Badunwani Ki Bijli
بدعنوانی کی بجلی
گزشتہ چند دِنوں پہلے جموں وکشمیر سروسز سلیکشن بورڈ کی طرف سے یہ خبر سامنے آئی کہ مذکورہ بھرتی محکمہ کی طرف سے حال ہی میں جاری کئے گئے فائنانس اکونٹس اسسٹنٹ (FAA) اور جونئر انجینئرس سِول (JE) کے بھرتی فہرستوں کو کالعدم کیا گیا ہے اور وجہ یہ بتائی گئی کہ ان بھرتیوں کو انجام دینے میں وسیع پیمانے پر دھاندلیاں کی گئی ہیں۔
اس حکم نامہ کے ساتھ ہی مذید تحقیقات کیلئے یہ کیس سی بی آئی کے حوالے کیا گیا۔ آپ سبھی اس بات سے بخوبی واقف ہونگے کہ کچھ مہینے پہلے پولیس سب انسپکٹر بھرتی فہرست کے ساتھ بھی یہی واقعہ پیش آیا اور بھرتی فہرست کو کالعدم کرکے ہزاروں مستحق امیدواروں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا گیا۔ اگرچہ اکثر لوگوں کی رائے یہ ہیں کہ دھاندلیوں کی وجہ سے بھرتی فہرستوں کو منسوخ کرنا سروسز سلیکشن بورڈ کا ایک مثبت قدم ہے۔
لیکن اس کڑی کا ایک منفی پہلو بھی ہے۔ جس کو دانستہ یا نادانستہ طور پر نظر انداز کیا جارہا ہے۔ ہم سب اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ جموں وکشمیر میں بیروزگاری عروج پر ہے اور ایک ایک سرکاری ملازمت کی اسامی کیلئے ہزاروں تعلیم یافتہ نوجوان اپنی قسمت آزمائی کر رہے ہیں۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو سرکاری روزگار حاصل کرنے کیلئے دن رات ایک کرنا پڑتا ہیں۔
اور بہت زیادہ محنت و مشقت کرکے سرکاری ملازمت کیلئے امتحانات میں بیٹھنا پڑتا ہے تاکہ وہ کامیابی سے آراستہ ہو جائے۔ آج کل مقابلے کا ایسا سخت دور ہے کہ کسی بھی امتحان میں کامیابی حاصل کرنا محض دو دن کا کھیل نہیں، بلکہ اس کیلئے کئی مہینوں کی انتھک محنت درکار ہوتی ہیں۔ امیدواروں کو امتحانات میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے کوچنگ سینٹروں میں بھاری رقم بطور فیس ادا کرکے داخلہ لینا پڑتا ہے۔
اور وہاں کئی مہینوں تک مختلف مضامین کے ماہروں سے رہنمائی حاصل کرکے اپنے آپ کو اِس قابل بنانا پڑتا ہیں کہ وہ بھرتی امتحانات میں کامیابی حاصل کرکے اپنے اور اپنے والدین کے خواب پورے کر سکے۔ ہزاروں غریب والدین خود بہت سارے مشکلات کا سامنا کرکے اپنے بچوں کو اس قابل بناتے ہیں کہ وہ ان بھرتی امتحانات میں کامیابی حاصل کرکے سرکاری محکموں میں روزگار حاصل کرسکے۔
اور اُن کے روزمرہ مشکلات اور گھریلوں مسائل کا ازالہ ہو جائے۔ لہذا اس بات سے قطعی بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ایسے محنتی اور ذہین امیدواروں کی بہت ساری امیدیں متعلقہ بھرتی بورڈ سے وابستہ ہوتی ہیں۔ ایسے تمام امیدوار پراُمید ہوتے ہیں کہ متعلقہ بھرتی بورڈ ایمانداری اور صاف شفاف طریقے سے بھرتی کے امتحانات کا کام انجام دے گا اور بھرتی مُہم بدعنوانیوں اور دھاندلیوں سے پاک رہے گی۔
سروسز سلیکشن بورڈ کی طرف سے مذکورہ بالا بھرتی امتحانات کے نتائج منسوخ کرکے اگرچہ بدعنوانی پر کسی حد تک روک لگائی گئی، لیکن اس فیصلے سے بہت سارے ذہین، مستحق اور محنتی امیدواروں کے خواب چکنا چور ہو گئے۔ جنھوں نے مہینوں کی انتھک محنت سے اِن امتحانات میں کامیابی حاصل کی تھی اور سرکاری ملازمت کے خواہاں تھے اور جو بڑی بے صبری سے سرکاری محکموں میں شامل ہونے کے خواب دیکھ رہے تھے۔
اگرچہ یہ بات بھی صیح ہے کہ ایسے ذہین اور محنتی امیدواروں کی کامیابی کی کوئی سرحد نہیں ہوتی اور وہ کبھی بھی، کہی بھی اپنے لئے روزگار کے مواقع ڈھونڈ سکتے ہیں، دوبارہ ان امتحانات میں داخل ہوکر کامیابی حاصل کرکے سرکاری روزگار حاصل کرسکتے ہیں۔ مگر اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ان میں سے کچھ امیدوار شائد ایسے بھی ہونگے جو آگے مستقبل میں اس موقع سے قاصر رہے گے۔
اور تاحیات سرکاری روزگار ڈھونڈنے میں ناکام رہے گے، کیونکہ سرکاری روزگار حاصل کرنے میں محنت کے ساتھ ساتھ قسمت کا ہاتھ بھی کہی نہ کہی ضرور شامل ہوتا ہے۔ لہذا ان امتحانات کے نتائج کو کالعدم کرنا ایسے ذہین اور محنتی امیدواروں کے ساتھ سراسر نا انصافی ہے۔ ہم سب اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ ایسے بھرتی امتحانات کے کام کو شفافیت اور ایمانداری سے سرانجام دینا سروسز سلیکشن بورڈ کی ذمہ داری ہے۔
جس کے انتظامات کیلئے امیدواروں سے باضابطہ طور پر فیس وصول کیا جاتا ہے اور ایسے اہم امتحانات میں کسی بھی قسم کی دھاندلی کے واقع کا پیش آنا سلیکشن بورڈ کی اپنی کمزوری ہے۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ اپنی کمزوریوں کے عوض محنتی، ذہین اور مستحق امیدواروں کو بَلی کا بکرا بنایا جاتا ہے۔ اگرچہ ایک طرف متعلقہ حکام یہ دعوے کر رہے ہیں کہ جموں و کشمیر میں سرکاری ملازمتیں فروخت کیلئے نہیں ہیں۔
بلکہ میرٹ ہی سرکاری ملازمت میں داخلے کا واحد معیار ہے تو دوسری طرف سلیکشن بورڈ کی بھرتی مہام میں دھاندلیوں کے ایسے واقعات کا پیش آنا متعلقہ حکام کے ان دعوؤں کو جھوٹا ثابت کرتے ہوئے بورڈ کی بھرتی عمل پر سوالیہ نشان لگا رہا ہے۔ بھرتی عمل کے امتحانات میں ایسے شرمناک واقعات کے رونما ہونے سے سروسز سلیکشن بورڈ پر عوام کے اعتبار کا جنازہ نکل رہا ہے۔
اور ساتھ ہی ایسے بدعنوان ملازمین کے ذریعے ہزاروں مستحق امیدواروں کے مستقبل کے ساتھ کِھلواڑ کیا جارہا ہے۔ مندرجہ بالا پیراگراف میں پہلے ہی یہ بات واضع کردی گئی ہے کہ سروسز سلیکشن بورڈ کے کسی بھی بھرتی امتحان میں کامیابی حاصل کرنا دو دن کا کھیل نہیں ہے۔ بلکہ اس میں امیدوار کو اپنے راتوں کی نیند حرام کرکے کئی مہینوں تک سخت محنت کرنی پڑتی ہے۔
اور ساتھ ہی کئی امیدواروں کے والدین کو ان گنت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہیں تاکہ ان کے بچے اس قابل بن جائے کہ ان امتحانات میں کامیابی سے آراستہ ہو جائے۔ لہذا ان امتحانات کے نتائج کو کُلی طور پر منسوخ کرنا ایسے محنتی اور مستحق امیدواروں اور ان کے والدین کے ساتھ سراسر ناانصافی اور ان کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ ہے۔ اس سے بہتر ہے کہ متعلقہ حکام اُن خاص امیدواروں کی شناخت کرے۔
جو دھاندلیوں کے ذریعے ان امتحانات میں کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ان کو تاحیات بورڈ کے بھرتی امتحانات میں بیٹھنے کیلئے نااہل قرار دے۔ اگر حکومت کے اعلٰی عہدیداران واقعی میں جموں و کشمیر کے اُن تمام غریب والدین کا درد محسوس کر سکتے ہیں۔ جو اپنی زندگی کی تمام جمع پونجی اپنے بچوں پر صرف کرتے ہیں تاکہ اُن کے بچے اِن بھرتی امتحانات میں کامیاب ہو جائے۔
تو اُن کو چاہیے کہ ایسی بدعنوانیوں میں ملوث سرکاری ملازمین کی شناخت کرکے اُن کو ملازمت سے برخاست کرے اور اُن کی پچھلی تمام تنخواہیں جرمانے کے طور پر واپس لے اور عدالت اعلٰی سے ان کیلئے عمر قید کی سزا کی درخواست کرے تاکہ باقی ملازمین اُن سے عبرت حاصل کرکے ایسی شرمناک بدعنوانیوں میں ملوث ہونے سے پرہیز کرے۔ ذہین، محنتی اور مستحق امیدواروں کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کرنا ایک جُرمِ عظیم ہے۔
لہذا ایسے جُرم میں ملوث افراد کیلئے یہی معقول سزا ہے۔ ایسے گھناؤنے جرم میں ملوث ملازمین اور امیدواروں کی شناخت کرنا متعلقہ حکام کیلئے کوئی مشکل یا ناممکن کام نہیں ہے۔ کیونکہ اگر متعلقہ حکام یہ معلوم کرسکتے ہیں کہ کسی بھرتی امتحان میں دھاندلی ہوئی ہے تو پھر اُس دھاندلی میں ملوث افراد کی شناخت کرنا بھی ناممکن نہیں ہے۔
حکومت کو چاہئے کہ سرکاری ملازمت کے بھرتی امتحانات میں سو فیصد شفافیت لانے کی ہر ممکن کوشش کرے ورنہ وہ دن دور نہیں، جب عوام کا سروسز سلیکشن بورڈ پر اعتبار اُٹھ جائے گا اور یہ امتحانات محض ایک مذاق بن کر رہ جائے گے۔