Thursday, 28 March 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Aasim Irshad/
  4. Yaadon Mein

Yaadon Mein

یادوں میں

میں نے کتاب بند کی اور کیکر کے درخت کی چھاؤں میں چارپائی لے گیا اپریل کی گرمی تھی پورے ملک میں لاک ڈاؤن تھا اور میں اپنے گاؤں میں ٹیکنالوجی کی زندگی سے دور چند کتابوں، گاؤں کی سرمئی راتوں، حسین صبحوں اور اداس شاموں کے ساتھ زندگی گزار رہا تھا۔

گاؤں کی اکلوتی مسجد میں اذان ہوتی تمام بچے بوڑھے نماز پڑھتے اللہ سے دعا مانگتے اور کاموں میں لگ جاتے میں کتابیں اٹھاتا چارپائی کو سر پر رکھتا اور دور کسی درخت کی گھنی چھاؤں میں چلا جاتا ہر طرف خاموشی اور کتاب کا مطالعہ دوپہر کو صاف پانی کی سبزیوں اور اچار کے ساتھ کھانا لسی پینا اور شام کو سب کے ساتھ مل کر کرکٹ کھیلنا واپسی پر بکریوں کا دودھ نکالنا مغرب کے بعد رات کا کھانا اور عشاء کے بعد نیند کی آغوش میں چلے جانا۔

دنیا کی ہر رونق ہر پریشانی سے بے خبر اور موبائل سے دور میرے یہ کچھ دن زندگی کے بہترین دن تھے، گاؤں میں بجلی گیس نہیں ہے سونے کے لیے قدرتی ہوا کے چلنے کا انتظار اور کچھ پکانے کے لیے لکڑیوں کو جلانا اور کورونا وائرس جیسی وبا کو ذہن پر سوار نہ کرنا سب سے بہترین کام تھا، میں نے بکریاں بھی چرائیں گائے کو چارہ بھی ڈالا اوٹنی کا دودھ بھی پیا رات چاند کی روشنی میں صحراء کی ٹھنڈی ریت پر ننگے پاؤں بھی چلا فصلوں کے درمیان پگڈنڈی پر بھاگنا اور شام کے سائے گہرے ہوتے ہی سارے کام ختم کر کے گھر واپس لوٹ آنا۔

میں نے ان دنوں میں دو چیزوں پر غور کیا پہلی بات گاؤں کے لوگ کم بیمار ہوتے ہیں یہ سوچتے کم ہیں میں نے دیکھا جب شہروں میں ہر شخص ماسک پہنے سینیٹائزر کا استعمال کرتے ہوئے لوگوں سے فاصلے قائم کر رہا تھا تب گاؤں کے لوگ جانوروں کو چارہ ڈالتے ہوئے ان کے ساتھ بیٹھے چائے پی لیتے تھے ایک ہی گھر میں سب لوگ ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے ماسک اور سینیٹائزر کے نام سے واقف نہیں تھے کسی کو زکام ہو بھی جاتا تو وہ دیسی ٹوٹکے استعمال کرتا اور حیرانی کی بات کہ کوئی دوسرا شخص اس سے دور بھی نہ ہوتا اور وہ بہت جلد ٹھیک ہو جاتا، تب مجھے ایک بات کا شدت سے احساس ہوا کہ اگر انسان کسی چیز کو خود پر حاوی کر لے تو مارا جاتا ہے ورنہ اسے کچھ نہیں ہوتا یہ نفسیات انسان کو مارتی بھی ہے اور بچاتی بھی آپ اپنے ذہن کو قابو میں کر کے دیکھیں آپ کو حیرت انگیز فوائد حاصل ہوں گے۔

گاؤں میں گزرے دنوں میں دوسری چیز جس سے مجھے بے پناہ فائدہ ہوا وہ مطالعہ تھا مجھے کتابیں پڑھنے کا بہت وقت ملا اور میں نے تب اس بات کو محسوس کیا کہ اگر کسی شخص کے پاس کتابیں ہوں تو وہ کسی بھی جگہ رہ سکتا ہے اسے ڈیجیٹل دنیا کی ضرورت نہیں رہتی وہ کتابوں میں کھو جاتا ہے اور نئی چیز تخلیق کرتا ہے، میں جب شہر میں تھا تو مجھے لگتا تھا کہ میں ایک دن موبائل کے بغیر نہیں گزار سکتا ادھر دس منٹ کے لیے بجلی جاتی تھی تو جان نکلتی تھی لیکن جب میں گاؤں میں رہا تو مجھے ان چیزوں کی پرواہ ہی نہیں تھی بلکہ میری زندگی پر سکون ہو گئی۔

میری پیدائش بھی گاؤں کی ہے میرا سارا بچپن گاؤں کی نہر میں نہاتے اور پگڈنڈیوں پر بھاگتے گزرا ہے تو مجھے گاؤں کی زندگی بڑی پسند ہے میں جب بھی شہر کی بیگانی رونقوں اور شور سے تنگ آجاتا ہوں تو چند کتابیں لے کر گاؤں چلا جاتا ہوں میں وہاں کتابیں پڑھتا ہوں وہاں کی زندگی میں ڈھلنے کی کوشش کرتا ہوں سردیوں کی طویل تاریک راتوں میں لالٹین کی روشنی پر کچھ لکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔

دسمبر کی سرد صبح میں درختوں سے شبنم گرتے دیکھتا ہوں گندم کی فصل یا سرسوں کے پھولوں پر گرے شبنم کے قطرے گننے کی کوشش کرتا ہوں، لکڑیوں کی آگ جلا کر تازہ دودھ کی چائے بناتا ہوں ان جلتی لکڑیوں کا دھواں جب چہرے پر پڑتا ہے تو محسوس ہوتا ہے انہی درختوں کے سائے میں ہم کھیلتے ہوئے بڑے ہوئے آج یہ درخت ختم ہو کر بھی ہمارے کام آرہے ہیں اور ہم انسان کتنے بے غرض ہیں ہم جیتے جی بھی کسی کے کام نہیں آتے ہم انسان دھوکے اور فریب کی عجب کشمکش میں زندگی گزار رہے ہیں ہم ہر شخص کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں حالانکہ یہ زندگی خود ایک دھوکہ ہے اور ایک دن زندگی کی یہ جھوٹی رونق یہ نمائش یہ فریب سب مٹ جانا ہے اور ہم نے اسی مٹی میں چلے جانا ہے اور سب کچھ ادھر رہ جانا ہے۔

مجھے گاؤں کی وہ ٹوٹی سڑک بہت یاد ہے جس پر ایک ویگن چلا کرتی تھی جو روز صبح سات بجے نکلتی تھی اور ہمارے گاؤں سے میٹرک کے بچوں کو پینتالیس کلو میٹر دور ایک ہائی اسکول میں لے کر جاتی تھی اور اس میں اکثر صبح نصرت فتح علی خان کی قوالی کملی والے لگی ہوتی تھی جب اس ویگن میں لوگ زیادہ آجاتے تو لڑکے چھت پر چڑھ جاتے تھے اور اسی طرح دوپہر کے بعد گھر واپسی، گاؤں کی زندگی اب بھی ویسی ہے لیکن کچھ چیزیں بدل گئی ہیں وہ لڑکے روزگار کے لیے باہر نکل گئے ہیں اور گاؤں کے بزرگ پیپل کی ٹھنڈی چھاؤں میں حقہ پیتے ہوئے ٹوٹی سڑک پر نظریں جمائے رکھتے ہیں کہ کب ہمارا پتر واپس آئے گا روز اسی طرح وہ راہ تکتے ہیں اور رات کھانستے ہوئے سیرپ پی کر سونے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔

وہ گاؤں کی بڑھیا ساگ پکاتے ہوئے اپنے بیٹے کے لیے مکھن ضرور نکالتی ہے وہ گھر میں جھاڑو لگاتی چھوٹی بہن بھی آس لگائے بیٹھی ہے کہ کب اس کا بھائی شہر سے کما کر لائے گا اور اس کی شادی کرے گا، اور باہر گیا وہ ماں کا لال مزدوری کرتے جب اپنی پھٹی ہتھیلیوں کو دیکھتا ہے جب باس کی گالیاں سن کر بھی چپ ہوجاتا ہے جب رات دیر سے آکر بھوکا سوجاتا ہے تو یہ مت سوچیں کہ وہ کمزور ہے نہیں اسے گاؤں میں انتظار کرتے اپنے ماں باپ اور بہن بھائی یاد رہتے ہیں۔

میں سوچتا ہوں کہ ہر سال چند دنوں کے لیے لاک ڈاؤن ہونا چاہیے جب پورا ملک بند ہو اور ہر شخص اپنے گھر میں سب کے ساتھ وقت گزارے کتابیں پڑھے ماں باپ کے پاس بیٹھے اور بچوں کے ساتھ کھیلے، یہ زندگی کا پہیہ یونہی چلتا رہے گا سب کچھ اسی طرح رہے گا کچھ ترقی کر جائیں گے اور کچھ ویسے رہ جائیں گے کسی کا لال لوٹ آئے گا اور کوئی بزرگ حقہ پیتے انتظار میں زندگی گزار دے گا اور اس کا لال روزگار کی تلاش میں اپنی جوانی کے بہترین دن گنوا دے گا۔

Check Also

Gilgit Baltistan Mein Siyasi o Samaji Aloodgiyan

By Amirjan Haqqani