Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aasim Irshad
  4. Ye Moqa Hai

Ye Moqa Hai

یہ موقع ہے

"کنفیوشس "چین کا معروف فلسفی، حکیم اور عالم تھا۔ اس کی اخلاقیات پر مبنی تعلیم دنیا میں اب بھی پڑھی جاتی ہے۔ پندرہ سال کی عمر میں تلاش حق کے لیے نکلا تھا اور پھر ایک مشہور عالم اور فلسفی بن گیا اور وقت کے بادشاہ اس کے پاس آتے تھے مشورہ کرتے تھے اور حکومت چلاتے تھے ایک شام بادشاہ کنفیوشس کے پاس آیا اور زمین پر بیٹھ گیا اور سوال کیا کہ لیڈر کس چیز سے پہچانا جاتا ہے۔

کنفیوشس نے بادشاہ کی طرف دیکھا اس کے لاؤ لشکر کی طرف نظر دوڑائی اور کہا کہ "فیصلوں سے" بادشاہ اور متوجہ ہو گیا کنفیوشس دوبارہ بولا اور کہا کہ اچھا لیڈر ہمیشہ ایسے فیصلے کرتا ہے جس سے عوام کے دل میں اس کی محبت میں اضافہ ہوتا ہے، کامیاب بادشاہ ہمیشہ ایسے فیصلے کرتا ہے جس سے عوام خوفزدہ ہوں اور بدترین بادشاہ ہمیشہ اپنے ذاتی مفاد کو سامنے رکھ کر فیصلے کرتا ہے۔ یہ تینوں چیزیں آپ کو ہمارے بادشاہوں میں ملیں گی یہ اچھے بادشاہ بھی بنتے ہیں کامیاب بھی ہوتے اور آخر میں بدترین بھی بن جاتے ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو ایک دور میں بہترین لیڈر تھا یہ کامیاب بھی تھا لیکن آخر میں کچھ لوگوں کی نظر میں بدترین بنا اور پھانسی پر لٹکا دیا گیا پھر اس کی بیٹی نے یہ سب کچھ بننے کا فیصلہ کیا اس کی انجام بھی موت اب اس کا بیٹا لیڈر بننا چاہتا ہے لیکن اس کا ابھی وقت نہیں ہے، نواز شریف بھی کبھی عوام کے دلوں میں بستے تھے آج دلوں سے نکل کر لندن کے فلیٹوں میں رہنے پر مجبور ہیں لیکن یہ پھر بھی اقتدار چاہتے ہیں اور ہمیشہ کے لیے عوام کے دلوں میں زندہ رہنا چاہتے ہیں یہ کامیاب ترین بادشاہ بننا چاہتے ہیں ان کے مطابق پاکستان ان کے بغیر کوئی نہیں چلا سکتا۔

عمران خان نے پاکستان میں خالص جمہوریت کی بنیاد رکھی محنت کی اور وزیراعظم کی کرسی تک آگیا اب جبکہ عمران خان کی حکومت کو پورا ہونے میں تقریباً ایک ڈیڑھ سال رہ گیا ہے، تو اپوزیشن وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد لانا چاہتے ہیں۔ آپ یہ بات جان کر حیران ہوں گے کہ عدم اعتماد لانے والے سارے وہ لوگ ہیں جن پر کرپشن کے درجنوں کیسز ہیں اور جس شخص کے خلاف عدم اعتماد لا رہے ہیں اس پر ایک کیس بھی نہیں ہے، اور سب سے بڑی بات یہ سارے وہی لوگ ہیں جو ماضی میں ایک دوسرے کو چور کہہ کر اقتدار حاصل کرتے رہے۔

آپ تھوڑا سا پیچھے چلے جائیں آپ کو نواز شریف کی تقریر ملے گی، جس میں یہ بینظیر بھٹو کے خلاف بول رہے تھے، پھر شہباز شریف کا بیان کے زرداری کو لاڑکانہ کی سڑکوں پر گھسیٹوں گا اور زرداری صاحب کا بیان کے ن لیگ چوروں کی جماعت ہے بلاول بھٹو کا مشہور زمانہ خطاب کہ نواز شریف صدر ضیاء الحق کا بیٹا ہے اور ان دنوں اپوزیشن کا اتحاد ہے اور اس اتحاد کی سربراہی فضل الرحمان کر رہے ہیں جو ماضی میں ان دونوں کو برا بھلا کہہ چکے ہیں۔

جب بینظیر بھٹو پہلی بار وزیراعظم بنی تو فضل الرحمان نے کہا تھا کہ عورت کی حکمرانی اسلام میں جائز نہیں ہے اور اس بیان کے چند دن بعد ایک تصویر شائع ہوئی تھی، جس میں بینظیر بھٹو کرسی پر اور فضل الرحمان بینظیر بھٹو کے سامنے نیچے زمین پر بیٹھے تھے۔ یہ تصویر اپنے آپ میں ایک پوری تحریر تھی یہ حکومت کا حصہ بن گئے اور بینظیر بھٹو کی حکومت جائز ہو گئی اور پھر فضل الرحمان نے مسلم لیگ کو ہندوؤں کی ایجنٹ جماعت کہا لیکن وہاں سے کرسی مل گئی تو وہ جماعت بھی صاف ہو گئی۔

یہ سلسلہ 1988ء سے چلتا آرہا تھا لیکن پھر تیسرا بندہ اقتدار میں آگیا جس نے فضل الرحمان کو راضی کیا اور نہ ہی پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو اس طرح اب یہ تینوں عمران خان کے خلاف عدم اعتماد لانا چاہتے ہیں۔ فضل الرحمان کے بارے میں ایک بار اوریا مقبول جان نے بتایا:جو خود انہوں نے مجاہد ملت مولانا عبدالستار خان نیازی سے سنا ہے، مولانا نیازی مفتی محمود سے ملنے گئے ایک نوجوان بار بار کمرے میں داخل ہوتا اور مفتی صاحب اسے بھگا دیتے۔

مولانا نیازی نے پوچھ لیا کہ مفتی صاحب یہ نوجوان کون ہے انہوں نے فرمایا یہ میرا بیٹا فضل الرحمن ہے اور یہ پیسے لے کر میرے خلاف مخبری کرتا ہے، اور آپ کو یاد ہو گا فضل الرحمان کے والد محترم نے کہا تھا کہ شکر کرتے ہیں کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں تھے اور جب پاکستان بن گیا تو اسی ملک میں اقتدار بھی حاصل کیا اور آج ان کا بیٹا اقتدار کے لیے عمران خان کو یہودی ایجنٹ بھی کہتا ہے اور مذہب کارڈ بھی استعمال کرتا ہے۔

میں جب فضل الرحمان کو عمران خان کے خلاف بولتے دیکھتا ہوں، جب فضل الرحمان عمران کے خلاف مذہب کارڈ کو استعمال کرتا ہے، عمران کو یہودی ایجنٹ کہتا ہے تو میری نظریں 2019ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں عمران خان کے خطاب پر چلی جاتی ہیں جہاں اس نے کفار کی زمین پر کھڑے ہو کر قرآن مجید سے بات شروع کی اور نبی کریم ﷺ کی حرمت پر بات کی اسلاموفوبیا کے خاتمے کے لیے اقوام متحدہ کو زور دیا اور انہیں باور کرایا کہ ہمیں تکلیف ہوتی ہے جب کوئی ہمارے مذہب کے خلاف بات کرتا ہے۔

عمران خان کئی دہائیوں تک مغربی نوجوانوں کے دلوں میں ایک ہیرو کی طرح زندہ رہا تھا اور جب انہی کی سرزمین پر اسلام کا پرچم بلند کیا تو وہ حیران و پریشان رہ گئے، اب جب اسلاموفوبیا کے خلاف عالمی دن قرار دیا گیا ہے تو بے ساختہ میرا قلم عمران خان کی تعریف کے لیے اٹھ گیا۔ ہمارے یہاں کہ فضل الرحمان جیسے چند لوگ ساری زندگی خود کو عالم گردانتے رہے اور ایک مغرب زدہ شخص بازی لے گیا وہ شخص جس پر یہودی ایجنٹ کے الزام ہمارے مولویوں نے لگائے۔

آج جب وہی شخص او آئی سی کا اجلاس پاکستان میں بلا کر اسلام کی سربلندی کے لیے بات کرتا ہے تو خود پر فخر ہوتا ہے کہ ہمارا لیڈر عالمی سطح پر اسلام کا پرچم اٹھائے ہوئے ہے جب عمران خان کی سربراہی میں ہم امریکہ کو آنکھیں دکھاتے ہیں تو تب احساس ہوتا ہے کہ ہم غیرت مند قوم ہیں ہمیں لیڈر بھی غیرت مند چاہیے اب موقع ہے کہ عمران خان کے ساتھ کھڑا ہوا جائے۔ اگر وہ اسلام اور پاکستان کے لیے 25 سال سے لڑ رہا ہے تو ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم اپنی دانست میں فیصلہ کر کے ظالموں کے خلاف ایک غیرت مند لیڈر کے ساتھ کھڑے ہوں۔ تاریخ لڑنے والوں کو ہمیشہ یاد رکھتی ہے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو بھی جائے تو پرواہ نہیں وہ ہارے گا نہیں وہ دوبارہ لڑے گا۔

میں اس کی فطرت جانتا ہوں وہ تھک کر ہارنے والوں میں سے نہیں ہے وہ پھر آئے گا اور قوم کی بہتری کے لیے کام کرے گا لیکن جب کبھی مؤرخ لکھے گا، تو بڑی تکلیف کے ساتھ یہ لکھے گا کہ جب عمران خان مسلم امہ کے اتحاد، اسلام اور پاکستان کی سربلندی کے لیے لڑ رہا تھا، تب فضل الرحمان جیسے لوگ صرف کرسی کی خاطر اسے ہٹانے کے لیے سازشیں کر رہے تھے یہ کرسی چند دن رہے گی لیکن لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ اچھے لفظوں کی صورت میں رہنا ہے تو اسلام اور وطن کے لیے کچھ کرو ورنہ لوگ یاد تو رکھیں گے لیکن برے لفظوں میں اب فیصلہ فضل الرحمان کو کرنا ہے کہ لوگوں کے دلوں میں اچھائی کی صورت میں زندہ رہنا ہے یا گالی کی صورت میں۔

Check Also

Quaid e Azam Ki Mehbooba

By Muhammad Yousaf