Saturday, 29 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Abdullah Rauf
  4. Mera Ishq (2)

Mera Ishq (2)

میرا عشق (2)

سردیوں میں جب ہماری کماد کی فصل تیار ہو جاتی تھی تو کھیت ہی میں بیلنا لگا کر گنے کے رس سے تازہ اور گرم گڑ بنایا جاتا تھا میں گنے کے رس میں مالٹا نچوڑ کر اور گاڑھی لسی ملا کر ٹیسٹ ڈیویلپ کرتا تھا، میرے ابا جی جب پَت (گڑ کی پیسیاں بننے سے پہلے) تیار ہو جاتی تھی تو اس میں دیسی مکئی کی چھلی یا گاجر پھینک دیتے تھے جو تھوڑی دیر بعد نکال کر کھانے کا اپنا ہی مزا تھا جب زیادہ تر میٹھا کڑائے (جس میں رس پک کر میٹھا بنتا ہے) سے گنڈ (لکڑی کا چورس فریم جس میں میٹھا جمنے کیلئے ڈالا جاتا ہے) میں نکال لیتے تھے تو آخر میں بچوں کیلئے چانڈ (چیڑ) بنائی جاتی تھی جو بہت شیریں اور لذت دیتی تھی، جب کپاس کی فصل تیار ہوجاتی تھی تو گاؤں کی عورتوں کو کپاس چننے کیلئے کھیت میں لے کر جاتے تھے پھر شام کو دادا جی اسی چنی ہوئی کپاس سے تھوڑی تھوڑی کپاس اجرت کے طور پر ان عورتوں کو دیتے تھے اور آخر میں ہمیں بھی جھولی بھر کر مل جاتی تھی جو ہم چوک میں ہٹی (دکان) پر بیچ کر مختلف چیزیں کھاتے، میرا ایک دوست بہت شریر تھا وہ دکاندار سے جان بوجھ کر اس چیز کا پوچھتا جو دکان میں سب سے اوپر دور پڑی ہوتی جیسے ہی دکاندار وہ چیز اتارنے کیلئے اپنا رُخ پھیرتا تو وہ مکھن ٹافیاں چرا لیتا تھا۔

سردیوں میں رات کو السی یا چاول کی پنیاں ایک خاص اجزائے ترکیبی کے ساتھ تیار کی جاتی تھیں، جو ہم صبح صبح جب سیپارا (قرآن شریف) پڑھنے قاری صاحب کے پاس جاتے تھے تو ساتھ لے جاتے تھے پھر وہاں سب بچے بارٹر سسٹم کی طرح پنیاں ایک دوسرے کے ساتھ ایکسچینج بھی کرتے تھے اور اگر سبق یاد نہیں ہوتا تھا تو قاری صاحب کیلئے پنیاں لے جانا کبھی نہیں بھولتے تھے، گوبھی سرسوں کی گندل کا ساگ بہت محنت اور شوق کے ساتھ بنایا جاتا تھا اور پھر اُس میں کئی اور لوازمات ڈالے جاتے تھے پھر جب ساگ بن جاتا تھا تو برتن میں جتنا ساگ اتنا ہی مکھن ڈال کر باقی لوگ تو مکئی کی روٹی کے ساتھ کھاتے تھے لیکن مجھے گندم کی مکھن کے ساتھ چوپڑی ہوئی روٹی کے ساتھ ہی کھانا پسند تھا مکئی کی روٹی مجھے صبح دھی میں بھگو کر کھانی بہت اچھی لگتی تھی۔

اُس زمانے میں پورے محلے میں صرف ایک ہی گھرمیں ٹی وی ہوتا تھا جہاں سارے محلے کے، چھوٹی اور بڑی عمر کے سبھی بچے اور بچیاں ایک ہی جگہ پر بیٹھ کر بہن بھائیوں کی طرح "عینک والا جن" ڈرامہ دیکھتے تھے آج یو ٹیوب یا نیٹ فلیکس پر فلم دیکھنے میں وہ مزا نہیں آتا جو اُس وقت کچی ٹاکی یا پی ٹی وی پر ہفتہ وار لگنے والی فلم دیکھنے میں آتا تھا، اُس زمانے میں ڈرامہ یا فلم شروع ہونے والے وقت پرشوق کی وجہ سے ہم کھانا تک بھول جاتے تھے کبھی کبھی یار دوست آپس میں دس دس روپے ملاکر ایک رات کیلئے کرائے پر وی سی آر لے آتے تھے پھر اُس رات ہمیں خوشی کے مارے گرمی، سردی، بھوک، پیاس اور نیند کی بالکل کوئی پرواہ نہیں ہوتی تھی۔

آج کل آئی فون یا کسی بھی موبائل میں اچھے سے اچھا فلٹر لگا کر سلفی لینے پر وہ خوشی نہیں ملتی جو اُس زمانے میں سائیکل بمعہ کیمرے والے پٹھان سے چند روپوں کے عوض تصویر کھینچوانے اور پھرکافی صبر آزما انتظار کے بعد تصویر ملنے پر ہوتی تھی، خاص طور پر شادی پر مووی (فلم) بنانے اور پھر وی سی آر پر شادی والی مووی سب کے ساتھ مل بیٹھ کر دیکھنے اور ٹی وی پر اپنا اپنا چہرہ تلاش کر تے وقت الگ ہی فیلنگس (احساس) ہوتی تھی، ٹیپ ریکاڈر میں کیسٹ ڈال کر پہلے اپنی آوازیں ریکارڈ کرنا اور پھر بیٹھ کر سننا ہمارا محبوب مشغلہ تھا، اگر کوئی عزیز یا رشتہ دار مہمان قریبی گاؤں سے آتا تھا تو اس کیلئے سپیشل چینی والی چائے بنتی تھی اور کھانے میں روٹی کے ساتھ دیسی انڈہ بنا کر سالن کے طور پرپیش کیا جاتا تھا ساتھ میٹھے میں حلوا یا سویاں ضروربنتی تھی۔

گاؤں سے شہر جانے کیلئے تانگے گھوڑے چلتے تھے جو بہت شہنشاہی اور دلچسپ سواری ہوتی تھی مگر بعض اوقات تانگہ فل بھرنے کیلئے طویل انتظار بھی کرنا پڑتا تھا، جو بندہ ایمرجنسی کے علاوہ "سالم تانگہ" کروا کر کہیں جاتا تھا تو اسے بڑی رشک کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، سائیکل مرمت کرنے والی دکان سے چھوٹی چھوٹی سائیکلیں کرائے پر چلانے کیلئے ملتی تھی کرایہ فی گھنٹے کے حساب سے موصول کیا جاتا تھا ہمیں جس دن ایک گھنٹے کے کرایے جتنے روپے میسر ہوتے تھے ہم سائیکل لے کر لانگ ڈرائیو پر نکل جاتے تھے اور ہم اتنے خوش اور پرجوش ہوتے تھے کہ ہمیں وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا تھا اکثر سائیکل واپس جمع کرواتے ہوئے رقم سے زیادہ وقت استعمال کی وجہ سے تکرار ہوتی تھی۔

ہم نے کبھی پتنگ (گڈی) بازار سے نہیں خریدی تھی دکان سے صرف تہ (پنے) والا اپنی پسند کا خوبصورت رنگ والا باریک گڈی کاغذ خرید کر پھر اسے بلیڈ سے چورس کاٹ کر بانس والے جھاڑو کی دو دوتیلاں تیر کمان کی طرح کاغذ کے اوپر رکھ کر چاروں نکروں پرریل (نلکی) کے دھاگے سے کمر بند کر دی جاتیں تھیں اور پھر پتنگ کا بیلنس برابر رکھنے کیلئے اسی کاغذ کا چھوٹا سا ٹکڑا باریک باریک کتر کر جھالر نما پونچھ (دم) پتنگ کی نچلی نکر پر لگا دی جاتی تھی، پتنگ کے سینے پر دو دو متوازی باریک سوراخ نکال کر موٹے دھاگے کی نتھ (لگام) ڈال دی جاتی تھی پھر اس لگام کو ریل (نلکی) کے دھاگے سے باندھ کر کسی دوست کی مدد سے پتنگ کو کَنی (ہوا میں اچھالنا) دے کر اڑایا جاتا تھا پھر جیسے جیسے پتنگ ہوا کے رخ پر آسمان کی طرف بلند ہوتی جاتی تھی ہم دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہوتے جاتے تھے۔

سردیوں میں چونکہ دن چھوٹے ہوتے ہیں اس لئے سکول سے چھٹی کے بعد گاوئں کے تقریباً ہر محلے میں کنچے(پِل گولی) اور اخروٹ کھیلنے والوں کی وجہ سے رونقیں لگیں ہوتیں تھیں اخروٹ کھیلنے سے پہلے کسی ماہر پچ کیوریٹر کی طرح کھیلنے کی جگہ کا انتخاب کیا جاتا تھا، کسی دیوار کے ساتھ ہموار زمین پر ایک کُھتی (کھڈ) نکالی جاتی تھی اخروٹ کھتی کی طرف پھیکنے اور نشانہ لگانے میں جو سب سے زیادہ ماہر ہوتا تھا وہ سب سے زیادہ اخروٹ جیت لیتا تھا اخروٹ کو نشانہ لگانے سے پہلے تاکنے کا ہر ایک کا مختلف دلچسپ اور انوکھا انداز ہوتا تھا، نشانہ لگانے کیلئے عموماً بڑے سائز کے اخروٹ کو منتخب کیا جاتا تھا جس میں بڑی مہارت سے سوراخ نکال کر چھرلے پگلا کر سوراخ کے ذریعے اُس میں سِکل (سکہ) بھر دیا جاتا تھا اور پھر اوپر سلوشن ٹِیپ لپیٹ دی جاتی تھی ایسا کرنے سے نشانہ خطا ہونے کے بہت کم چانسز ہوتے تھے۔ ہمیں اخروٹ جیت جیت کر گھر میں جمع کرنے میں کافی دن لگ جاتے تھے لیکن جب ہارتے تھے تو ایک ہی دن میں گھر میں جمع سارے اخروٹ ہار جاتے تھے۔

جیسے ہی رمضان شریف کے دس روزے گزرتے تھے دکانوں پر اسلامی، فلمی اور مختلف رنگوں اور پھولوں والے خوبصورت عید کارڈز کی بہار آ جاتی تھی ہماری کوشش ہوتی تھی کہ دوستوں کو ہم، پہلے عید کارڈ بھیجیں کیونکہ جوابی عیدکارڈ پہلے سے زیادہ بیش قیمت بھیجنے کا رواج تھا، میرے داداجی اور نانا جی ماشااللہ ہر سال مسجد میں اعتقاف بیٹھتے تھے تو ہم بڑے ذوق وشوق کے ساتھ ان کی افطاری کا سامان لے کر جاتے تھے کیونکہ ہمیں وہاں پر کھانے کو بہت کچھ مل جاتا تھا اور ساتھ میں ہم سب بچوں کے لباس پر گلاب کا عطر بھی لگا دیاجاتا تھا، پھر چاند نظر آنے پر ان کو مسجد سے پھولوں کے ہار ڈال کر بڑی محبت کے ساتھ ایک ہجوم کی شکل میں گھر لایا جاتا تھا چاند رات مہندی کے پھول ہاتھوں پر بنواتے خوشی کے مارے نیند نہیں آتی تھی، عید والے دن رشتہ دار بچوں کے ساتھ ایک دوسرے سے زیادہ عیدی اکٹھی کرنے کا healthy competition ہوتا تھا۔

آج اگر ہم اپنے ارد گرد یکھیں تو عجیب نفسا نفسی کا عالم اور پیسے کی نہ ختم ہونے والی دوڑ لگی ہوئی ہے حالانکہ اگر ہم غور کریں تو پچیس تیس سال پہلے ہمارے پاس جو مکان، لباس، سواری اور دیگر سہولیات ہوتیں تھیں آج ہم سب اس سے بہت زیادہ بہتر پوزیشن میں ہیں اور ہمارے پاس الحمداللہ سب کچھ ہے لیکن اُس دور والاسکون، برکت، خلوص، مٹھاس، برداشت اور شکر کہیں کھو گیا ہے۔

(ختم شد)

Check Also

Shaoor Ho To Safar Khud Safar Ka Hasil Hai

By Rao Manzar Hayat