1.  Home/
  2. Blog/
  3. Abid Hussain Rather/
  4. Hamdardi Ki Qeemat

Hamdardi Ki Qeemat

ہمدردی کی قیمت

سڑک کے کنارے کھڑا عمیر مایوسی کے ساتھ گاڑی کا انتظار کر رہا تھا کہ اتنے میں ایک آٹو والا اُس کے سامنے اپنا آٹو روک کر عمیر سے مخاطب ہوکر کہنے لگا "بھائی صاحب کہاں جانا ہے"؟

جناب مجھے مومِن پور جانا ہے۔۔ عمیر نے جواب دیا۔

چلئے بیٹھئے، میں آپ کو چھوڑ دیتا ہوں۔۔ یہ کہہ کر آٹو والے نے اپنے آٹو کی کھڑکی کھول کر عمیر کو آٹو میں بیٹھے کا اشارہ کیا۔

ٹھیک ہے جناب، مگر پہلے یہ بتائیں وہاں تک جانے کا کتنا لو گے۔

عمیر ابھی کرائے کی بات ہی کر رہا تھا کہ آٹو والا بیچ میں اس کی بات کاٹ کر کہنے لگا۔۔ بھائی صاحب، آپ کرائے کی ٹینشن کیوں لیتے ہو، جو آپ کی مرضی ہو وہ دے دینا۔ ویسے تو وہاں تک جانے کا ریٹ تین سو روپیہ ہے مگر آپ دو سو ہی دینا۔

مختصر گفت وشنید کے بعد ڈیڑھ سو کا کرایہ طے ہوا اور عمیر آٹو میں بیٹھ کر اپنی منزل کی جانب چل نکلا۔ دراصل عمیر شہر کی مشہور یونیورسٹی "روشن مستقبل" نامی یونیورسٹی میں داخلے کیلئے پہلی بار گاؤں سے شہر آیا تھا، جو شہر کے مخصوص علاقے مومن پور میں واقع تھی۔ اس نے گریجویشن تک اپنی تمام تعلیم اپنے ہی ضلع کے مختلف اسکولوں اور کالج سے حاصل کی تھی مگر وہ اعلٰی تعلیم کا خواہاں تھا جس کیلئے اس کو شہر کا رخ کرنا پڑا۔ لیکن گاؤں سے شہر پہنچتے پہنچتے اس کا سارا دن گزر گیا اور وہ سہ پہر کے وقت شہر پہنچا۔ اس نے خود سے فیصلہ کیا کہ اب وہ رات کو کسی جگہ ٹھہر کر صبح سویرے یونیورسٹی کی طرف رخ کرے گا۔ آٹو میں سواری کرتے ہوئے عمیر شہر کے خوبصورت مناظر دیکھنے میں مَحو تھا مگر اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار صاف نظر آرہے تھے۔ اجنبی شہر کے انجان راستے، نہ جان نہ پہچان، اوپر سے رات کو ٹھہرنے کا مسئلہ۔ بس یہی خیالات عمیر کو پریشان کر رہے تھے۔ اسی اثنا میں آٹو والا عمیر سے کہنے لگا۔۔

بھائی صاحب آپ اتنے خاموش کیوں ہو، لگتا ہے آپ پریشان ہو، سب خیریت تو ہے نا۔

جواب میں عمیر نے سارا قصہ بیان کیا۔ عمیر کی روداد سن کر آٹو والے نے اس کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا، "ارے بھائی صاحب، آپ کیوں پریشان ہو رہے ہو، آپ چاہو تو رات کو ہمارے گھر پر رُک سکتے ہو، ہمارا گھر وہی یونیورسٹی کے قریب ہی واقع ہے۔ یا میں آپ کو دولت نگر چھوڑ دیتا ہوں، وہاں آپ کو رات کو رکنےکیلئے ہوٹل ملے گا۔ میں خود وہاں پر آپ کیلئے ہوٹل کا انتظام کروں گا۔ کیونکہ آپ ہمارے مہمان ہو۔ پھر آپ کل آرام سے یونیورسٹی جا سکتے ہو"۔

آٹو والے کی انسانیت اور ہمدردی دیکھ کر عمیر بہت خوش ہوا۔ وہ دل ہی دل میں خود سے کہہ رہا تھا کہ انسانیت آج بھی زندہ ہے۔ عمیر کو آٹو والے کا مشورہ بھی صیح لگا۔ لہذا اس نے دولت نگر میں کسی ہوٹل میں رات گزارنے کا فیصلہ کیا۔ چند منٹوں بعد وہ دولت نگر پہنچے اور آٹو والے نے آٹو روک کر عمیر سے کہا۔۔ بھائی صاحب آپ کچھ منٹ یہیں آٹو میں ٹھہرو، میں آپ کیلئے ہوٹل کا انتظام کرکے آتا ہوں۔ یہ کہہ کر آٹو والا آٹو سے اتر کر ایک ہوٹل کی طرف بڑھنے لگا۔ کچھ وقت کے بعد وہ واپس آیا اور عمیر سے کہنے لگا۔۔ "بھائی صاحب، چلئے، ہوٹل کا انتظام ہوگیا، ہوٹل منیجر کے مطابق ہوٹل میں ایک رات کو ٹھہرنے کا آٹھ سو کرایہ ہے"۔

عمیر نے وقت کی نزاکت اور موقع کو غنیمت جان کر آٹھ سو روپے کے کرایے کے عوض رات کو ہوٹل میں ٹھہرنے کا فیصلہ کیا۔ استقبالیہ کونٹر پر کرایہ ادا کرکے اور باقی لوازمات کو پورا کرکے عمیر نے اپنے کمرے میں جانے سے پہلے آٹو والے کا شکریہ ادا کیا اور اس کی انسان دوستی، ہمدردی اور محبت کیلئے اس کی داد دی۔ عمیر پورا دن سفر کرنے کی وجہ سے بہت تھک چکا تھا۔ شام کے تقریباً پانچ بج چکے تھے۔ باہر گھومنے کے بجائے عمیر نے ہوٹل کے کمرے میں آرام کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ کمرے میں بیٹھا اپنے فون پر روشن مستقبل یونیورسٹی کی ویب سائیٹ دیکھ رہا تھا۔

اسی اثنا میں اس کو ویب سائٹ پر یہ پڑھنے کو ملا کہ نئے طلباء جو دور دراز علاقوں سے یونیورسٹی میں داخلہ کیلئے آتے ہیں ان کیلئے رات کو ٹھہرنے کے ساتھ ساتھ کھانے پینے کا مفت انتظام ہے۔ یہ دیکھ کر عمیر چونک گیا اور اس نے اُسی وقت یونیورسٹی پہنچنے کا فیصلہ کیا۔ ابھی اس کو ہوٹل میں آئے بیس پچیس منٹ ہی ہوئے تھے۔ اس نے جلدی سے اپنا بیگ اٹھایا اور کمرے سے نکل کر استقبالیہ کونٹر پر بیٹھے شخص سے دریافت کیا کہ اُس کو ابھی ہوٹل کا کمرہ خالی کرنا ہے لہذا کیا اس کو کرایہ کے پیسے واپس مل سکتے ہیں۔ کونٹر پر بیٹھے شخص نے جواب دیا۔۔ کوئی بات نہیں جناب، اگر آپ اِسی وقت نکلنا چاہتے ہے تو ہم آپ کو ہوٹل کے قواعد کے مطابق پچاس فیصد پیسے واپس کر سکتے ہیں۔ یہ کہہ کر اُس شخص نے کیش کونٹر سے دو سو روپے نکال کر عمیر کے ہاتھ میں تھما دیئے۔

یہ کیا ہے، میں نے تو آپ کو آٹھ سو روپے دیئے تھے۔ پھر آپ دو سو روپے ہی واپس کیوں دے رہے ہیں۔۔ عمیر کونٹر پر بیٹھے شخص سے مخاطب ہوکر کہنے لگا۔

"جناب آپ کے آٹھ سو روپے میں سے چار سو روپے آٹو والا بطور کمیشن لے کے گیا۔ وہ لوگ گراہک کو ہوٹل میں لانے کیلئے پچاس فیصد کمیشن لیتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو ابھی فون پر آپ کی بات کرواتا ہوں اُس سے"۔۔ یہ کہہ کر وہ شخص اپنے فون پر آٹو والے کو کال کرنے لگا۔ فون ملانے کے بعد اس نے سارا ماجرا آٹو والے کو سنایا اور عمیر سے بات کرنے کو کہا۔ عمیر نے ہاتھ میں فون لے کر جب آٹو والے سے سچائی دریافت کرنی چاہی تو وہ وہاں سے سخت لہجے میں جواب دینے لگا۔۔ ہاں، یہ تو ہمارا شیڈول ہے۔ ہم تو پچاس فیصد کمیشن لیتے ہیں، پھر آپ چاہے ہوٹل میں ٹھہرو یا نہیں، وہ آپ کی مرضی ہے"۔

عمیر نے فون کاٹ کر چپکے سے کونٹر پر بیٹھے شخص کو فون واپس کر دیا اور خاموشی سے آہستہ قدموں کے ساتھ ہوٹل سے باہر نکلنے لگا۔ ہوٹل سے باہر نکلنے کے بعد عمیر آٹو والے کی جھوٹی ہمدردی پر حیران تھا اور وہ خیالوں ہی خیالوں بس یہی سوچ رہا تھا کہ یہاں کے لوگ تو ہم سے بہت آگے ہیں، یہ لوگ تو ہمدردی اور انسانیت کی بھی قیمت لیتے ہیں۔

Check Also

Aalmi Youm e Azadi e Sahafat

By Gul Bakhshalvi