Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Abid Ali
  4. Tareekh Masakh Na Karne Wale Sahafion Ko Salam

Tareekh Masakh Na Karne Wale Sahafion Ko Salam

تاریخ مسخ نا کرنے والے بے باک لکھاریوں کو سلام

کوئی بھی مخصوص طبقہ معاشرہ ذرائع ابلاغ کے زریعے ہی اپنا مخصوص بیانیہ بنانے میں کامیاب ہوتا ہے۔ پہلے اِس مقصد کے لیے علاقائی پنچائیتوں کھیل گاہوں اور دوسری کئی عوامی ہجوم والی جگہوں کو استعمال کیا جاتا تھا، پھر وقت نے کروٹ بدلی دنیا پریس کے کارناموں سے روشناس ہوئی اخبار چھپنے لگنے رسائل چھپنے لگے لفظوں کے زریعے انسانی سوچ کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھنے والوں نے اپنے سوچ و اُفکار کا اظہار اِن اخبارات و رسائل میں کرنے لگے تو بیانیہ بنانے والوں نے اِن اخباروں اور رسالوں کو اپنی آماجگاہ بنا لیا۔ قلم کاروں کو زر کی بنیاد پر آمادہ کیا جانے لگا کہ وہ صرف اور صرف ہمارے ہی بیانیہ کو تقویت دیں۔ مردِآہن اور بے باک لکھاریوں نے انکار کر دیا اور صرف سچ لکھنے کو ہی ترجیح دی لیکن دنیا میں مطلب و زر پرستوں کی کہاں کمی ہوتی ہے کئی ایک نے نہیں زیادہ تر قلم کاروں نے اپنی قدرتی صلاحیتوں کو بیچ دیا جس سے مخصوص بیانیہ بنانے والا طبقہ اپنےمذموم مقصد میں کامیاب ہوگیا۔

وقت نے مزید کروٹ بدلی لفظ آواز اور ساکن تصویروں نے متحرک تصاویر (ویڈیو) کی شکل دھار لی ریڈیو اور ٹی وی کی ایجاد نے ذرائع ابلاغ میں کئی گنا جان ڈال دی۔ قلم کاروں نے اینکرز کا روپ دھار لیا بیانیہ بنانے والے اِدھر بھی آن پہنچے پیسہ کے زور پر بیانیہ بنوانے لگے لیکن بُرا ہو اِس انٹر نیٹ اور اُس کی پیداوار سوشل میڈیا کا جس نے لاکھوں قلم کار اور اینکر بنا دئیے جو گھر بیٹھے بیٹھے سو دو سو کا خرچہ کر کے ہر ایک بات کا پردہ چاک کر دیتے ہیں۔ سالوں پرانے جھوٹ پر مبنی بیانیہ کو اکھاڑ پھینکتے لوگوں کی سوچ کو بدل ڈالتے لوگوں تک سچ پہنچا دیتے ہیں اُن کو اصل تاریخ بتا دیتے ہیں اِس انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کی پیداوار نئے مرد آہن اور بے باک لکھاریوں نے عام آدمی کو یہ بتایا ہے کہ کس طرح اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ میں بدلا جاتا ہے۔

سانحہ سقوطِ ڈھاکہ میں ہیروز کو ولن اور ولن کو ہیرو بنانے والوں کا بیانیہ بھی اب اِس سوشل میڈیا کے سامنے ڈھیر گیا ہے۔ اِسی لیے اب کئی ایک نامور قلم کار اور اینکر تاریخ کا سچ بتانے لگ گئے ہیں ہیرو کو ہیرو اور ولن کو ولن بتانے لگ گئے اور تو اور سالوں تک اپنا سیاسی ہیرو اور استاد ماننے والے سیاست دان بھی اب اِس سچ کو تسلیم کرنے لگ گئے ہیں کہ ہمارا ہیرو تو اصل میں ولن تھا اگر نہیں یقین آرہا تو پی ڈی ایم کی مین رہنماء مریم نواز کے پچھلے کچھ دن کے بیانات کو سن لیں جس میں سے ایک بیان یا ٹوئیٹ موصوفہ معنی خیز الفاظ میں تسلیم کر رہی ہیں کہ جمہوریت پر شب خون مارنے والوں کا پہلا سہولت کار ہمارا سیاسی ہیرو تھا۔

اگر ہم تاریخ کا غیر جانبدارانہ طور پر مطالعہ کریں اور پھر تحقیق کریں تو ہم پر یہ بات عیاں ہو جائے گی کہ مخصوص بیانیہ کس طرح بنایا جاتا ہے۔ عام آدمی کی سوچ کو کس طرح متاثر کیا جاتا ہے ،کس طرح عام آدمی کی نظر میں سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور مطالعہ سے کوسوں دور عوام کس طرح بیانیہ کو قبول کرتی ہے۔ اِس بات کو سمجھنے کے لیے ہمیں کوئی زیادہ تگو دو نہیں کرنی پڑے گی بس سنہ 65 سے سنہ77 تک کی پاکستان کی تاریخ کو بغور پڑھانا ہو گا تحقیق کرنا ہوگی جب آپ بات کو سمجھ جائیں گے تو آپ بلاشبہ اُس وقت کے مرد آہن اور بے باک لکھاریوں کو دلوں و جان سیلوٹ کرنے پر مجبور ہو جائیں گے جنہوں نے چند ٹکوں پر ضمیر کو نہیں بیچا اور تاریخ کو مکمل طور پر مسخ ہونے سے بچایا۔

Check Also

Imran Khan Ya Aik Be Qabu Bohran

By Nusrat Javed