Roodad e Siasat
روداد سیاست
سیاست میرا پسندیدہ موضوع ہے میں اس پر بات کرنا اچھا سمجھتا ہوں سیاست دانوں کی زندگیوں کو پڑھنا دیکھنا اور ان کی کارکردگی دیکھ کر تعریف اور تنقید کرنا مجھے ہمیشہ سے پسند رہا ہے اب بھی میں حکومت کی بہتر کارکردگی پر تعریف کرتا ہوں اور غلطی کرنے پر نشاندھی بھی کرتا ہوں۔ میرے ایک استاد کہا کرتے تھے کہ کبھی بھی سیاست میں کسی شخص کو رول ماڈل نہ بنانا جب آپ سیاستدانوں کو رول ماڈل بنا لیتے ہیں تو پھر آپ اس میں غلطیاں نہیں نکال سکتے پھر آپ اس کے برے کام کی بھی تعریف کرتے ہیں آپ اس کی کرپشن کو بھی حلال کمائی ثابت کرتے ہیں اس کی برائیوں پر پردہ ڈالتے ہیں اور نالائقی پر بھی اس کی تعریف کرنا فرض سمجھتے ہیں اور جب آپ ایسا کرتے ہیں تو پھر انصاف قائم نہیں ہوتا پھر انسان کے قلم کی تاثیر باقی نہیں رہتی۔
سیاست دانوں کو دیکھنا انہیں پڑھنا اور ان پر لکھا ہوا پڑھنا مجھے پسند ہے میں سمجھتا ہوں کہ جو لوگ سیاست دانوں کے قریب رہتے ہیں اور پھر اس پر لکھتے ہیں تو کمال کرتے ہیں اس سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ جناب محمد نواز رضا بھی پاکستان کے ایسے بہترین صحافی ہیں جن کے بغیر صحافت کی تاریخ مکمل نہیں ہوتی ان کا شمار پاکستان کے بہترین کالم نگاروں میں ہوتا ہے یہ نوجوانی میں ہی صحافت میں آگئے اور 40 سال سے زائد عرصہ سے صحافت سے وابستہ ہیں انہوں نے سیاست میں جمہوری، آمریت، صدارتی نظام سب دیکھے ہیں یہ سیاستدانوں کے بہت قریب رہے ہیں۔ انہوں نے 1986ء میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی بنیاد رکھی، اس کے پہلے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے اور پھر تین بار صدر بنے، یہ مسلسل 16 سال تک اسلام آباد پریس کلب کے بھی صدر رہے سال 2018ء میں انہیں صدر پاکستان ممنون حسین کی جانب سے پرائڈ آف پرفارمنس کے اعزاز سے نوازا گیا۔
چند روز قبل ان کی کتاب روداد سیاست 2 جو ان کے سال 2016ء سے جون 2017ء تک کے کالموں کا مجموعہ ہے، مجھے علامہ عبد الستار عاصم صاحب نے بھجوائی میں نے کتاب کا مطالعہ شروع کیا چند کالم پڑھے پھر پوری کتاب پڑھ ڈالی مجھے ذاتی طور پر نواز رضا صاحب کا جھکاؤ نواز شریف چوہدری نثار اور مریم نواز وغیرہ کی طرف لگا ان کے ہر کالم میں نواز شریف اور مریم نواز کا ذکر ملتا ہے یہ نواز شریف کو پاکستان کا بہترین سیاست دان سمجھتے ہیں اور مریم نواز کو مستقبل کی سیاسی لیڈر کہتے ہیں۔
اس پر وہ وضاحت دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں مسلم لیگ ن کی سیاست پر اتھارٹی رکھتا ہوں میری مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت تک ذاتی طور پر رسائی ہے لیکن میں نے ان کے بارے میں جو کچھ بھی لکھا ہے اپنے دل و دماغ سے لکھا ہے، نواز رضا کہتے ہیں کہ مریم نواز جس طرح سے نواز شریف کی سیاست دیکھ رہی ہیں یہ بہت جلد پاکستان کی مقبول ترین لیڈر کے طور نظر آئیں گی نواز رضا اپنی کتاب میں مریم نواز کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مریم نواز کا نام ملک کی مستقبل لیڈر کے طور پر لیا جانے لگا ہے گو کہ وہ عوامی تقریبات میں کم نظر آتی ہیں لیکن انہوں نے ٹویٹر پر مورچہ سنبھال رکھا ہے ان کی قیادت میں تھنک ٹینک معرکے سر کر رہا ہے۔
مریم نواز جو ملکی سیاست میں گہری دلچسپی رکھتی ہیں اور اپنے والد محترم سے ملکی سیاست پر تبادلہ خیال کرتی ہیں، مریم نواز کے بارے میں مزید لکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک تقریب میں مظہر اقبال نے مریم اورنگزیب کو مخاطب کرتے ہوئے مریم نواز کہہ دیا تو تقریب کے شرکاء نے تصحیح کرتے ہوئے کہا کہ مریم اورنگزیب ہیں تو مظہر اقبال نے برجستگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ مریم نواز ہوں یا مریم اورنگزیب ایک بات واضح ہے مریم پاکستان کی سیاست کا درخشندہ ستارہ ہے دونوں پاکستان کا مستقبل ہیں نواز رضا مریم اورنگزیب کے قریب بیٹھے تھے نے گرہ لگاتے ہوئے کہا کہ مریم نواز اور مریم اورنگزیب میں کوئی فرق نہیں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں دونوں نواز شریف مخالف قوتوں کے خلاف مورچہ زن ہیں ایک مریم کی سربراہی میں تھنک ٹینک کام کر رہا ہے جبکہ دوسری مریم عمران خان کی طرف سے آنے والے پتھر کو اسی رفتار سے واپس پھینک رہی ہے یہ دونوں مریم نواز شریف کے مخالفین سے نمٹنا جانتی ہیں۔
نواز رضا اپنی کتاب میں پرویز رشید کے بارے میں لکھتے ہیں کہ مسلم لیگ ن میں اگر کوئی مخالفین کو جواب دینے والا ہے تو صرف پرویز رشید ہے جو اپنی توپوں کا رخ نواز شریف کے دشمن عمران خان کی طرف کیے ہوئے ہے اور عمران خان کے بارے میں اتنی پریس کانفرنسیں کر چکے ہیں کہ انہیں ماہر عمرانیات کا خطاب مل چکا ہے یہ عمران خان پر طنز کے تیر چلاتے ہیں بعض اوقات وہ ایسے ایسے تیر چلاتے ہیں کہ تحریک انصاف والے کئی دنوں تک اس کی کسک محسوس کرتے رہتے ہیں۔
نواز رضا نواز شریف کی اوپن ہارٹ سرجری کا ذکر کرتے ہوئے اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ آج کی تحریک انصاف جو پیپلز پارٹی کا ایڈیشن دوم ہی ہے نے اس وقت کی پیپلز پارٹی کو مات دے دی ہے جو دوسروں کی پگڑی اچھالنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھی تحریک انصاف نے سوشل میڈیا اور عمران خان کے دسترخوان کے خوشہ چینوں نے نواز شریف کی اس حد تک کردار کشی کی کہ ان کی اوپن ہارٹ سرجری تک کو مشکوک بنانے کی کوشش کی، نواز شریف کی اوپن ہارٹ سرجری کو تین ہفتے ہونے کو تھے کہ کہ ان کے سیاسی مخالفین حیران و پریشان رہ گئے کہ چار بائی پاس ہونے کے باوجود ایک ہفتے بعد ہی "شیر" اپنے قدموں پر چل کر ہسپتال سے گھر آ گیا۔
نواز رضا کی کتاب پاکستان کی سیاست میں اہم کردار ادا کرتی ہے یہ کتاب بہت سے پہلو دکھاتی ہے اور مسلم لیگ ن کی سیاست کو قریب سے سمجھنے میں مدد فراہم کرتی ہے میرے ذاتی خیال کے مطابق یہ کتاب مسلم لیگ ن پر زیادہ لکھی گئی ہے لیکن پھر بھی اس میں بہت سے اور بھی موضوعات ہیں جن کو پڑھنا لازمی ہے نواز رضا بہترین صحافی ہیں ہم ان سے سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں ہم ان کے سامنے طفل مکتب ہیں میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے اور آئندہ بھی سیکھتا رہوں گا اس کتاب کی بہترین اشاعت پر علامہ عبد الستار عاصم صاحب مبارکباد کے مستحق ہیں ان کے لیے بہت دعائیں جو آئے روز نئی کتاب شائع کرتے ہیں اور ہمیں پڑھنے کے لیے بھیجتے ہیں۔