Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aasim Irshad
  4. Sadar Ka Intikhab Aur Sisakti Jamhuriat

Sadar Ka Intikhab Aur Sisakti Jamhuriat

صدر کا انتخاب اور سسکتی جمہوریت

کہتے ہیں جمہوریت بہترین انتقام ہے، جب دل چاہے گالیاں دو، چور ڈاکو کہو، جب دل چاہے پاؤں پکڑو گلے لگاؤ اور مزے کرو کیونکہ اقتدار تو چند خاندانوں کے پاس رہنا ہے یہ کہیں اور جانا نہیں تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔

ملک بھر میں صدارتی انتخابات مکمل ہو گئے آصف زرداری دوسری بار صدر منتخب ہو گئے اور یوں پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگے، لیکن رکیں تھوڑا سا پیچھے چلتے ہیں۔ یہ بات ہے 1965ء کی جب ہمارا غلیظ سیاسی نظام غلاظت میں مکمل طور پر ڈوب گیا تھا اور آج تک ہم سب اسی غلاظت میں نہاتے جارہے ہیں۔ کسی نے اس غلاظت میں خود کو مستحکم کر لیا ہے اور کچھ اس غلاظت سے نکلنے کی کوشش میں ہیں۔ اس وقت تمام بڑے سیاست دان جمہوریت کا علم اٹھائے تقریریں کرتے نظر آتے ہیں لیکن یہ سب اپنے آباؤ اجداد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جمہوریت کو اپنے پیروں تلے روندتے ہوئے چلتے جارہے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔

1965ء میں پہلی بار عوامی سطح پر غداری کے سرٹیفکیٹ جاری ہوئے اور غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنے والے ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان تھے وہی ایوب خان جس کے بارے میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ "میں اس آرمی آفیسر کو جانتا ہوں یہ فوجی معاملات سے زیادہ سیاست میں دلچسپی لیتا ہے اس کو مشرقی پاکستان ٹرانسفر کیا جاتا ہے یہ ایک سال تک کسی کمانڈ پوزیشن پر کام نہیں کرے گا"۔

اسی ایوب خان نے بانی پاکستان کی بہن مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف صدارتی الیکشن لڑا اور اپنی صدارتی مہم کے دوران جو اشتہار چھپوایا اس پر لکھا تھا کہ عبدالغفار خان اور ان کے ساتھی مس فاطمہ جناح کے ساتھ مل کر پختونستان کے لیے کام کر رہے ہیں، قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ صدارتی الیکشن کے دوران صدر ایوب نے دین اور دنیا دونوں سے بے دریغ فائدہ اٹھایا، پہلے تو ایک مشہور پیر صاحب نے اعلان فرما دیا کہ انہیں بذریعہ کشف یہ الہام ہوا ہے کہ کمبائنڈ اپوزیشن پارٹیز کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل نہیں ہے۔ اس کے بعد چند علمائے کرام نے یہ فتویٰ بھی صادر کر دیا کہ اسلام کی رو سے کسی عورت کا سربراہ مملکت کے عہدے پر فائز ہونا جائز نہیں۔

صدر کا الیکشن جیتنا ایوب خان کے لیے اتنا ضروری ہوگیا تھا محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف ہر چیز کو درست سمجھنے لگے اور خرم دستگیر کے والد تو اتنا گر گئے کہ محترمہ فاطمہ جناح کے انتخابی نشان لالٹین کو کتیا کے گلے لٹکا کر پورے گوجرانولہ میں جلوس نکالے اور ذوالفقار علی بھٹو جو ایوب خان کو پیار سے ڈیڈی کہتے تھے۔ محترمہ فاطمہ جناح کو ضدی بڑھیا کے القابات سے پکارنے لگے میانوالی کی ضلع کونسل نے فاطمہ جناح کے خلاف قرارداد منظور کر لی۔ پیر آف زکوڑی نے فاطمہ جناح کی نامزدگی کو اسلام سے مذاق قرار دے کر عوامی لیگ سے استعفیٰ دے دیا اور ایوب خان کی حمایت کا اعلان کر دیا۔

صدارتی الیکشن کے دوران فاطمہ جناح پر پاکستان توڑنے کا الزام بھی لگا فاطمہ جناح کی بھارتی سفیر سے ملاقات کا حوالہ دے کر پاکستان توڑنے کی بات کو جلسوں میں کیا گیا مشرقی پاکستان بھی غدار ٹھہرا کیونکہ وہ ڈٹ کے محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ کھڑے تھے اور پھر ایوب خان نے فاطمہ جناح کے خلاف صدارتی الیکشن میں کامیابی حاصل کر لی اور تب سے اب تک صدارتی سیٹ پر الیکشن کے لیے دھاندلی ہونے لگی جمہوریت پامال ہوگئی ایک دوسرے کو گالیاں دینے والے ذاتی مفادات کی خاطر گلے لگا لیتے ہیں اور اب 2024ء کے الیکشن میں بھی یہی ہوا۔

اللہ ارشد شریف شہید کے درجات بلند فرمائے وہ اپنی زندگی میں ہی بہت سے سچ دیکھا گئے تھے بلکہ آن ریکارڈ کر گئے تھے تاکہ بوقت ضرورت انہیں دیکھ لیا جائے۔ انہوں نے اپنے پروگرام میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ایک دوسرے کو گھسیٹنے والے بیانات کو اکٹھا کرکے چلایا تھا چند بیانات ملاحظہ ہوں۔ آصف زرداری صاحب نے اپنے ایک جلسے میں کہا کہ اب اگر ہم نے میاں صاحب کو چھوڑ دیا تو شاید اللہ تعالیٰ بھی ہمیں معاف نہ کرے، اس لیے کہ یہ قومی چور ہے اور ہم ایسے درندے کو برداشت نہیں کریں گے"۔ اور پھر تاریخ نے دیکھا کہ اسی آصف زرداری نے وزیراعظم کے انتخاب کے لیے ن لیگ کی حمایت کی۔

میاں نواز شریف نے ایک جلسے میں کہا کہ زرداری صاحب یہ چھ سو کروڑ ڈالر آپ کے پاس کہاں سے آئے ہم تب تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک یہ چھ سو کروڑ ڈالر واپس پاکستان نہیں آجاتے" اور آج اسی نواز شریف نے صدر کے انتخاب کے لیے آصف زرداری کی حمایت کا اعلان کیا اور ووٹ دے کر کامیاب کروایا۔

ایسے ہی ایک جلسے میں بلاول بھٹو نے کہا تھا کہ شہباز شریف پنجاب کا قاتل اعلیٰ ہے اس نے ماڈل ٹاؤن کیس کا جواب دینا ہے ملتان میٹرو کرپشن کیس کا جواب دینا ہے آشیانہ کرپشن کیس کا جواب دینا ہے" لیکن پھر تاریخ نے دیکھا کہ اسی بلاول بھٹو نے وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے شہباز شریف کو ووٹ دے کر وزیراعظم بنوایا۔ شہباز شریف کا وہ بیان تو آپ کو یاد ہی ہوگا کہ اگر انتخابات کے بعد اس زرداری کو ہم نے لاڑکانہ، کراچی، لاہور اور پشاور کی سڑکوں پر نہ گھسیٹا تو میرا نام شہباز شریف نہیں اور آج اسی وزیراعظم شہباز شریف نے صدر کے لیے آصف زرداری کو ووٹ دیا اور کہا کہ ہم آصف زرداری کی سربراہی میں ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں گے۔

بدلا کچھ نہیں عمران خان کے بقول پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو پرویز الٰہی آج تحریک انصاف میں اہم عہدے پر فائز ہیں محمود خان اچکزئی کو کئی بار تنقید کا نشانہ بنانے کے بعد ان کی طرف سے صدارتی امیدوار بھی محمود خان اچکزئی تھے، شیخ رشید کو تو عمران خان نے اپنا چپڑاسی نہیں رکھنا تھا لیکن پھر ریلوے کی وزارت سے وزیرداخلہ بھی بنایا۔

یہ ہے ہماری جمہوریت کی کل کہانی جو چند سطور میں آپ کو سنائی عوام ہر دور میں بیوقوف بنے کبھی 65ء کے انتخابات میں تو کبھی 70ء کے الیکشن میں اور اب 24ء میں یہ پچیس کروڑ عوام کو بیوقوف بنانا ان سیاست دانوں کے لیے کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ چند سال بعد پھر الیکشنز کا ماحول بنے گا پھر یہ سب ایک دوسرے کے خلاف ہوں گے پھر حکومت بنے گی پھر اکٹھے ہو جائیں گے اس غلیظ نظام کو تیزاب سے غسل دینے کی ضرورت ہے ورنہ ہر دور میں عوام پٹتے رہیں گے بیوقوف بنتے رہیں گے اور کوئی پرسان حال نہ ہوگا۔

Check Also

Likhari

By Muhammad Umair Haidry