Aao Ke Sub Huzur Se Ehad e Wafa Karen
آو کہ سب حضور سے عہد وفا کریں
عصر حاضر کے تمام مفکرین، مفسرین، ماہرین طب و سائنس، علوم عصریات کے استاذ، شعبہ انجئیرنگ کے ماہرین، فقیہ، علما اور عامی افراد، سبھی اس پر متفق کہ یہ دور ایجادات، انکشافات اور سائنسی علوم کی ترقی کا دور، اور ایسا کہ عقل دنگ رہ جائے۔ زمین اور سمندر اپنے اندر چھپے خزانے اگل رہے ہیں، دنیا گلوبل ویلج کہ ہفتوں کی مسافتیں گھنٹوں اور گھنٹوں کی ساعتوں میں طے ہونے لگیں۔
انسانی عقل نے علوم و فنون کے وہ دریچے بھی وا کر دئیے کہ ماضی قریب تک جن کا تصور بھی محال۔ چاند تو تسخیر ہوا اب مریخ پر زندگی کے آثار کا پتہ لگایا جا رہا ہے۔ اتنی تمہیدی گفتگو کے بعد بحثیت انسان جب اپنے ارد گرد نظر پڑتی ہے تو غربت، جہالت، ظلم، جبر اور مفاد پرستی کے سائے گہرے اور تمام تر آسائشات و تعشیات کے باوجود سکون و اطمینان قلب غارت جبکہ ڈپریشن، بے یقینی، افراتفری اور بے سکونی نے ہر گھر میں گھر رکھا ہے۔ کہنے کو تو سونا اگلتی زمینیں مگر فاقوں سے خود کشیاں اور بڑھتی بھوک و افلاس۔
دولت کی ریل پیل مگر معاشی عدم تفاوت، علوم کے سمندر مگر اعمال کا رجسٹر خالی ادب، حکمت اور برداشت کہ جس نے علم کو مزین اور اسے نافع بنانا تھا عملا غائب۔ اب اسے انسانی ترقی کا عروج کہیں یا زوال آدمیت، کہ آنکھیں انسانی ترقی کی معراج دیکھ کر خیرہ ہوا چاہتی ہیں جبکہ اس کے برعکس دل بے سکونی کی آماجگاہ! ماہ ربیع النور کی مناسبت سے ہمیں ان اشکالات کا حل ولادت و بعثت محمدی کی روشنی میں تلاش کرنا ہے۔۔
یہ طے ہے کہ انسانی افکار ایک حد تک ہی موثر اور ایک زمانے تک ہی کارگر رہتے ہیں سو اسی لیے ہر دور میں اس دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ مفکرین جنم لیتے رہے اور انہوں نے اپنے افکار سے عوام کی ذہن سازی کی مگر دائمی اور آفاقی نظریات صرف الوہی اور اس کے حکم سے نبوی ہی ہو سکتے ہیں کہ جو ہر دور میں انسانیت کی چارہ گری کے لیے قابل عمل اور اس دور کے تقاضوں کے مطابق ہوتے ہیں۔
بعثت محمدی ﷺ کا یہ پہلو دیگر تمام انبیا سے ممتاز کہ آپ کے افکار، نظریات اور تعلیمات زمان و مکاں کی قیود سے ماورا اور ہر تشنہ لب کہ وہ کسی فرقہ و مذہب سے تعلق رکھتا ہو بحیثیت انسان اسے ایک پیکر کمال چاہیے کہ جسے وہ رول ماڈل بنا کر نہ صرف روحانی بلکہ انسانی، معاشی، معاشرتی افکاری، نظریاتی، روحانی ثقافتی غرض کہ ہر شعبہ جو انسانیت سے متعلق ہو سکتا ہے سے راہنمائی حاصل کرے اور یہ جزوقتی نہ ہو بلکہ کلی۔
سو بعثت محمدی ﷺ کی صورت میں ایک ایسی ہستی کائنات کو عطا کی گئی کہ جس کی تعلیمات نہ صرف قولی بلکہ عملی زندگی کے ہر گوشہ میں راہنمائی کا سامان فراہم کرتی ہیں۔ مگر سوال یہ کہ کیا ہم نے ولادت اور بعثت محمدی ﷺ کے مقاصد سے اکستاب فیض کیا اور اگر کیا تو کس حد تک۔ جزوی کیا یا کلی۔ اگر کلی کیا ہوتا تو، یہ زمانہ نہ زمانے نے دکھایا ہوتا۔ رسوائی کا اتنا ساماں نہ ہوتا۔
عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت معاشی و اقتصادی لحاظ سے اتنی کمزور کہ عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے سرنگوں ہونے پر مجبور۔ معاشرتی زوال اس قدر کہ سینے اپنا بغض نکال رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے عوام اخلاقیات کی دھجیاں اڑاتے نظر آتے ہے۔ لایعنی ابحاث و مباحث۔ تفرقہ ہے اور انتشار ذہنی بھی قلبی بھی۔ اقبال نے کہا تھا
عقل گو آستاں سے دور نہیں
اس کی تقدیر میں حضور نہیں
دل بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور دل کا نور نہیں
آرنی میں بھی کہہ رہا ہوں مگر
یہ حدیث کلیم و طور نہیں
حضرت کلیم اللہ کی بعثت کے صدیوں بعد جب کرہ ارض سے تہذیب و تمدن اور انسانی اقدار کا وجود ناپید ہو چکا تھا اور انسانیت ظلم، جبر اور کفر کی چکی میں پس رہی تھی تو مشیت ایزدی نے ظلمت کی طویل سیاہ رات کو صبح درخشاں میں بدلنا چاہا تو آقائے دوجہاں، رحمت عالم محمد مصطفی ﷺ کے وجود مسعود کو دنیا میں مبعوث فرمایا۔ تاجدار کائنات کی ذات ستودہ صفات نے انسانیت کا مقدر بدلا اور تاریخ انسانی ایک نئے دور میں داخل ہوئی۔
خالق کائنات نے اپنے بہترین شاہکار کو اپنے سرمدی حسن و جمال کے ساتھ پیدا فرمایا اور رحمت عالم نے دنیائے انسانیت میں وہ انقلاب برپا کیا کہ جس کی آفاقیت، ہمہ گیریت اور جامعیت مسلمہ اور تا قیام قیامت دنیا اس سے فیض یاب ہوتی رہے گی۔ مگر سوال یہ کہ عہد حاضر کا مسلماں آقا دوجہاں کے لائے آفاقی نظام سے مستفیض کیوں نہیں ہو پا رہا۔ معاذ اللہ کیا وہ نظام دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں رہا، یا ہم اپنی بداعمالیوں کے سبب معاشی، معاشرتی اور اخلاقی و فکری زوال کا شکار۔
جواب واضح اور حقیقت عیاں ہے کہ ہم اسیر تو دور جہالت کے نظام کے، کہ جس میں بدعنوانی، جھوٹ، ملاوٹ، بہتان، نفرت، تعصب، انتہا پسندی، قتل و غارت گری اور دنیاوی ہوس۔ آقا کریم ﷺ کے اخلاق کریمانہ سے ہمیں دور کا واسطہ نہیں۔ قرآن کو منبع علوم اور ہدایت کا ذریعہ اس حد تک ہی مانتے ہیں کہ ایمان برقرار رہے وگرنہ عملی زندگی میں اس سے کتنا اکتساب، اس کا اندازہ اپنی قرآن فہمی و قرآن شناسی سے لگایا جا سکتا ہے۔
سیرت رسول ﷺ کی باتیں بہت، راہنمایان قوم اس موقع پر اپنے پیغامات جاری کروا کے بری الزمہ ہو جائیں گے اور ھم سن کر۔ مگر پھر بھی سادگی ایسی کہ فرشتوں کی مدد کے منتظر، ہماری ذاتی زندگیوں کا سیرت رسول سے یارا نہیں۔ ہمارا نظام حکومت، طرز سیاست و معاشرت میں اس ہمہ گیر نظام کا رنگ باقی نہیں۔ اب کی بار ماہ ربیع النور کی ان مبارک ساعتوں میں ہمیں عہد کرنا ہے آقا ﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل کا، ذاتی زندگیوں میں تبدیلی کا، ایک دوسرے کے لیے باعث رحمت بننے کا، ہم نے اپنے احوال کو بدلنا ہے سیرت رسول کی روشنی میں اور حضور ﷺ سے اپنے تعلق کو اتنا مضبوط کہ 313 ہزار پر غالب آ سکیں اور معاشرے کو انقلاب آشنا کرنا ہے۔ تاکہ ریاست مدینہ کے قیام اور مصطفوی انقلاب کی راہ ہموار ہو سکے کہ اس کے علاوہ ذلت سے نکلنے کا کوئی اور رستہ نہیں۔
آو صمیم قلب سے حمد و ثنا کریں
آو کہ سب حضور سے عہد وفا کریں