Umer e Rawan Nisf Sadi
عمر رواں نصف صدی
مجھے کتابیں پڑھنے کا بہت شوق ہے میں ہر وقت اپنے ساتھ کوئی کتاب رکھتا ہوں جہاں جیسے کوئی موقع ملے میں اس کا مطالعہ شروع کر دیتا ہوں مجھے میرے استاد نے کہا تھا کہ بیٹا کتابیں سمندر جیسی ہوتی ہیں ہمیں بھی سمندر کی بوندیں لینی چاہییں اور ہو سکتا ہے کوئی ایک بوند ایسی ہو جو زندگی کا مقصد بدل کر رکھ دے، میں نے کم عمری میں ہی اس بات پر عمل شروع کر دیا اور کتابیں پڑھنا بلکہ کتابوں سے عشق شروع کر دیا مجھے کتابوں کو کھولتے ہوئے جو ان کے اوراق میں سے خوشبو آتی ہے وہ مدہوش کر دیتی ہے میں کتاب کو لیتا ہوں چائے بناتا ہوں اورگھر کے سب سے تنہا گوشے میں بیٹھ کر اس کو پڑھنا شروع کرتا ہوں مجھے شروع میں کتاب بورنگ لگے تو میں جگہ تبدیل کر لیتا ہوں یا وقفے سے پڑھنے لگتا ہوں۔ یہاں پر یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ کتاب کون سی پڑھیں تو سب سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ آپ کی فیلڈ کیا ہے اپنی فیلڈ کے مطابق کتب پڑھیں، قاسم علی شاہ صاحب کہتے ہیں کہ علم حاصل کرو اور ایسا کرو جس کا آپ کو فائدہ ہو، کم پڑھو لیکن بہترین پڑھو، آپ کے کام سے مناسبت رکھتا ہوا علم حاصل کریں کتاب وہ پڑھیں جس سے آپ کو لگے کہ یہ میرے کام کی کتاب ہے ایسا نہ ہو کہ آپ تاریخ کے طالب علم ہوں اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کو دن رات پڑھتے رہیں ایسا نہ کریں اس سے آپ کا ذہن بہت جلد تھک جائے گا آپ کا کتابوں سے دل اچاٹ ہو جائے گا، اور حد سے زیادہ بھی اپنی فیلڈ کی کتابیں نہ پڑھیں آپ بور ہو جائیں گے اچھی کتابیں پڑھیں جس سے سکون محسوس ہو اور علم میں اضافہ ہو اور یاد رکھیں کہ وہ قومیں کامیاب ہوتی ہیں جو علم رکھتی ہیں کتابیں پڑھتی ہیں اور لائبریریاں بناتی ہیں۔
آپ اگر کسی مشہور شخصیت کی آٹو بائیو گرافی پڑھیں تو اس سے آپ کو ایسی چیزیں سیکھنے کو ملیں گی آپ حیران ہو جائیں گے کہ یہ تو مجھے پتہ ہی نہیں تھیں آپ آٹو بائیو گرافی لازمی پڑھا کریں اس سے ہمیں کامیاب اور مقبول شخصیات کو جاننے کا موقع ملتا ہے کہ ان میں ایسی کیا خوبیاں تھیں جو وہ مشہور تھے وہ کن عادات سے کامیاب ہوئے مجھ پر اللہ کا بڑا خاص کرم ہے کہ میں کتاب خرید لیتا ہوں اور کوئی چیز رہ بھی جائے تو کتاب لازمی خرید لیتا ہوں اس کے علاوہ کچھ مہربان دوست اور بہت مخلص احباب ہیں جو وقتاً فوقتاً کتابیں تحفتاً بھیج دیتے ہیں ایسے ہی میرے لیے بڑے قابل احترام اور بڑے بھائیوں جیسے علامہ عبد الستار عاصم صاحب چیئرمین قلم فاؤنڈیشن مجھے جب بھی کتاب بھیجتے ہیں تو خاص طو پرر تاکید کرتے ہیں کہ کتاب پڑھ کر رائے لازمی دینی ہے اس سے یہ ہوتا ہے کہ انسان کا مشاہدہ کرنے کی صلاحیت تیز ہوتی ہے کہ ہم جو پڑھتے ہیں دیکھتے ہیں اس کو اپنے ذہن کے مطابق لکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
میں واپس اپنی بات پر آتا ہوں کہ آٹو بائیو گرافی پڑھا کیجئے ابھی چند روز قبل ڈاکٹر فرید احمد پراچہ صاحب کی خود نوشت عمر رواں شائع ہوئی ڈاکٹر صاحب کسی تعارف کے محتاج نہیں جماعت اسلامی کے نائب امیر ہیں اور میرے دل کے بہت قریب ہیں ڈاکٹر صاحب انتہائی سادہ انسان ہیں وہ خود جتنے سادہ ہیں ان کی کتاب بھی انتہائی سادہ لفظوں میں بیان کی گئی ہے یہ نصف صدی کی داستان ہے ڈاکٹر صاحب نے اس کتاب میں بچپن سے لے کر جوانی پنجاب یونیورسٹی میں گزرے دن اور پھر سیاست میں عملی قدم ڈاکٹر صاحب ایوب خان کے آمرانہ دور سے لے کر عمران خان کے اقتدار تک کے حالات کے عینی شاہد ہیں، انہوں نے واقعات کو اتنی خوبصورتی سے بیان کیا ہے کہ دل کرتا ہے ایک ختم ہو تو دوسرا شروع کیا جائے، ڈاکٹر صاحب نے لڑکپن سے طلبہ سیاست، یونین کی صدارت صوبائی و قومی اسمبلی تک کا سفر بے پناہ مشکلات سے طے کیا ڈاکٹر صاحب دور طالب علمی سے اب تک کم و بیش 14 مرتبہ پس دیوار زنداں رہ چکے ہیں، ڈاکٹر صاحب نے جیل میں گزرے واقعات بھی لکھے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ دور طالب علمی میں ہمیں کوٹ لکھپت جیل سب سے اچھی لگتی تھی چونکہ نئی بنی تھی اس لیے کھلی اور صاف ستھری تھی اور وہاں سب سے بڑھ کر حمید اصغر سپرنٹینڈنٹ تھے جو اکثر رات ہمیں اپنے پاس بلا لیتے تھے چونکہ ہم سیاسی قیدی تھے اس لیے ہمارے ساتھ ان کا رویہ بہت اچھا ہوتا تھا کوٹ لکھپت میں میری ملاقات اقلیم اختر رانی یعنی جنرل رانی سے ہوئی ہماری ملاقات میں بہت سے مسائل زیرِ بحث رہتے جن میں سانحہ مشرقی پاکستان میں یحییٰ خان کا کردار اور ان سے ملاقات کب ہوئی، جنرل رانی کے مطابق چھمب جوڑیاں سیکٹر میں جنگ کے دوران جب یحییٰ خان زخمی ہوئے تو یہ آرام کے لیے کم و بیش ایک ماہ ہمارے گھر رہے یہ اس وقت میجر تھے یحییٰ خان کی میرے ماموں جو یحییٰ خان کے دوست اور ہم رینک تھے سے بہت بے تکلفی تھی ان کی وجہ سے میری یحییٰ خان سے دوستی ہوئی۔
ڈاکٹر فرید احمد پراچہ نے اپنی کتاب میں اپنے سیاسی سفر کے بارے میں بھی بڑی تفصیل کے ساتھ لکھا ہے جس میں صوبائی اسمبلی سے پارلیمنٹ کے لاجز تک کا کانٹوں کا سفر کیسے طے ہوا اور جماعت اسلامی کا قیام سے اب تک کیا کردار رہا غرض یہ کہ یہ ایک ایسی کتاب ہے جسے ہر نوجوان کو پڑھنا چاہیے اس کتاب سے نوجوانوں کو تحریک ملتی ہے کہ کیسے ڈاکٹر فرید احمد پراچہ صاحب نے جد و جہد کی اور اس مقام تک پہنچے اس کتاب میں انہوں نے جنات اور روحانیت پر بھی لکھا کہ ان کے ساتھ بھی ڈاکٹر صاحب کا واسطہ پڑا، اگر آپ حقیقت اور ایڈوینچر سے بھر پور کوئی کتاب پڑھنا چاہتے ہیں تو یہ آٹو بائیو گرافی ضرور پڑھیں، ڈاکٹر صاحب اپنی کتاب میں کہتے ہیں کہ مجھے بچپن سے ہی کتابیں پڑھنے کا شوق تھا تو ابا جی مولانا گلزار احمد مظاہری مرحوم نے ہمارے لیے رامپور سے 'نور' اور "الحسنات" جاری کروا رکھے تھے اور بچوں کے لیے اسلامی کہانیوں کی کتابیں اتنی لا کر دی تھیں کہ میں نے تیسری کلاس میں ہی اپنے گھر میں لائبریری قائم کر لی تھی ایک الماری میں کتابیں سجائیں لائبریری کا نام اسلامی لائبریری اپنی دوات سے صوفہ نکال کر محلہ کی ہر اہم جگہ پر لکھ دیا تب مجھے لائبریری کا لفظ صحیح طرح لکھنا نہیں آتا تھا جب لفظ لکھنا آیا تب دیکھا کہ میں نے کہیں پر"اسلامی لبریری" اور کسی جگہ صرف" اسلامی بیری" لکھا ہوا تھا یہ کتب بینی کا شوق ابا جی کی تربیت کا ہی نتیجہ تھا کہ میں نے بے شمار کتب کا مطالعہ ابتدائی عمر میں ہی حاصل کر لیا تھا۔
ڈاکٹر فرید احمد پراچہ صاحب کی خود نوشت پڑھ کر ہمیں بچپن لڑکپن کی شرارتیں کالج کا دور یاد آنے لگتا ہے لیکن پھر جب ان کی عملی زندگی دیکھیں تو یقین نہیں آتا کہ اتنی مشکلات سے گزری ہے سیاسی سفر بھی آسان نہ رہا لیکن کتب بینی کو ہمیشہ فروغ دیا اور لائبریریاں بنوائیں اور خود بھی لکھتے رہے، جماعت اسلامی کے بہت سے رہنما کتب بینی کے فروغ کے لیے کوشاں ہیں اللہ سے دعا ہے کہ یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے اور ہم کتابیں پڑھتے رہیں۔