Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Abid Hussain Rather
  4. Takhallus

Takhallus

تخلص

میں کوئی بڑا شاعر تو نہیں ہاں البتہ کوئی چھوٹا شاعر بھی نہیں ہوں۔ ویسے بھی آج کل شاعری پڑھنے اور سمجھنے والوں سے زیادہ شاعروں کی تعداد ہیں۔ ان سب میں اب اگر ایک میرا نام بھی جُڑ جائے تو کیا حرج ہے۔ اگر آبادی اتنی زیادہ بڑھ چکی ہے کہ ملک نے چین کو پچھاڑ کر پہلا مقام حاصل کیا ہے تو شاعروں کی تعداد بھی بڑھنی چاہئے نا۔ بھلا ہو اس یوٹیوب، انسٹاگرام اور فیس بک کا، ان جدید سائنسی برکات نے برسوں سے چھپی صلاحیتوں کو سڑک پر لاکر گھر گھر سے شاعر پیدا کئے ہیں۔ آج خدائے سخن میر تقی میر اور چچا غالب زندہ ہوتے تو اپنی وراثت کے ان گنت وارث دیکھ کر شاید بہت خوش ہوتے۔ اب براہ کرم کوئی یہ نہ کہے کہ آج کل کے شاعروں کے کلام میں وہ گہرائی، وہ وسعت یا وہ درد نہیں پایا جاتا ہے

جو گہرائی یا درد چچا غالب، میر درد، جگر یا جون بھائی کے کلام میں پایا جاتا ہے یا آج کے دور کے شاعروں کا کلام شاعری کے مختلف معیارات پر نہیں اُترتا۔ کیونکہ جیسے مقتدی ہونگیں ویسے ہی تو امام بھی ملیں گے۔ شاعری میں گہرائی ہوگی تو آج کل سمجھے گا کون اور شاعری میں درد ہونا بھی اب بے معنٰی رہ گیا ہے کیونکہ اب پرانے زمانے کے مجنوں بھی نہیں رہے اس لئے ایسی شاعری میں آج کل بوریت محسوس کی جائے گی۔ رہی بات معیارات کی تو حضور اِن معیارات سے اب واقف ہی کون ہے؟ اب کل ہی کی بات ہے، میں اپنی ایک تازہ غزل ایک محفل میں سُنا رہا تھا کہ محفل میں ایک عمر رسیدہ شخص نے آواز دی جو شکل سے ہی رموزِ سخن کے مارے لگ رہے تھے۔ کہنے لگے کہ میاں مجھے لگتا ہے غزل بے وزنی ہے۔

تو میں نے بھی پر اعتماد انداز میں جواب دیا حضرت اشعار کے وزن پر دھیان مت دیجئے، محفل کی واہ واہ سُنیئے۔ اس بات پر وہ محترم ایک دم خاموش ہو گئے۔ ویسے بھی مجھے علم عروض کے اجزا جیسے وزن، بحر وغیرہ سے کیا مطلب۔ یہ علم تو ویسے بھی اب آہستہ آہستہ نایاب ہی ہورہا ہے اور علمِ متروک بن رہا ہے۔ بس میرے اشعار کے آخر میں ہے ہے، کیا کیا وغیرہ جیسے الفاظ (ردیف) ملنے چاہئے، اور اگر کبھی غلطی سے قافیہ بھی ڈھنگ سے اشعار میں صیح بیٹھ گیا تو گمان ہوتا ہے کہ چچا غالب کی روح مجھ میں آکر تشریف فرما ہے۔

خیر بات ہورہی تھی میری شاعری کی۔ مجھے آپ کچھ کم درجے کا شاعر تصور کرنے کی غلطی نہیں کیجئے گا۔ میری شاعری بھی شوشل میڈیا پر خوب وائرل ہو رہی ہے۔ اب کرنے کیلئے کوئی اور کام تھا نہیں تو سوچا اِسی ہُنر میں ہاتھ آزما لیا جائے اور دل ہی دل میں خیال آیا کہ شاید یہی ہُنر میری مشہوری کا سبب بھی بن جائے گا کیونکہ معاشرے میں اگر دس میں سے نو لوگ صرف اپنا نام کمانے اور اپنی مشہوری کے پیچھے پڑے ہیں تو میں اس دوڑ میں پیچھے کیوں رہوں، آخر میں بھی تو اِسی معاشرے کا حصہ ہوں۔ وہ بات دوسری ہے کہ یہ ہُنر ازل سے ہی مجھ میں موجود نہیں تھا۔ شاید جون صاحب کے چند اشعار میری حوصلہ افزائی کا سبب بنے۔ وہ جون بھائی کہتے ہے نا۔

اپنے سب یار کام کر رہے ہیں۔

اور ہم ہیں کہ نام کر رہے ہیں۔

لوگوں کے ساتھ ساتھ دوستوں کے درمیان بھی میں شاعر کے نام سے ہی بدنام ہوں۔ میرے چند غزل سوشل میڈیا پر مشہور کیا ہوئے کہ کچھ عرصہ پہلے میرے ہمدرد دوستوں نے تخلص رکھنے کا مشورہ دیا۔ کہنے لگے کہ حضرت آپ کا نام اور شاعری قطب شمالی اور قطب جنوبی کی طرح ہے جو نہ ہی آپس میں میل کھاتے ہیں نہ ہی کبھی ایک ہوسکتے ہیں۔ لہذا کوئی اچھا خاصا تخلص رکھ لیجئے کیونکہ اب آپ ہم جیسے معمولی انسان نہیں رہے بلکہ ماشاء اللہ اپنے حلقۂ یاراں کے معروف وممتاز شاعر ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہنے لگے کہ تخلص ایک شاعر کی شان اور پہچان ہوتا ہے لہذا اپنے لئے کوئی منفرد تخلص ڈھونڈئے۔ میرا حلقۂ یاراں بھی کیسا ہے، جنھیں نہ شاعری سے کوئی رغبت ہے نہ کوئی دلچسپی، لیکن پھر بھی میری دلجوئی اور میری ہمدردی کیلئے میرے کلام پر زور زور سے واہ واہ کرنے میں ذرا سی جھجھک بھی محسوس نہیں کرتے ہیں۔

مجال ہے کہ کبھی کسی کو ایک مصرہ بھی سمجھ آئے یا شاید میرے کلام میں سمجھنے کیلئے کچھ ہوتا ہی نہیں ہے۔ وہ بیچارے بھی کبھی کبھی پریشان ہوتے ہونگیں کہ آخر ہمارا دوست کہنا کیا چاہتا ہے۔ آپ کو بتاتا چلوں کہ یہ تخلص بھی کوئی معمولی چیز نہیں ہے۔ پہلے سے ہی بدنام شاعر کو اور زیادہ بدنام کرتا ہے۔ جیسے درد، دیوانہ، خاموش، غمگین، بدنصیب، تنہا وغیرہ تخلص سنتے ہی شعر اور شاعر کی کیفیت ظاہر ہوتی ہے۔ آج کل اکثر لوگ شاعر کے آدھے سے زیادہ کلام کی تشریح اس کے تخلص کے اعتبار سے ہی کرتے ہیں۔ خیر پہلے تو میں نے اپنے دوستوں کی بات پر کوئی توجہ اور دھیان نہیں دیا۔ لیکن دیر رات کو بیٹھا تھا کہ دوستوں کی بات ذہن میں آئی اور دل میں خیال آیا میرے دوست صیح کہہ رہے ہیں،

اب میں بھی کوئی معمولی شاعر تو نہیں ہوں اور اوپر سے مجھے اپنا نام بھی مقطع میں فِٹ کرنے کی دشواری اکثر پیش آتی تھی لہذا سوچا کہ اب میں بھی کچھ تخلص رکھنے کی جسارت کرتا ہوں۔ اب میرا نیا کام شروع ہوگیا اور وہ تھا اپنے لئے کوئی اچھا سا تخلص ڈھونڈنا۔ ساری رات کوشش کی لیکن اپنے لئے کوئی مناسب تخلص ذہن میں نہیں آیا۔ رات کے سہہ پہر میں اپنی کوشش سے ہار کر سونے پر مجبور ہوگیا۔ اگلے دن دوستوں سے اس بارے میں مشورہ لیا تو اُن کم بختوں نے عجیب و غریب نام پیش کئے۔ ایسا محسوس ہوا کہ جیسے برسوں سے وہ لوگ موقع کی تلاش میں تھے کہ کب انہیں موقع ملے اور وہ تخلص کے آئینے میں مجھے میرا عکس دکھائے۔

پتا نہیں میری خوبصورت شاعری سے ان کو جلن ہو رہی تھی یا میری طرح ان کا علمی ظرف ہی اتنا تھا کہ میرے لئے کوئی اچھا سا تخلص ڈھونڈنے میں وہ لوگ بھی ناکام رہے۔ ویسے بھی آج کل شاعروں کی اتنی بھرمار ہیں کہ کوئی بھی نام ڈھونڈو وہ پہلے ہی پانچ دس شاعروں نے اپنے لئے تخلص چنا ہوتا ہے۔ شاید تخلص کیلئے اب نام ہی کم پڑ گئے ہیں۔ ذہن میں آیا کہ کیوں نہ اس بارے میں گوگل بابا سے مدد لی جائے۔ ویسے بھی اگر آج کل ہمیں راستے میں کوئی خوبصورت دوشیزہ نظر آئے تو گھر پہنچتے ہی ہم گوگل بابا سے یہ پوچھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ فلاں جگہ پر جس خوبصورت بلا سے آنکھیں ٹکرائی تھی اس کا نام اور پتہ کیا ہے۔ پھر گوگل پر اپنے لئے محض ایک عدد تخلص ڈھونڈنے میں کون سی برائی ہے۔

کیونکہ آج کے دور میں جب ہماری سوچ اور تخلیقی صلاحیت جواب دیتی ہے تب گوگل بابا مسیحا بن کر ہماری مدد کیلئے حاضر ہوجاتا ہے۔ میری حیرانگی کی تب کوئی انتہا نہ رہی جب مجھے گوگل سے یہ پتا چلا کہ شاعری کی دنیا میں تخلص کا اتنا قحط ہے کہ ہمارے شعراء حضرات احمق، بدنام، خوامخواہ، انوکھا، لہولہان، گڑبڑ، والد، فضول وغیرہ جیسے ناموں کو اپنا تخلص منتخب کرنے کیلئے مجبور ہوگئے ہیں۔ یہ دیکھ کر میں پورا مایوس ہوگیا اور سوچنے لگا کہ شاید اپنے لئے تخلص منتخب کرنا میرے لئے ایک خواب ہی رہ جائے گا۔ ذہن میں آیا کہ خود کو اتنا بڑا شاعر کہنے والا اصل میں اتنا ناکارہ انسان ہے کہ اپنے لئے ایک عدد تخلص تخلیق نہیں کرسکتا ہے۔

اس پر ستم ظریفی یہ کہ گوگل بابا بھی میری مدد کرنے کیلئے ناکام ہوچکا ہے۔ ناکارہ لفظ ذہن میں آتے ہی یہ خیال آیا کہ کیوں نہ ناکارہ ہی اپنے لئے تخلص استعمال کیا جائے۔ ویسے بھی میری شاعری کیلئے اس سے بہتر کوئی تخلص ہوہی نہیں سکتا ہے۔ بس اب ڈر تھا تو وہ صرف اس بات کا کہ میرے دوستوں کا میرے تخلص پر کر کیا ردعمل ہوگا۔ اگلے دن محفل میں ڈرا سہما اپنی غزل سنانے لگا۔ جوں ہی مقطع پیش کیا تو محفل واہ واہ سے گونج اٹھی۔ ہر طرف یہی آواز آرہی تھی کہ جناب آپ نے اپنے لئے سب سے بہترین تخلص کا انتخاب کیا ہے۔

Check Also

Hamzad

By Rao Manzar Hayat