Youm e Haya
یوم حیاء
فروری کے مہینے میں ہم دو دن خاص طور پر مناتے ہیں پہلے 5 فروری کو ہم کشمیری بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجتی کرتے ہیں اسلام کے نام پر نعرے لگاتے ہیں کشمیری بہن بیٹیوں کی عزت کی حفاظت کی قسم لیتے ہیں جوش ایمانی سے ہمارے چہرے سرخ ہوتے ہیں ہم کفار کے خلاف جہاد کرنے کا عزم بھی رکھتے ہیں ہمارے نوجوانوں کا کہنا ہے کہ کوئی بھی کشمیری بہن بیٹیوں کی عزت نیلام نہ کرے ورنہ ہم ارطغرل کی طرح جہاد کریں گے اور کشمیری بہنوں کی عزت کی حفاظت کریں گے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی 14 فروری کو ہم ویلنٹائن ڈے منا کر عیسائیوں کا ساتھ دیتے ہیں انکی طرح یہ رسم ادا کرتے ہیں اس دن ہم کئی بہنوں بیٹیوں کی عزتیں پامال کرتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں کہ یہ محبت کرنے والوں کا دن ہے یہاں پر نظر آتا ہے کہ ہم منافقت کی اعلیٰ ترین سطح پر موجود ہیں۔
ویلنٹائن ڈے کے متعلق کوئی مستند حوالہ تو موجود نہیں البتہ ایک غیر مستند خیالی داستان پائی جاتی ہے کہ تیسری صدی عیسوی میں ویلنٹائن نام کے ایک پادری تھے جو ایک راہبہ (Nun) کی زلفوں کے اسیر ہوئے۔ چونکہ مسیحیت میں راہبوں اور راہبات کے لیے نکاح ممنوع ہے اس لیے ایک دن ویلنٹائن نے اپنی معشوقہ کی تشفی کے لیے اسے بتایا کہ اسے خواب میں بتایا گیا ہے کہ 14 فروری کا دن ایسا ہے اس میں اگر کوئی راہب یا راہبہ صنفی ملاپ بھی کر لیں تو اسے گناہ نہیں سمجھا جائے گا۔ راہبہ نے ان پر یقین کیا اور دونوں جوشِ عشق میں یہ سب کچھ کر گزرے۔ کلیسا کی روایات کی یوں دھجیاں اُڑانے پر ان کا حشر وہی ہونا تھا جو جو عموماً ہوا کرتا ہے یعنی انہیں قتل کر دیا گیا۔ بعد میں کچھ رومانوی جوڑوں نے ویلنٹائن کوشہید ِمحبت، کے درجہ پر فائز کرتے ہوئے ان کی یاد میں یہ دن منانا شروع کر دیا۔ چرچ نے ان خرافات کی ہمیشہ مذمت کی اور اسے جنسی بے راہ روی کی تبلیغ پر مبنی قرار دیا۔ مسیحی پادری اس کام کی مذمت کرتے ہیں یہ اسکو غلط کہتے ہیں اور یہ کرنے سے منع کرتے ہیں لیکن ہم مسلمان انکے کام کو کچھ سال سے بڑھانے میں انکی بھرپور مدد کر رہے ہیں، اس دن کے بارے میں علماء کرام کا ماننا ہے کہ یہ اسلام کے منافی ہے مسلمان کسی بھی غیر مذہب کا کوئی تہوار نہیں منا سکتے ہیں۔
پاکستان میں گذشتہ چار پانچ سالوں سے اس دن کے جشن منانے کا جذبہ نوجوانوں میں جوش پکڑتا جا رہا ہے، حالانکہ یہاں کا ماحول یورپ جتنا سازگار نہیں ہے اور آبادی کا معتدد حصہ اس دن کی تقاریب کو قبیح مانتا ہے۔ یہاں پر ویلنٹائن ڈے کا تصور نوے کی دہائی کے آخر میں ریڈیو اور ٹی وی کی خصوصی نشریات کی وجہ سے مقبول ہوا۔ شہری علاقوں میں اسے جوش وخروش سے منایا جاتا ہے۔ پھولوں کی فروخت میں کئی سو گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہی حال کارڈز کی فروخت کا ہوتا ہے۔
2017 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے عوامی مقامات پر ویلنٹائن ڈے منانے پر پابندی لگا دی تھی، لیکن کالجوں اور یونیورسٹیوں میں یہ باقاعدہ طور پر سامنے اور چھپ کر منایا جاتا ہے بچے گھروں سے مختلف بہانے لگا کر آتے ہیں اور باہر اپنے بزرگوں کی عزتیں پامال کرتے ہیں۔
چند روز قبل لاہور میں اسقاط حمل کا ایک واقعہ پیش آیا جس کی وجہ لڑکے اور لڑکی ناجائز تعلقات تھے بات بڑھنے پر اسقاط حمل کے لئے نجی ہسپتال لایا گیا طبیعت بگڑنے پر وہ عاشق لڑکی کو ہسپتال کے فرش پر چھوڑ کر چلا گیا لڑکی کی موت واقع ہو گئی، لڑکا بعد میں گرفتار ہوا ابھی مقدمہ چل رہا ہے۔ یہ دونوں عاشقوں نے بھی کسی ویلنٹائن ڈے کے موقع اظہار محبت کیا ہو گا لیکن پھر اس محبت پر قائم نہ رہ سکے اور ہوس تک آ گئے۔
بات محبت کی نہیں ہوتی محبت ہر دوسرے انسان کو ہو جاتی ہے بات محبت میں عزت و احترام کی ہوتی ہے بات محبت پر قائم رہنے کی ہوتی ہے محبت کو نکاح کی صورت میں تبدیل کرنے کی ہوتی ہے لیکن یہاں پر یہ سب عاشق بھول جاتے ہیں یہ لڑکی کی عزت بھی نیلام کرتے ہیں یہ اسکی زندگی برباد کر کے خود سکون سے رہنے لگتے ہیں لیکن عورت کی زندگی تباہ ہو جاتی ہے اسے معاشرہ قبول نہیں کرتا پھر ان میں سے کچھ پیشہ ور بن جاتی ہیں کچھ ایسے انسان کے پلے باندھ دی جاتی ہیں کہ وہ ساری زندگی سسک سسک کر مرنے کی دعائیں کرتی ہیں۔
اس دن کے موقع پر تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ اسلام کا مطالعہ کریں اور حقیقی محبت کے معنی تلاش کریں لڑکوں کو چاہیے کہ کسی بھی لڑکی کی عزت پامال نہ کریں یہ مکافات عمل ہے یہ لوٹ کر واپس آئے گا اس دن کو ویلنٹائن ڈے کی بجائے یوم حیاء کے طور پر منایا جائے بہنوں کی عزت کے محافظ بن کر رہا جائے، اور لڑکیوں کو چاہیے کہ خدارا کسی غیر محرم پر اعتبار نہ کریں اسلام کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزاریں والدین اپنی اولاد کے بہت اچھا سوچتے ہیں وہ اچھا ہی کرتے ہیں خود کسی غیر محرم پر اعتبار کر کے اپنی زندگی تباہ کر لیتی ہیں پھر یہ معاشرہ قبول کرتا ہے اور نہ ہی والدین۔
کسی کی بہن بیٹی کی عزت پامال کرنے سے پہلے ایک نظر اپنی بہن پر ڈال لینی چاہیے اس روز کسی کی بہن بیٹی کو گلاب دینے سے قبل اپنے گھر کی خواتین کو دیکھ لینا چاہیے اپنی زندگی اور آخرت کو سنوارنا بہتر ہے نا کہ کل پچھتاوا ہو، ہزاروں واقعات نظروں کے سامنے سے گزرتے ہیں کہ لڑکی والدین کے گھر سے بھاگ کر محبوب کے پیچھے آئی اور محبوب کے اپنے دوستوں کے حوالے کر دی۔ عرش الہٰی کانپ جاتا ہے لیکن یہاں ہمارے دل نہیں کانپتے ہم ہر روز ایسے واقعات پڑھ کر بھی عبرت حاصل نہیں کرتے ہم اپنے بچوں پر نظر نہیں رکھتے ہم اپنی بچیوں کے لباس نہیں دیکھتے کہ وہ کس حلیے میں تعلیمی اداروں میں جا رہی ہیں، یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر طویل لکھنے کی ضرورت ہے لیکن میں آخری بات عرض کرتا ہوں خدارا والدین اپنے بچوں کی تربیت اچھی کریں انکی صحبت دیکھیں کہ وہ کیسی صحبت کی پروان چڑھ رہے ہیں۔
بچوں کو چاہیے کہ کچھ بھی غلط کرنے سے پہلے ایک بار اپنے والدین اپنے بہن بھائیوں کی طرف نگاہ ڈال لیں کہ کل کو ہمارا کوئی غلط قدم ہماری بہن کی زندگی تو خراب نہیں کرے گا بچیوں کو چاہیے کہ کہ کسی غیر محرم پر بھروسہ کرنے سے پہلے لاہور جیسے اندوہناک واقعہ پر ایک نظر ڈال لیں تو شائد عبرت حاصل ہو جائے ورنہ ہم روز اخبارات میں ایسے واقعات پڑھتے رہیں گیاور پھر بھی بدلنے کی کوشش نہیں کریں گے ہم تباہی کے کنارے پر کھڑے رہیں گے خود کو نہیں بدلیں گے اور آخرکار اس کنویں میں گر جائیں گے پھر ہم روتے بھی رہیں گے اور ہمیں بچانے کوئی نہیں آئے گا بہتر ہے گرنے سے پہلے ایک نظر پیچھے دیکھ کر عبرت حاصل کریں اور بہتری کی طرف جانے کی کوشش کریں اور میں دعوے سے کہتا ہوں ہم گرنے سے بچ جائیں گے اور کامیاب ہو جائیں گے۔