Shakir Ke Liye
شاکرکے لیے
شاکر شجاع آبادی کا اصل نام محمد شفیع ہے یہ 25 فروری 1954ء کو پیدا ہوئے، شاکر شجاع آبادی نے شاعری کا آغاز 1986ء میں کیا اور سرائیکی وسیب کی آواز بن گئے انہوں نے مظلوم عوام کے دلوں کی آواز بن کر شاعری کی، ان کی کئی کتابیں بھی شائع ہوئیں، ان کی شاعری پر انہیں دو صدارتی ایوارڈ بھی دیئے جا چکے ہیں اور کئی طلائی تمغے بھی حاصل کر چکے ہیں، شاکر شجاع آبادی جب تک مشاعروں میں جاتے تھے تب تک ان کے معاشی حالات قدرے بہتر تھے لیکن پھر مشاعروں کا رجحان کافی کم ہو گیا اور شاکر شجاع آبادی بھی بیمار رہنے لگے انہیں فالج ہو گیا اور یہ بولنے کی صلاحیت سے محروم ہو گئے پھر کافی عرصہ ان کے پوتے نے ان کی ترجمانی کی، شاکر شجاع آبادی پچھلے کئی سالوں سے انتہائی کسمپرسی کی زندگی بسر کررہے ہیں گھر کے اخراجات اور علاج کے لیے بھی حکومت سے مالی معاونت کے منتظر ہیں۔
گزشتہ روز ان کی طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو ہسپتال جانے کے لیے ان کے پاس گاڑی نہیں تھی تو انہیں موٹر سائیکل پر پیچھے باندھ کر لے جایا گیا ان کی ویڈیو وائرل ہو گئی میڈیا کے نمائندے ان کے گھر پہنچ گئے، میری ان کے بیٹے سے بات ہوئی اس نے بڑے دکھ سے کہا کہ آج ہمارا کوئی نہیں بنتا کل بڑے مقبرے بنائیں گے، اس کی بات میں سچائی تھی ہم ایسے ہی ہیں ہم لوگوں کو ان کی زندگی میں سکھ اور آرام نہیں دیتے ہم زندگی میں ان کو ایک پل چین کا نہیں دیتے لیکن جب مر جاتے ہیں تو ہم ان کو بڑے اعزاز کے ساتھ دفناتے ہیں، ہم نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان، عمر شریف، معین اختر، اور ببو برال کے ساتھ کیا کیا ہم نے ان کو ان کی زندگی میں کبھی سکون نہیں دیا اور مرنے کے بعد بریکنگ نیوز بنا کر چلا دیتے ہیں ہم ظالم ہیں۔
شاکر شجاع آبادی کی دس تصانیف ہیں جو ان کی شاعری کا مجموعہ ہے اور ان کے پاس علاج کے پیسے نہیں ہیں شاکر شجاع آبادی نے ساری زندگی جنوبی پنجاب کے عوام کی آواز بن کر گزاری ان کے دل کی آواز بن کر ان کے مسائل کا ذکر کیا لیکن ہم نے شاکر شجاع آبادی کو کیا دیا، ہم ان کو ان کی زندگی میں ایک دن سکون کا نہیں دے سکے ہم ان کے علاج کے لیے پیسے اکھٹے نہیں کر سکے ہم ان کے لیے احتجاج بھی نہیں کر سکے، شاکر شجاع آبادی کو عوام اور حکومت سے بڑے گلے شکوے ہیں وہ اپنے دل کی بھڑاس نکالنا چاہتے ہیں لیکن کوئی سننے کو تیار نہیں۔
کیا پاکستان میں کوئی وزیر، بزنس مین شاکر شجاع آبادی کے گھر کے اخراجات نہیں اٹھا سکتا ان کے علاج و معالجہ کے لیے ان کی مالی معاونت نہیں کر سکتا، ہم کر سکتے ہیں لیکن مرنے کے بعد، کیونکہ ہم زندگی میں لوگوں کو خوشیاں نہیں دے سکتے ہم مرنے کے بعد شاکر شجاع آبادی کے نام سے سڑکیں منسوب کریں گے ان کے نام سے یونیورسٹیوں میں ڈیپارٹمنٹ منسوب کریں گے ان کو کئی اعزازات سے نوازیں گے دو دن ان کی موت کی خبر ہمارے ٹیلی ویژن پر چلتی رہے گی، ہمارے حکومتی وزراء ان کے گھر آئیں گے فوٹ شوٹ کروائیں گے اور چلیں جائیں گے لیکن کیا ان سب کا شاکر شجاع آبادی کو فائدہ ہو گا؟ ہر گز نہیں یاد رہے قبر میں ان سب کاموں کی خبر نہیں ہو گی کچھ کرنا ہے تو ان کی زندگی میں ہی کریں جو باقی زندگی ہے وہی سکون سے گزار لیں ان کو جی بھر کے خوشیاں دے دیں ان کو ان کی زندگی میں چار دن عیش سے گزار لینے دیں۔ بقول شاکر شجاع آبادی:
بہتر حور دے بدلے گزارہ ہک تے کر گھنسوں
اکہتر حور دے بدلے اساں کو رج کے روٹی دے
شاکر شجاع آبادی کو ان کے مرنے کے بعد سب کچھ دینے سے بہتر ہے ان کے جیتے جی کچھ نا کچھ دے دیا جائے ایک گاڑی دے دی جائے کہ وہ علاج کے لیے اسپتال جائیں تو انہیں کوئی مشکل نہ ہو کچھ زمینی رقبہ الاٹ کر دیا جائے کہ ان کے اخراجات پورے ہو سکیں اور سب سے بڑھ کر ان کے بیٹوں کو نوکری دی جائے کئی وزراء یہ وعدہ کر کے گئے لیکن پورا نہ کر سکے تو اسی حکومت کو چاہیے کہ ان کے یہ مطالبات لازمی پورا کریں یہ مطالبات ناجائز نہیں ہیں وہ اتنے بڑے شاعر اور سرائیکی وسیب کا عظیم سپوت ہیں ان کا اتنا حق تو بنتا ہے کہ یہ انہیں دیا جائے۔
جنوبی پنجاب کے عوام شاکر شجاع آبادی کی آواز بنیں اور حکومتی سطح پر لے کر جائیں اگر عوام نہیں کرے گی تو عوام مجرم ہو گی، ہمیں اب سوچنا چاہیے کہ اپنے وطن عزیز کے قیمتی لوگوں کی قدر ان کی زندگی میں ہی کریں ان کے مرنے کے بعد تو سب کرتے ہیں کیوں نہ ہم زندگی میں ہی ان کی قدر کریں ان کا احترام کریں ان کے ساتھ کھڑے ہوں، انسان کو جو قدر اس کی زندگی میں ملتی ہے وہی اصل عزت ہے اور وہ ملنی بھی چاہیے ہم ساری زندگی ایک دوسرے سے روٹھے رہتے ہیں اور جب کوئی مر جاتا ہے تو اسے ہلا ہلا کر کہتے ہیں کہ اٹھتا کیوں نہیں؟
تب اٹھانے کا کوئی فائدہ نہیں تب صرف کندھوں پر اٹھانا باقی بچتا ہے تو کیوں نہ ہم آج سے ہی اپنے رشتے بچا لیں کسی سے ناراض ہیں تو منانے میں پہل کر لیں معافی مانگ لیں کوئی معافی مانگنے آئے تو معاف کردیں ساری نفرتیں بھلا کر ایک دوسرے کے ساتھ محبت کریں محبتیں بانٹتے رہیں کیا پتہ کل ہو نہ ہو بس آج میں جینا سیکھ لیں لوگوں کو اپنا بنانے کا ہنر سیکھ لیں پھر آپ کو یہ چھوٹی چھوٹی پریشانیاں تکلیف نہیں دیں گی آپ کو جینے میں مزہ آنے لگے گا آپ کی تکلیفیں کم ہو جائیں گی آپ آج سے ہی شاکر کے لیے جینا سیکھ لیں اس کے واسطے اپنی زندگی بہتر کر لیں لیکن شاکر شجاع آبادی جیسے لوگوں کو نہ بھولیں وہ ہمارا قیمتی سرمایہ ہیں ان کے لیے آپ سے جو ہو سکتا ہے آپ وہ کریں پھر آپ دیکھیئے گا کہ آپ کو دلی سکون محسوس ہو گا۔