Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Abid Hussain Rather
  4. Jazbaat Ki Tarbiyat

Jazbaat Ki Tarbiyat

جذبات کی تربیت

انسان جیسے ہی اس دنیا میں قدم رکھتا ہے وہ یہاں کچھ نہ کچھ سیکھنے کی کوشش کرتا ہے اور آئے دن نئی چیزوں اور نئے عوامل کا علم حاصل کرتا ہے۔ چونکہ اللہ سبحان و تعالٰی نے انسان کو مختلف اعضاء عطا کئے ہیں جن کی وجہ سے وہ محسوس کرنے کی قوت رکھتا ہے یہی اعضاء اُس کو پہلے پہل نئی چیزوں کا علم عطا کرتے ہیں اور نئے عوامل سیکھنے میں مدد کرتے ہیں۔ بعد میں پھر وہ زندگی کے حاصل کردہ تجربات سے اور سماج میں پہلے ہی رائج کردہ علم سے نئی معلومات حاصل کرتا ہے۔

جب ایک بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے والدین اس کی پرورش کرنے کے دوران چاہتے ہیں کہ اُن کا بچہ صرف اچھی چیزیں سیکھے، وہ صرف اچھی عادات کا حامل ہوجائے اور تو اور اُن کا بچہ صرف وہی سیکھے جو وہ لوگ اسکو سکھانا چاہتے ہو اور اِس کے سوا اور کچھ نہ سیکھے۔

تازہ ترین سائنسی تحقیقات کے مطابق بچے کی پیدائش سے لیکر چھے یا ساتھ سال کی عمر تک بچے کے دماغ کا % 95-90 حصہ لاشعوری طور پر کام کرتا ہے یا ہم یوں کہہ سکتے ہے کہ بچے کی %95 سوچ غیر اختیاری ہوتی ہے۔ اس کے بعد بچے کا شعور بڑھتا ہے جو اس کو اپنی سوچ اور اپنی خواہشات پر کنٹرول کرنے کی صلاحیت عطا کرتا ہے۔ مختصراً بچپن کے تجربات اور بچپن کی سیکھ ایک انسان کی شخصیت کو تشکیل دینے میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

اس بات سے بالکل بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ تقریباً تمام والدین کو معلوم ہے کہ بچوں کو کچھ سکھانے کے اعتبار سے اُن کا بچپن بہت ہی اہم ہوتا ہے۔ کیونکہ بچپن میں ایک بچہ وہی کچھ سیکھتا ھے جو اس کو سکھایا جاتا ہے۔ اس کے ذہن میں وہی باتیں گھر کرتی ہیں جو اس کے ذہن تک پہنچا دی جاتی ہے کیونکہ بچے کے دماغ کی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت بہت کمزور ہوتی ہے۔ لیکن یہاں پر ایک بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ مختلف والدین اپنے بچوں کے ذہن میں الگ الگ قسم کی سوچ ڈالنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

اپنے بچوں کو کیا سکھانا بہتر رہیگا اسکا معیار مختلف طبقے اور مختلف سماج کے لوگوں میں الگ الگ ہوتا ہے اور یہ معیار وقت کے ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ بچوں کو سکھانے کے طریقے اور وسائل بھی الگ الگ ہوتے ہے۔ اس کے باوجود تمام والدین کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو سماج کے مختلف عقائد، رسومات اور مختلف معیارِ زندگی سے روشناس کرائیں اور ان کو ان تمام چیزوں کی تربیت کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ والدین اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں بھی مختلف آرزو اور تمنّا کرتے ہیں۔

ہم اکثر سنتے ہے کہ کچھ والدین چاہتے ہیں کہ اُن کے بچہ ڈاکٹر بنے، وکیل بنے، پائلٹ بنے یا ایسے ہی کسی اونچے سرکاری عہدے پر فائض ہو۔ مختلف طبقے کے لوگوں میں مختلف تمنّا ہوتی ہے اور یہ تمنّا پوری کرنے کے لیے مختلف لوگ مختلف طرح کی کوششیں کرتے ہیں تاکہ اُن کے بچے اپنے مقاصد میں کامیاب ہوجائے۔ اکثر والدین اپنے بچوں کو اونچے تعلیمی اداروں میں تعلیم دلاکر اُن کے مقاصد پورے کرنے میں انکی مدد کرتے ہے۔ کچھ والدین اپنے بچوں کو آزادی دے کر اُنہیں خود اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلہ لینے کی اجازت دیتے ہے اور پھر اسی حساب سے انکی رہنمائی کرتے ہے۔ لیکن کیا ہمارے سماج میں والدین کبھی اپنے بچوں کے جذباتوں کی تربیت کرتے ہے۔ کیا وہ کبھی اس بات پر دھیان دیتے ہے کہ بچے کے جذبات کا اسکی شخصیت پر کیا اثر پڑتا ہے۔ ان باتوں کا جواب شاید نفی میں ہے۔

تربیت کے دوران والدین اپنے بچوں کے مختلف مسائل پر دھیان دیتے ہیں جیسے کہ کیا بچہ پڑھائی کرتا ہے، کیا وہ صاف ستھرا رہتا ہے، وقت پر کھانا کھاتا ہے، کھیل کود میں حصہ لیتا ہے، کہیں اُنکا بچہ جھوٹ تو نہیں بولتا، کیا اُنکا بچہ فرمابردار ہے یا نہیں، کیا اُنکا بچہ وقت پر گھر آتا ہے یا نہیں، کہی اُنکا بچہ کسی نشے میں مبتلا تو نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح سے وہ اپنے بچوں پر کڑی نگاہ رکھ کر انکی کردار سازی میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ لیکن اس بات پر کتنے والدین دھیان دیتے ہے کہ کہی اُنکے بچوں کے ذہن میں یہ خیال گردش تو نہیں کر رہا ہے کہ اُنہیں خاندان میں نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

کیا اُن کے بچے جذباتی طور پر اپنی زندگی سے اور اپنے آپ سے مطمئن ہے۔ کہی اُنکے بچے تنہا یا غیر محفوظ محسوس تو نہیں کررہے ہیں یا کہی اُنکے بچے کسی قسم کے وسوسے کا شکار تو نہیں ہے۔ اگر والدین اپنے بچوں کے ان مسائل پر دھیان دینے سے قاصر رہ جائے تو یہ مسائل بچوں کے ذہن پر ایک گہری چھاپ چھوڑتے ہے اور یہ چھاپ زندگی بھر اُن کے ذہن کو بری طرح سے اثر اندوز کرتی ہے۔ اس کے برعکس اگر ان مسائل پر وقت پر دھیان دیا جائے تو مستقبل میں ان کی شخصیت مستکحم، مضبوط اور مربوط بنتی ہے۔

مستکحم اور مربوط شخصیت کے لیے ضروری ہے کہ انسان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں میں استحکام ہو۔ غیر محفوظیت، خود اعتمادی کی کمی، تنہائی اور دوسرے جیسے عناصر ایک انسان کو کمزور بناتے ہے جن کی وجہ سے وہ ہمیشہ غیر محفوظ محسوس کرتا ہے اور آخر میں یہی عناصر اس کے استحصال کا باعث بنتے ہے۔

بچوں کی تربیت کے دوران ہمیشہ اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ اُن کے عادات و اطوار پر دھیان دینے کے ساتھ ساتھ ہمیشہ اُن کے جذباتوں کی قدر کرنے چاہیے۔ تربیت کے ساتھ ساتھ بچوں کو پیار و محبت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اُنہیں کبھی تنہا محسوس نہیں کرانا چاہیے۔ بچوں کے جذبات کی تربیت والدین کے پیار بھرے جذبات سے ہی ہوسکتی ہے۔

والدین کو چاہیے کہ بچوں کو اپنے جذبات اظہار کرنے کا ہنر سکھایا جائے۔ اُنہیں اپنے بچوں سے اس طرح پیش آنا چاہیے کہ بچے اپنے جذبات اظہار کرنے میں آزادی محسوس کرے۔ والدین پر یہ فرض ہے کہ اپنے بچوں کے جذبات کی تربیت کریں اور اُن کو سماج کے مختلف معیاروں پر کھڑا کرنے کے ساتھ ساتھ انکی شخصیت کو روشن اور تابناک بنائے۔ ایک انسان کی شخصیت روشن اور تابناک تب ہی ہوسکتی ہے جب اس کی پرورش اور تربیت اچھے طریقے سے کی گئی ہو اور جذبات کی تربیت بچوں کی تربیت کا ایک اہم جُز ہے۔ چونکہ ہم دنیا کے ایک ایسے متنازعہ خطے میں رہتے ہے جہاں سیاسی ناپائیداری کی وجہ سے آئے دن حالات خراب رہتے ہے جسکی وجہ سے ہمارے یہاں بہت سارے لوگ ذہنی تناؤ کا شکار ہوگئے ہیں۔

بہت سارے بچے یتیم ہونے کی وجہ سے غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں جس کی وجہ سے وہ بہت ساری ذہنی اور نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوگئے ہیں۔ ایسے حالات میں اُن بچوں کے جذباتوں کی تربیت کی اشد ضرورت ہے۔ لہذا ایسے بچوں کے سرپرستوں کو چاہیے کہ ان کی تربیت اچھے سے کرے۔ اُن کے جذبات کا خاص خیال رکھے اور اُنہیں کبھی بھی تنہا یا غیر محفوظ محسوس نہ ہونے دے تاکہ آگے چل کر ایسے بچے کسی نفسیاتی مرض میں مبتلا نہ ہوجائے۔

اگر وقت پر جذباتوں کی تربیت اچھے سے نہ کی جائے تو انسان یا تو کوئی غلط راستہ اختیار کرتا ہے یا پھر زندگی میں ایک ناکام شخص بن کر رہ جاتا ہے۔

Check Also

Kashmiriyon Se Bjp Kyun Darti Hai?

By Wusat Ullah Khan