہ لئے جلدی سے اس کی طرف دوڑنے لگا۔ سلام کرتے ہوئے عُمیر نے اپنی ماں کو گُلدستہ پیش کیا۔
عُمیر کو دیکھتے ہی اُس کی ماں کا چہرہ خوشی سے کِھل اُٹھا۔ اُس نے عمیر کو اپنے گلے لگایا اور اس کے ماتھے کو چومنے لگی۔ علیک سلیک کے بعد جیسے ہی عُمیر اپنی ماں کا سامان اُٹھانے لگا وہاں کوئی دوسرا شخص حاضر ہوا اور عمیر کی ماں سے کہنے لگا۔ آنٹی جی، اس زاویے سے ویڈیو کا منظر ٹھیک نہیں آ رہا ہے، آپ عمیر سے دوبارہ گُلدستہ لیجئے اور گلے ملئے، میں دوسری سِمت سے ویڈیو اُٹھانے کی کوشش کروں گا تاکہ ویڈیو کا منظر اچھا آ جائے اور ہو سکے تو دونوں تھوڑے آنسوں بھی بہائیں تاکہ ویڈیو میں تھوڑا احساس اور اصلی پن نظر آئے۔
ایک اجنبی نوجوان کی ان باتوں نے عُمیر کی ماں کو ششدر کر دیا اور وہ اُس سے کہنے لگی۔ بیٹا آپ کون ہیں اور کیا بول رہے ہیں؟
اِس سے پہلے کہ عُمیر کا دوست کوئی جواب دیتا عُمیر اپنی ماں سے مخاطب ہو کر کہنے لگا۔ امی، یہ میرا دوست ہے اور اِس کو ویڈیو بنانے کیلئے میں نے ہی کہا ہے۔ چند دنوں میں یومِ مادر آنے والا ہے اور مجھے اُس دن سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرنے کیلئے ایک خاص ویڈیو کی ضرورت ہے۔ عُمیر کا جواب سن کر اس کی ماں حیرت زدَہ ہو کر رہ گئی اور حسرت بھری نگاہوں سے اپنے بیٹے کی طرف دیکھنے لگی۔ چند لمحے پہلے عُمیر کی ماں کو جو خوشی ملی تھی وہ مایوسی میں تبدیل ہو چکی تھی اور اِس کے آثار صاف صاف اُس کے چہرے پر عیاں تھے۔