Thursday, 10 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shaheen Kamal
  4. Do Neem Mulk e Khudadad (5)

Do Neem Mulk e Khudadad (5)

دو نیم ملکِ خداداد (5)

ایسے بدترین حالات میں بین الاقوامی ریڈ کراس ICRC متحرک ہوئی اور اس نے بنگلہ دیش کے طول و عرض میں بچے کھچے پاکستانیوں کو اکٹھا کیا اور انہیں کھلے میدانوں میں بسائی گئی خیمہ بستیوں میں یا کسی اسکول کی عمارت میں ان کے رہنے کا انتظام کیا۔ اس وقت ریڈ کراس کے مطابق 540,000 افراد کا کیمپس میں اندراج ہوا تھا۔ ان دنوں بنگلہ دیش کی تیرہ ڈسٹرک میں 66 رفیوجی کیمپ موجود تھے۔ یہ محب وطن پاکستانی، بے خانماں و برباد، ان کیمپوں میں انتہائی بد حالی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور تھے کہ انہیں مہاجر کا درجہ حاصل نہیں تھا۔ یہ بد نصیب "بے زمین" لوگ اپنی ہی سرزمین پر بے وطن تھے۔ پاکستان نے انہیں قبولا نہیں اور بنگلہ دیش انہیں اپنانے کو تیار نہ تھا۔

1973 میں ان بے وطنوں کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے تینوں ملک یعنی ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش نے دہلی میں ایک معاہدے پر دستخط کیا، جس کے تحت پاکستانی حکومت نے 1973 - 1974 میں ایک لاکھ تہتر ہزار پاکستانیوں کا بنگلہ دیش سے انخلا ممکن بنایا۔

اس ایک لاکھ تہتر ہزار محصورین میں پاکستان آنے والے افراد چار شقوں میں منقسم تھے۔

پہلی شق اس میں سنٹرل گورمنٹ کے ملازمین تھے۔

ظاہر ہے یہ مغربی پاکستانی ہی تھے۔

دوسری قسم میں وہ محصورین جو مغربی پاکستان کا ڈومیسائل رکھتے تھے۔

تیسری کیٹیگری میں منقسم افراد، یعنی بٹے ہوئے خاندان والے۔ اس میں بھی بیشتر افراد کا تعلق مغربی پاکستان ہی سے تھا۔

چوتھی کیٹیگری "ہارڈ شپ" کی تھی صرف اسی شق میں مظلوم مشرقی پاکستانی یا بہاری آ سکتے تھے مگر اس شق میں آنے والے بہاریوں کی تعداد قلیل تھی۔

انیس سو پچاسی سے اٹھاسی تک، پرائم منسٹر محمد خان جونجو کے دور حکومت میں یہ طے پایا کہ بنگلہ دیش کے کیمپ میں رہنے والے تمام کے تمام افراد پاکستانی ہیں اور پاکستان کی حکومت انہیں وہاں سے لا کر پاکستان میں بسانے کی ذمہ دار ہے۔ چاروں صوبوں کے اس وقت کے سینیٹر حضرات نے بنگلہ دیش کے کیمپوں کا دورہ کیا اور ان الم نصیبوں کو یہ یقین دلایا کہ عنقریب حکومت پاکستان ان کی منتقلی کو عملی جامہ پہنائے گی مگر

اے بسا آرزو کہ خاک شدہ

جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں رابطہ عالم اسلامی کے سیکٹری جنرل ڈاکٹر عبداللہ عمر نے "رابطہ ٹرسٹ" تشکیل دیا تھا جو حکومت پاکستان اور مسلم ورلڈ لیگ MWL کے مابین تھا۔ اس میں طے پایا کہ بنگلہ دیش کے کیمپوں میں موجود لوگوں کو پاکستان میں لا کر بسایا جائے گا۔ رابطہ کمیٹی نے مسلم ممالک اور پاکستان کی مدد سے ان مہاجرین کی آبادکاری کے لے فنڈ اکٹھا کیا جو پاکستانی بنک میں جمع کرایا گیا۔ پاکستانی حکومت نے اس مد میں رابطہ کمیٹی کو پچیس کروڑ روپے دیے تھے۔

پنجاب میں محصورین مشرقی پاکستان کے لیے چالیس ہزار مکانات کی تعمیر کرنے کے لیے زمین مختص کی گئی۔

1992 میں میاں نواز شریف کے دور حکومت میں جب بنگلہ دیش کی وزیراعظم خالدہ ضیاء نے پاکستان کا دورہ کیا تو دونوں حکومتوں نے طے کیا تھا کہ ڈھائی لاکھ محصورین کو پاکستان واپس لایا جائے گا مگر اس پہ عمل درآمد نہیں ہوا۔ البتہ جنوری 1993 میں وزیر اعلیٰ پنجاب غلام حیدر وائیں کی نگرانی میں 325 محصورین بنگلہ دیش کا پہلا قافلہ پنجاب میں لا کر آباد کیا گیا۔ ایک ہزار مکانات میاں چنوں میں تعمیر کیے گئے اور وہاں فقط 63 خاندانوں کو آباد کیا گیا۔

ضیاء الحق کے دور میں جو تھوڑے بہت محصورین آئے وہ پنجاب کے مختلف شہروں میں بسائے گئے۔

دسمبر 1997 کو رابطہ ٹرسٹ کا مرکزی اجلاس اسلام آباد میں ہوا جس میں فنڈ کے حصول کی خاطر مہم چلانے کا فیصلہ ہوا مگر جنرل مشرف کے دور میں رابطہ ٹرسٹ کے اثاثے یونائٹیڈ نیشن کے کہنے پر منجمد کر دیے گئے تھے گو بعد میں ان اثاثوں کا آڈٹ کروانے کے بعد انہیں بحال کر دیا مگر تا حال پاکستانی حکومت ان اثاثوں کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے رہی ہے۔ محصورین مشرقی پاکستان کی آباد کاری کے لیے رابطہ کمیٹی کے ٹرسٹ میں دو ارب سے زائد رقم موجود ہے۔

اب بھی بنگلہ دیش کے چھیاسٹھ کیمپوں میں محبان پاکستان محصور رہ کر ایک اذیت ناک اور پر الم زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اپنے وطن میں آباد آزاد شہریوں کے لیے ان کیمپوں میں کسمپرسی سے بسے ہوئے محصورین کی ابتلاء و مشکلات کا اندازہ لگانا بھی ناممکن کہ وہ بد نصیب ایسی زندگیاں گزار رہے ہیں جس کا تصور بھی ہمارے لیے مشکل۔ کیمپوں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ۔ بجلی، پانی، تعلیم اور طبی سہولیات کا شدید فقدان۔ پینے کا پانی حاصل کرنے کے لیے کئی کئی گھنٹے لائن میں لگنا پڑتا ہے۔ بیت الخلا کی صورت حال اور بھی عبرت انگیز کہ ستر لوگوں پر اوسطاً ایک بیت الخلا۔ اکثر بے کس و ضعیف تو قطار میں لگے اپنی باری کے منتظر رہتے ہوئے ہی فارغ ہوجاتے ہیں۔ برسات میں صورت حال اور بھی مخدوش کہ غلاظت راستوں میں بہتی پھرتی ہے۔ آٹھ بائی آٹھ کے ایک مختصر سے کمرے میں اٹھ دس نفوسِ زندگی کا جبر سہہ رہے ہیں۔ کیمپوں میں لوگ تپ دق، یرقان اور دیگر جان لیوا بیماریوں کا شکار ہیں اور علاج معالجہ کی سہولیات ناپید۔

محمد پور اور میر پور کے کیمپوں میں محصور چالیس چالیس ہزار سے زائد باشندے پانی کے حصول کے لیے کیمپ میں لگے نلوں پر انحصار کرتے اور گھنٹوں پانی کے انتظار میں بے بسی سے قطار میں کھڑے بوند بوند پانی کو ترستے ہیں۔ انتظامیہ کا جان لیوا مذاق کہ صبح و شام صرف ایک ایک گھنٹے کے لیے ان نلوں میں پانی چھوڑا جاتا ہے۔

یہ کس قدر افسوس اور شرم کا مقام ہے کہ حکومت پاکستان ان محبان پاکستان کو گزشتہ پچاس برسوں سے وطن منتقل کرنے میں دانستہ کوتاہی اور آنا کانی کر رہی ہے۔ صرف تین ساڑھے تین لاکھ محصورین کو اپنے وطن واپس لا کر بسانے میں آخر ایسی کون سی رکاوٹ آڑے آ رہی ہے جبکہ ان کی آباد کاری کی مد میں خرچ ہونے والا روپیہ تک حکومت کے پاس بینک میں محفوظ ہے۔

بنگلہ دیش ان محصورین کو اپنا شہری ماننے سے انکاری اور المیہ یہ کہ پاکستان عرصے سے اپنے ان محب وطن شہریوں کو وطن واپس لانے میں لیت ولعل سے کام لیتا چلا آ رہا ہے۔ پاکستان وآپسی محصورین بنگلہ دیش کا حق ہے اور حکومت پاکستان کو انہیں یہ حق دینا ہی ہوگا۔

یہ دنیاوی عدالت اگر انصاف نہیں کرتی تو پھر انجام کار فیصلہ آخری عدالتِ عالیہ میں ہوگا جہاں کوئی سفارش نہیں چلتی۔ ان شاءاللہ ہمارے ہاتھ ان تمام ظالموں کے گریبانوں پر ہوں گے اور یقیناً وہ "عادل" مجرموں کے لیے بھیانک ترین سزا تجویز کرے گا۔

ختم شُد

Check Also

Kangal Baghi

By Zubair Hafeez