Gul O Lala Se Kalam Aur Sarsabz Pakistan
گل و لالہ سے کلام اور سر سبز پاکستان
حبس اور گھٹن کا موسم اور تپتی دوپہر وجہ بنی یا معاملہ کچھ اور! کہ نور بجنوری یہ کہنے
اتنی بے رحم نہ تھی زیست کی دوپہر کبھی
ان خرابوں میں کہیں سایہ گیسو بھی نہیں
پر مجبور ہوئے۔ مگر اس وقت زیر بحث شاعر کے تخیلانہ گیسو نہیں ہاں مگر چھاؤں کا تذکرہ ضرور مگر وہ بھی درختوں کی کہ راقم اب زلفوں کی چھاؤں کے ذکر کا خطرہ مول نہیں لے سکتا۔ ڈاکٹر حمزہ مصطفائی تو ٹہرے علمی و سماجی شخصیت جو اعلی ترین عہدے سے فراغت کے بعد خدمت انسانیت میں مصروف، انہی کی توجہ کا فیض ہے کہ سوچ اور قلم کا رخ گل و لالہ کی طرف مڑ گیا۔ پھر بھلا ہو بشیر بخاری کا کہ جنہوں نے کچھ کام آسان کیا وگرنہ میری عرق ریزی مزید بڑھ جاتی کہ بلا مقصد تحریر اپنا اور قارئین کے وقت کا ضیائع سمجھتا ہوں۔
سایہ درخت کا ہو یا رشتوں کا ہر دو میں انسان سکون اور راحت ہی پاتا ہے۔ تیز رفتار ترقی تو تھی ہی مگر سیل فون نے زندگی کی بہت سی رعنائیاں چھین لیں۔ انسانوں سے وہ محبت نہ رہی تو پودوں سے کیا رہنا تھی۔ شاید اسی لیے کسی نے لکھا تھا کہ "مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ"۔
مگر قدرت کے حسیں نظاروں اور مرغزاروں میں کچھ تو ایسا ہے کہ انسان پریشانی میں گھرا ہو یا دھوپ کی تمازت سے جلا، ٹھنڈی آغوش میں جانا پسند کرتا جو جنگلوں، پہاڑوں اور ابشاروں کی صورت میں دستیاب۔ مگر تیزی سے معدوم ہوتے جنگلات نہ صرف اس آغوش سے محروم کر رہے ہیں بلکہ کائنات کے حسن کو تہہ و بالا اور انسانی زندگی پر بھی منفی اثرات گلوبل وارمنگ کی صورت میں ڈال رہے ہیں۔
درخت جو کل رقبہ کے کم از کم 23 فی صد رقبہ پر ضروری تھے مگر عدم توجہی و عدم دلچسپی کی بنا پر اب پاکستان میں صرف 2.1 فی صد پر دستیاب جبکہ بھارت 23 فی صد کے ساتھ بہت آگے مگر اس کے گنجان آباد شہروں کی حالت ہمارے لاہور کی طرح یا اس سے ملتی جلتی ہی ہے۔ لاہور جسے پھولوں اور باغوں کا شہر کیا جاتا تھا بدقسمتی یہ ہوئی کہ گزشتہ تین دہاییوں میں اہل لاہور نے 77 فی صد سے زائد رقبہ کو درختوں کے بوجھ سے آزاد کرکے بلند و بالا تعمیرات کر لیں اور اتنی کیں کہ فی مربع کلومیٹر 6275 سے زائد افراد رہائش پذیر۔
مجھ سمیت لاہور ہر دور میں نہ صرف شاعروں، ادیبوں اور اہل دل کا شہر رہا بلکہ ماضی کے بادشاہ بھی اس کی محبت کے اسیر رہے اس لیے فعال وزیر اعلی کو سرسبز اور اسے دوبارہ پھولوں و باغوں کا شہر بنانے کی طرف توجہ دینی ہوگی۔ ایک تحقیق کے مطابق صحت مند زندگی اور پرفضا ماحول کی دستیابی کے لیے فی فرد 16 درخت ضروری جبکہ ہمارے ہاں اس سے الٹ بلکہ بالکل ہی الٹ کہ 36 افراد کے لیے ایک پودا میسر۔ موسمیاتی تغیرات یونہی تو رونما نہیں ہونے لگے۔ موسم کی شدت ایسے ہی تو نہیں بڑھنے لگی۔ دھوپ ایسے ہی تو نہیں جھلسانے لگی کچھ تو وجہ ہے درخت نعمت خداوندی تھے ان کی حفاظت نہ کی تو اجرام فلکی بھی برس پڑے۔
ماہرین کے مطابق گزشتہ کچھ عرصہ کے دوران 13 ملین ہیکٹر رقبہ سےجنگلات کا خاتمہ موسمیاتی تغیر کی بڑی وجہ بنا۔ حقیقت تو یہ ہے پودوں کی 60 ہزار کے لگ بھگ اقسام زمین پر قدرتی حسن کی آمین کہ درخت ہی انسانی صحت اور کرہ ارض کے شفاف ماحول کے ضامن۔ دل فطرت شناس نہ ہونے کے باعث انسان ان سے حق دوستی نبھا نہ سکا۔ اقبال نے اسی لیے تو کہا ہے کہ
خدا اگر دل فطرت شناس دے تجھ کو
سکوت لالہ و گل سے کلام پیدا کر
گل و لالہ سے کیا کلام ہونا تھا اب سیل فون سے ہی کلام۔ مگر یہ امر خوش آئند کہ دنیا بھر میں پودوں سے دوستی کا رجحان گزشتہ دو دہائیوں میں بڑھا ہے۔ عالمی سطح پر اس کے محرک روس اور چین جبکہ امریکہ، ویتنام اور بھارت بھی اس دوڑ میں آگے۔ پاکستان میں عمران خان کے دور حکومت میں بلین ٹری کے نام سے اس بارے شعور بیدار کیا گیا۔ مگر ایک بڑا مسئلہ شجرکاری سے زیادہ انکی دیکھ بھال کا ہوتا ہے۔ بلین ٹری پراجیکٹ کی کامیابی پودوں کی حفاظت سے ہی عبارت ہے۔
مصطفائی تحریک گزشتہ ایک ماہ سے سر سبز پاکستان مہم پر ہے۔ ڈاکٹر حمزہ نے بتایا کہ اس بار پاکستان کے گلی کوچوں کو مصنوعی جھنڈیوں کی بجائے پودوں سے سجانے کا عزم ہے۔ اس مہم کو کامیاب بنانے کے لیے طلبہ اور نوجوانوں کو خصوصی طور پر فعال کیا جا رہا ہے۔ ایف جی آر ایف کے ڈویژنل آرگنائزر محمد اویس قادری کے مطابق انکی تنظیم گزشتہ کئی سالوں سے گرین پاکستان پراجیکٹ پر کام کر رہی پے اور ماہ اگست میں یہ مہم پورے پاکستان میں زور و شور سے چلائی جاتی ہے۔
بحریہ ٹاون میں گزشتہ سال میں بھی اس مہم کا حصہ رہا۔ اس نکتہ کہ کون سے پودے فضائی آلودگی پر زیادہ موثر طریق سے قابو پانے میں ممد اور ماحولیات پر تیزی سے اثر انداز ہو سکتے ہیں کے لیے برادرم بشیر بخاری سے رجوع کیا تو انہوں نے اس بارے گرانقدر معلومات فراہم کیں۔ جو یقیناً ہر پاکستانی اور بالخصوص شجرکاری مہم کی آرگنائزیشنز کے لیے راہنما۔ بشیر بخاری کے مطابق برگد اور پیپل کے درخت دن رات دونوں اوقات میں آکیسجن خارج اور کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں۔
نیم اور دریک کا ایک جوان درخت (10) ائیر کنڈیشنز کے برابر ٹھنڈک پیدا کرتا ہے۔ جامن کا درخت جہاں پھل اور گھنا سایہ مہیا کرتا ہے وہیں بڑے درخت کے روپ میں سورج کی گرمی کو زمین سے ٹکرانے سے روک کر زمین کی سطح کو شدید گرم ہونے سے بچاتا ہے۔ شریں کا درخت نہ صرف برگد کی طرح بڑا درخت ہے بلکہ اس کی لکڑی بھی پختہ ہوتی ہے اس درخت کی خاصیت یہ ہے کہ جب یہ درخت جوان ہوتا ہے تو چھتری بن کر نہ صرف سائیہ دیتا ہے بلکہ اس کی اور اس کے پھولوں کی خوشبو شہد کی مکھیوں کو اپنی طرف مقناطیس کی طرح کھینچتی ہے۔ جس کی وجہ سے اس درخت کو شہد کی فیکٹری بھی کیا جاتا ہے۔
سرسبز پاکستان کا جذبہ ہر گھر کے صرف ایک فرد میں ہی جاگ جائے تو 23 فی صد رقبہ پر درختوں کا خواب وقت سے پہلے شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔ آییے اپنے دل کو فطرت شناس بنا کر گل و لالہ سے کلام کریں۔
خدا اگر دل فطرت شناس دے تجھ کو
سکوت لالہ و گل سے کلام پیدا کر