Saturday, 20 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Aasim Irshad/
  4. Sirf Aik Baar

Sirf Aik Baar

صرف ایک بار

میں گزرے سال کی آخری رات کمرے سے باہر نکلا چاند کی بھی آخری تاریخیں تھیں اس لیے اس سے سامنا نہ ہوا کچھ بادلوں کے ٹکڑے مجھے آسمان پر نظر آئے خنک ہوا میرے جسم سے ٹکرائی میں نے آنکھیں بند کر لی پھر تاریخ بدلی سناٹے کی جگہ شور مچا فائرنگ اور ہلا گلا ہونے لگا ایک دم رات کی خاموشی دن کے شور میں بدل گئی تب مجھے احساس ہوا کہ یہ سارا شور نئے سال کی آمد کا ہے۔

میں نے گزرے سال کی شام سورج کو ڈوبتے بھی دیکھا پھر رات تاریخ کو بدلتے بھی دیکھا اور نئے سال کے سورج کو طلوع ہوتے بھی دیکھا میں نے کیوں دیکھا اس کا جواب بڑا سادہ ہے مجھے تجسس تھا کہ کیا کچھ بدلے گا لیکن افسوس مجھے ندامت ہوئی کہ میرا وقت بھی ضائع ہوا رات سرد ہوا بھی کھائی، لیکن سورج، چاند، آسمان، بادل اور ہوا سب کچھ ویسا ہی رہا، پھر میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ جو اتنا شور اور نئے سال کی خوشی منائی گئی ہے، تو ضرور لوگ بدلے ہوں گے۔

میں نے لوگوں سے ملنا شروع کر دیا، لیکن پھر بھی مجھے شرمندگی ہوئی کہ سب کچھ ویسا ہے کچھ نہیں بدلا بس۔ اگلے روز ہم سب نے کیلنڈر کو بدل لیا، سال کے ہندسے بدل لیے، مجھے لگتا تھا کہ سال بدلا ہے لوگ بدلیں گے۔ لیکن میری یہ خواہش پوری نہ ہو سکی اور شاید یہ خواہش کبھی پوری نہ ہو سکے، ہم لوگ انسان نما چیز ہیں انسان نہیں ہیں اور اس بات کا ادراک مجھے کافی عرصہ پہلے ہوا تھا، لیکن اس پر ہمیں ہر دن کوئی نا کوئی خبر ملتی رہتی ہے، جس سے ہمارا یقین پختہ ہوجاتا ہے کہ ہم انسان نما کوئی اور چیز ہیں انسان نہیں ہیں۔

ہم مجبور لوگوں کی مجبوری سے فائدہ حاصل کرنے والی قوم معذرت میں قوم کا لفظ استعمال کر گیا ہم قوم نہیں ہجوم ہیں، ہم نے مری واقعہ پر کیا حاصل کیا ہم نے ایک انڈہ چار سو روپے کا بیچا ہم نے کمرے کا کرایہ چالیس ہزار وصول کیا پیسے نہ ہونے پر زیور رکھ لیے برف میں پھنسے لوگوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھایا، مجھے اس بات کا بڑی شدت سے احساس ہے کہ ہم قوم نہیں بن سکے، ہم ہجوم تھے اور ہجوم ہی رہیں گے۔

ایک ہجوم نے سیالکوٹ میں بے قصور شخص کو اذیت ناک موت دی۔ ہم نے فیصل آباد میں خواتین کو چوری کرنے پر برہنہ کر کے مارا ہم اس سے پیچھے چلے جائیں۔ ہم نے سیالکوٹ میں دو حافظ قرآن بھائیوں کو جان سے مار دیا، ہم نے قصور میں معصوم بچی کو زیادتی کے بعد مار دیا۔ ہم نے بہاولپور کے ایک پروفیسر کو مذہب کے نام پر مار دیا۔ ہم نے موٹروے پر خاتون کے ساتھ زیادتی کی۔ ہمارا معاشرہ اس قدر ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہے کہ ہمیں اس کا اندازہ ہی نہیں ہے، ہمارے ہجوم کو اتنی بھی آگاہی نہیں ہے کہ جہاں پٹرول گر جائے وہاں سے دور جایا جاتا ہے۔

لیکن اس کا نتیجہ ہم نے احمد پور میں دو سو سے زائد لوگوں کی موت سے دیکھا، ہمارے ملک میں میٹرو، اورنج لائن، سپیڈو صحت کارڈ بلین ٹری منصوبوں کی ضرورت نہیں ہے۔ پہلے اس ہجوم کو قوم بنانے کی کوشش کی جائے۔ اس ہجوم کو اتنا قابل بنایا جائے کہ یہ اخلاقی لحاظ سے بہتر ہو جائیں۔ اس ہجوم میں اتنا اخلاق ہو کہ کوئی بھی شخص ان پر اعتبار کر سکے، ہمارا تعلیمی نظام اس قدر بگڑا ہوا ہے، جہاں بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔

ہمارے ہجوم میں اتنی اخلاقی جرات نہیں ہے کہ ہم کسی مجبور کا سہارا تو کیا بنے کم از کم اسے لوٹیں تو نہ، لیکن ہم تو وہ ہیں جو رمضان المبارک میں اشیاء مہنگی کر دیتے ہیں ہم رمضان میں جائے نماز تک مہنگے کر دیتے ہیں۔ ہم زیادہ اموات پر کفن مہنگا کر دیتے ہیں۔ ہم لوگوں کو مرے جانوروں کا گوشت کھلا دیتے ہیں۔ ہم اس قدر تنزلی کا شکار ہیں کہ ہم شاید انسان بھی ہیں یا نہیں۔ جس ہجوم کو کرونا وائرس جیسی عالمی وبا میں ماسک پہنانے کے لیے فوج بلانی پڑے آپ اس ہجوم سے کون سے بہتر کام کی امید کر سکتے ہیں جو ہجوم پشاور میٹرو بس کی سیٹیں محض اس لیے پھاڑ دیتا ہے کہ وہ اس کی مخالف سیاسی جماعت نے بنائی ہے، جو ہجوم لگے ہوئے درخت اکھاڑ دیتا ہےکہ یہ عمران خان کا منصوبہ ہے۔

آپ اس ہجوم سے کیا امید کر سکتے ہیں۔ خدارا اس ہجوم کو قوم بنانے پر محنت کریں۔ اسے یہ سمجھائیں کہ اچھا معاشرہ کن اصولوں پر قائم ہوتا ہے۔ تعلیمی نظام میں یہ لازم کر دیں کہ اخلاقیات پڑھائی جائے، ہر ڈگری کے بعد کچھ عرصہ صرف اخلاقیات پڑھائیں ہمارے ڈاکٹرز مافیا بن جاتے ہیں، ان کے خلاف بات کر کے دیکھیں یہ ینگ ڈاکٹرز کی شکل میں ہڑتال کر دیتے ہیں۔

یہ مریض کے جسم کو پھاڑ کر ریٹ طے کررہے ہوتے ہیں۔ یہ اپنی سرکاری نوکری میں خیانت کرتے ہیں۔ یہ پرائیویٹ کلینک کیوں چلاتے ہیں، ان کو ایسا کرنے کی اجازت کون دیتا ہے؟ ہمارے وکیل ہسپتالوں پر حملہ کر دیتے ہیں۔ ہر جگہ ایک مافیا بیٹھا ہے، کبھی یہ مافیا ٹماٹر کو کم کر دیتا ہے، کبھی یہ آٹا، چینی غائب کر دیتا ہے اور سب سے بڑی بدقسمتی ملاحظہ کیجئے کہ حکومت پاکستانی تاریخ کی نااہل حکومت ہے۔

یہ مری سانحہ پر برف کی پیمائش کروا رہی ہے یہ ایک لاکھ باسٹھ ہزار گاڑیوں کو مری میں جانے کی اجازت دیتے ہوئے خوش ہو رہے تھے کہ ملک میں سیاحت کو فروغ ملا ہے لیکن یہ کسی وزیر مشیر نے نہیں سوچا کہ ہمارے پاس انتظامات کیا ہیں؟ کیا ہم اس قابل ہیں کہ اتنے سیاحوں کو کنٹرول کر سکیں ک، یا ہماری انتطامیہ اتنی اہل ہے کہ یہ معاملات کو مینیج کر سکیں مری انتطامیہ کی اتنی نااہلی کہ یہ ہوٹل مافیا کو قابو نہیں کر سکے وہاں سب نے اپنی مرضی کی یہ سب حکومت کی نااہلی اور مری انتظامیہ کی غفلت کا نتیجہ ہے، ہم نیچے سے اوپر تک سب کرپٹ ہیں، ہم ظالم ہجوم ہیں، ہم صرف اپنا مفاد دیکھتے ہیں، ہمیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ اگلا انسان مجبور ہے۔

مصیبت میں ہے ہم اس کی مدد کریں ہم صرف خود کو دیکھتے ہیں، ہم دنیا کا ایک ظالم ہجوم ہیں، ہمیں ایک قوم بننا ہو گا، اس ریوڑ ہجوم کو کہیں دفن کرنا ہو گا، اس کے لیے میں کئی بار عرض کر چکا ہوں کہ اس پورے نظام کو تیزاب سے دھونے کی ضرورت ہے اس پورے نظام کو ایک بار نیا بنانے کی ضرورت ہے صرف ایک بار اس گندے نظام کو تیزاب سے غسل دے دیں ورنہ یہ اس سے بھی بد تر ہوتا جائے گا اور ہم یہاں رہنے کے قابل بھی نہیں رہیں گے صرف ایک بار تیزاب سے غسل دے کر پاک کر دیں۔

Check Also

AI Tools Aur Talaba

By Mubashir Ali Zaidi