Sarab Kabhi Nazdeek Nahi Aya Karte
سراب کبھی نزدیک نہیں آیا کرتے
کہانیاں اور روایات انسانی زندگی سے ہی کشید شُدہ ہوتی ہیں اِن کے عکس ہم اپنی نجی زندگی پر بھی دیکھتے ہیں اور معاشرہ پر بھی دیکھتے ہیں اہل فکر جب بھی کسی صدیوں پرانی کہانی یا روایت پر غور وفکر کرتے ہیں تو دنگ راہ جاتے ہیں کہ کس کمال مہارت سے راوی نے معاشرتی رویوں اور تہذیب و تمدن کو لفظوں میں پرو دیا ہے۔
ایسی ہی ایک صدیوں پرانی کہانی یا روایت قارئین کے گوش گزار ہے جو اجتماعی انسانی سوچ اور روّیوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ روایت کچھ یوں ہے کہ ایک ہاتھی کے بچے کو پکڑ کر لوہے کی زنجیر کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے۔ وہ بہت دنوں تک زنجیر کو توڑنے کے لیے زور لگاتا رہتا ہے آخر کار کئی دن کے مسلسل کوشش کے بعد وہ ہاتھی کا بچہ زور لگانا بند کر دیتا ہے کہ اِس زنجیر کو توڑنا میرے بس کی بات نہیں ہے۔ کئی سال گزرنے کے بعد جب وہ ہاتھی کا بچہ جوان اور توانا ہو جاتا ہے تو تب بھی زنجیر توڑنے کی کوشش نہیں کرتا کیونکہ اس کے ذہن میں بیٹھ چکا تھا کہ اسے توڑنا اُس کے بس کی بات نہیں ہے۔ حالانکہ حقیقت اس کے بلکل برعکس تھی وہ اسے ایک جھٹکے میں توڑ سکتا تھا اور تو اور باندھنے والا بھی جانتا تھا کہ اس کمزور زنجیر کو جوان ہاتھی آسانی سے توڑ سکتا ہے لیکن ساتھ ساتھ اسے اس نفسیاتی تھیوری پر بھی مکمل یقین تھا کہ وہ جوان و توانا ہاتھی کے زہن میں بیٹھا چکا ہے کہ وہ یہ زنجیر کبھی نہیں توڑ سکتا۔
نفسیات کی اس تھیوری کے شکار ہمارے معاشرہ میں عام آدمی کے ساتھ ساتھ کامیاب ترین آدمی بھی ہو رہے ہیں۔ اپنی زندگی میں کبھی نا کبھی وہ اس تھیوری کا شکار ہوتے ہیں اور ہوتے رہیں گے یہاں تک کہ دوسروں کو تگنی کا ناچ نچانے والے مدبر ترین سیاست دان بھی کہیں نا کہیں اس نفسیاتی تھیوری کا شکار ہوئے ہیں مسلسل ہوتے رہیں گے جس کی کئی ایک واضح مثالیں موجود ہیں جس میں سے ایک مثال میاں محمد نواز شریف صاحب کی بھی ہے جو آمریت کی سیاسی فارمنگ میں پرورش پانے کے باوجود ایک کامیاب ترین سیاسی لیڈر بن کر اُبھرا جو تین دفعہ وزیراعظم بنا اور تین میں سے دو دفعہ عوامی ووٹ سے ساٹھ فی صد سے زیادہ کی اکثریت لے کر اقتدار میں آیا۔ پنجاب میں کُلی طور پر جبکہ خیبر پختون خواہ اور بلوچستان میں جزوی طور پر بہترین نظریاتی و سیاسی ورکر رکھنے والی جماعت بنانے والا میاں محمد نواز شریف صاحب، جب محمد زبیر کی اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ ناکام ملاقاتوں کے بعد پریس کانفرس میں کہے کہ وزیر اعظم عمران احمد خان نیازی صاحب میری جنگ تمہارے ساتھ ہے ہی نہیں میری جنگ تو تمہیں لانے والوں کے ساتھ ہے تو میرے خیال میں تھیوری کے سچ ثابت ہونے کے ساتھ ساتھ عام سیاسی ورکر کی تذلیل بھی ہے کہ لیڈر کی نظر میں عام سیاسی ورکر کی ان تھک جمہوری محنت اور عام آدمی کے بے لوث ووٹ کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور وہ اب بھی تمام تر دیوقامت سیاسی بلوغت، عوامی سپورٹ و چاہتوں کے باوجود یہی سمجھتا ہے کہ باندھنے والوں کی مرضی کےبغیر آزاد نہیں ہوا جا سکتا۔
غلامی کی اس نفسیاتی تھیوری کے زیر اثر سیاسی لیڈروں سے جمہوریت کی آزادی کی جنگ لڑنے کی توقع رکھنا محض سیراب کے پیچھے بھاگنے کے سوا کچھ نہیں ہے کسی بھی مقصد کے حصول کے لیے ایک مضبوط نظریہ اور اس پر مضبوطی سے کاربند ہونا ازحد ضروری ہوتا ہے، لیکن ہمارے دیوقامت سیاسی لیڈروں کے نظریہ اور ان کے قول و فعل میں تضاد خود پر اعتماد کی کمی سے زہنوں میں کئی طرح کے سوالات ابھرتے ہیں۔
1۔ کیا یہ جمہوری لیڈر ہیں؟ (اگر یہ جمہوری لیڈر ہیں تو یہ عوام کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کے پاس کیا کرنے جاتے ہیں)
2۔ کیا یہ جمہوریت کی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں یا اپنے اقتدار کی؟
اگر یہ جمہوریت کی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں تو یہ عوام جو ووٹ دے کر عام کو خاص بنا دیتی ہے پر اعتماد کرنے کے بجائے اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کرنے کی کوشش کیوں کرتے؟
3۔ کیا "ووٹ کو عزت دو" کا بیانیہ پر عمل پیرا ہیں؟
ووٹ کو عزت ووٹر کو عزت دینے سے ملتی ہے لیکن یہاں تو۔ ہمیں اِن ذہنوں میں آنے والے سوالوں پر غور و فکر کرنا چاہیے۔
اگر ہم غور کریں تو پتا چلے گا کہ یہ صرف محض اقتدار کی جنگ ہے اقدار کا اس سے کوسوں دور سے بھی واسطہ نہیں ہے۔ اگر ہم سوچیں ہم پر واضح ہو گا کہ ہم دیوقامت لیکن کمزور اعصاب کے مالک راہبروں کی پیروکار بنے پھرتے ہیں جنہیں خود اپنی طاقت کا اندازہ نہیں ہے وہ ہمیں کیا تقویت دیں گے۔ ہم تھوڑا سا بھی سوچیں تو ہم پر عیاں ہو گا کہ یہ وہ رستہ ہی نہیں ہے جس پر جمہوریت کی آزادی کا نخلستان موجود ہیں ہم سراب کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔ ہم یونہی ادھوری جمہوریت کے صحرا میں در بدر پھرتے رہیں کیونکہ سراب کبھی بھی نزدیک نہیں آیا کرتے۔