Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Abdullah Khattak
  4. 2023 Muashi Lehaz Se Pakistan Pe Bhari

2023 Muashi Lehaz Se Pakistan Pe Bhari

2023 معاشی لحاظ سے پاکستان پر بھاری‎

سال 2024 کا آغاز ہو چکا ہے۔ مالی لحاظ سے یہ سال پاکستانیوں کے لیے مشکلات سے بھرپور برس ثابت ہوا ہے۔ مہنگائی کی شرح بلند ترین رہی۔ اس وقت عوام کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ فروری 2024 میں آنے والی حکومت جس کی بھی ہو۔ وہ صرف عوام کی بہتری کے لیے کام کرے۔ مہنگائی میں کمی لائے۔ بجلی، گیس، اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں جتنا ہو سکے کمی کرے۔ روزگار کے بہتر مواقع پیدا ہو اور حقیقی معنوں میں عوام کی فلاح کے لیے کام کرے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایک نئی منتخب حکومت کے وزیروں کو اب مسائل کی نشاندہی نہیں بلکہ ان کے حل پیش کرنا ہوں گے۔

پاکستان کو سال 2024 کے لیے معاشی محاذ پر جن اہم ترین چیلنجز کا سامنا ہے وہ نا صرف دائمی سیاسی عدم استحکام کے نتیجے میں تباہ شدہ معیشت کی بحالی ہوں گے، بلکہ عام انتخابات کے بعد نئی حکومت کو تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر خود انحصاری کی منزل کی درست سمت کا تعین بھی کرنا ہوگا۔ دیگر چیلنجوں میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے پروگرام کو سخت حالات میں مکمل کرنا، مہنگائی اور شرح سود کی تاریخی بلند ترین سطح، اندورنی قرضوں پر سود کی مد میں ادائیگیوں میں ہوشربا اضافہ، بیرونی قرضوں کی ادائیگی کا شدید بحران، جاری اکاؤنٹ خسارے کو سنبھالنے میں معشیت کی سست روی، غیر ملکی ذمہ داریوں کی بھاری ادائیگی، تیزی سے کم ہوتے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر، بڑھتا ہوا مالیاتی خسارہ اور بیروزگاری، پیداوار میں جمود، بجلی اور گیس کے شعبوں میں بھاری گردشی قرضہ، نقصان میں جانے والے سرکاری اداروں کو ٹیکس دہندگان کے پیسے سے مسلسل فنڈنگ جیسے مسائل شامل ہیں۔

سب سے اہم، بڑھتے ہوئے قرضوں کے بوجھ کو کیسے سنبھالا جائے جو جاری اخراجات میں ہوشربا اضافے کی وجہ ہیں۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 30 اکتوبر 2023 تک وفاقی حکومت کے مجموعی قرضے اور واجبات 62.48 ٹریلین روپے تھے۔ ان میں سے غیر ملکی قرضے اور واجبات 22 ٹریلین روپے تھے جو کہ گذشتہ سال کے مقابلے میں 45 فیصد زائد ہیں۔ عالمی مالیتی ادارے بھی پاکستان کے معاشی ماڈل کو ناکارہ قرار دے رہے ہیں ان کے مطابق یہ ماڈل اب اس قابل نہیں کہ ملک کو درپیش چیلنجز سے چھٹکارہ دلا سکے۔

حال میں ہی ورلڈ بینک نے پاکستان کے ماڈل کو ناکارہ اور امیر طبقے کے حق میں قرار دیا ہے۔ ورلڈ بیک کے مطابق یہ ناکارہ ماڈل صرف اور صرف اشرافیہ کو فوائد پہنچا رہا ہے۔ یہاں سوال یہ ہے ان معاشی مسائل کا تدارک کیسے ممکن ہے؟ معاشی ماہرین اس بات سے متفق ہے کہ اس معاشی نظام میں اتنی سکت نہیں کہ وہ پاکستان میں بہتری لا سکے۔ سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا بھی یہی سمجھتے ہیں کہ پاکستان کا ٓسل مرضہ قرض ہی ہے۔ ان کے مطابق 65 برسوں میں جتنا قرض لیا گیا اس سے دوگنا قرض ہم نے گزشتہ دس برسوں میں لیا ہے جو بہت بڑا مسئلہ ہے۔

حفیظ پاشا یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ابھی تک کسی بھی پارٹی کی جانب سے اس مسئلے سے کو نمٹنے کا کوئی فریم ورک نہیں دیا اور نہ ہی اس مسئلے کو اپنے منشور میں شامل کیا ہے۔

سیاسی ماہرین، بین لاقومی ادارے تمام اس بات سے متفق ہے کہ ملک کا اصلہ مسئلہ معاشی ہےقرضوں کا حصول کم اور پیداوار کو بڑھانا ہوگا، لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ کوئی پارٹی اس جانب توجہ کیوں نہیں دے رہی۔ معاشی مسائل کو اپنے منشور میں نمایاں جگہ دینے میں ناکام کیوں ہے؟

Check Also

Amina Ki Muhabbat

By Mansoor Nadeem