Pakistani Markos
پاکستانی مارکوس
جب بھی دنیا کے کرپٹ ترین حکمرانوں کا نام لیا جاتا ہے، تو اس میں ایک نام فرڈیننڈ مارکوس کا آتا ہے۔ مارکوس فلپائن کا منتخب صدر اور بعد میں مارشل اس نےلاء نافذ کر دیا، اس کے پورے دور اقتدار میں اس نے کرپشن بھی کی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ فرڈیننڈ مارکوس خود کو ریٹائرڈ فوجی کہتا تھا اس کا کہنا تھا کہ اس نے جنگ عظیم دوئم میں لاتعداد بہادری کے تمغے حاصل کیے اور خود کو لیفٹیننٹ کرنل بھی کہتا تھا لیکن امریکہ کے مطابق یہ فلپائنی فوج میں میجر کے منصب تک ہی پہنچا۔
مارکوس 1959ء میں فلپائن سینیٹ کا رکن بنا، پھر 1965ء میں صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور صدر بن گیا۔ پھر سات سال بعد ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا۔ مارکوس نے حکمران بن کر بے انتہا کرپشن کی۔ جب فلپائن میں غربت کا دور تھا، بڑے بڑے امراء فٹ پاتھوں پر آگئے تھے، تب مارکوس کی بیگم ایملڈا مارکوس کے اثاثے منظر عام پر آئے، تو عوام کو علم ہوا کہ ایملڈا کے پاس دو ہزار سات سو سے زائد جوتے ہیں، جن میں اکثریت جوتوں کی قیمت لاکھوں میں تھی۔
ایک ہزار سے زائد ہینڈبیگ، ہیرے کی انگوٹھیاں، قیمتی گھڑیاں اور ایک درجن سے زائد مرسڈیز بینز تھیں اوراس کے علاوہ اپنا طیارہ بھی تھا۔ مارکوس کے دور حکومت میں تقریباً تین ہزار سے زائد لوگ مارے گئے۔ مارکوس جب فلپائن چھوڑ کر بھاگا، تو اربوں ڈالر اپنے ساتھ لے گیا اور پھر مرتے دم تک امریکہ میں رہا اور اسے فلپائن میں دفن ہونے کی جگہ بھی نہیں دی گئی۔
آپ جب بھی دنیا کے کرپٹ ترین سیاست دانوں کو پڑھیں گے آپ کو ان میں تین چیزیں ایک جیسی ملیں گی ایک تو یہ لوگ چوری کرنا بند نہیں کرتے، یہ تھوڑی کرتے ہیں پھر زیادہ پھر اس سے زیادہ دوسری بات یہ لوگ اپنے گھر والوں سے ہمیشہ ذلت اٹھاتے ہیں اور تیسری اور اہم بات یہ لوگ مرتے وقت بھی سکون میں نہیں ہوتے، انہیں موت کے بعد کوئی قبول نہیں کرتا، ان کی لعشیں دربدر ذلیل ہوتی ہیں۔ یہ اپنے ملکوں سے جب چوری کر کے بھاگتے ہیں تو زیادہ تر امریکہ ہی ان کو پناہ دیتا ہے۔ جیسے شاہ ایران بھی اپنے ملک سے بھاگ کر امریکہ گیا اور وہیں مر گیا اسی طرح یوگنڈا کا عیدی امین سعودیہ میں مرا ان لوگوں کو اپنے ملک میں دفن ہونا بھی نصیب نہیں ہوتا۔
کرسی کا نشہ یا لت بہت بری ہے، یہ جس انسان کو لگ جائے بڑی مشکل سے یہ لت ختم ہوتی ہے "بندہ ختم ہو جاتا ہےا قتدار کی لت ختم نہیں ہوتی" پاکستان بھی سوہارتو، مارکوس اور عیدی امین جیسے لوگوں سے بچا ہوا نہیں ہے، یہ کرسیوں کے چند کیڑے ملک کو برباد کر جاتے ہیں۔ آپ آصف علی زرداری صاحب سے شروع کر لیں، جناب پیرس میں تھے، اس وقت بینظیر بھٹو شہید وزیراعظم تھیں۔
زرداری صاحب کو کھانے میں بھنڈی توری، کالے چنے بے حد پسند ہیں، پیرس چھان مارا لیکن بھنڈی توری نہیں ملی پھر پاکستان ائیر لائن کی پرواز مراکو سے آرہی تھی اسے چار گھنٹے انتظار کروایا اور اس میں مراکو سے پیرس بھنڈی توری آصف علی زرداری کے لیے لائی گئی اور موصوف نے کھانا کھایا۔ اسی طرح میاں نواز شریف کے لیے لاہور سے مری کھانا بھی ہیلی کاپٹر پر لے جایا جاتا تھا۔ نواز شریف صاحب جب جیل میں تھے اور ان کی جانب سے باہر جانے کے لیے اپوزیشن سرتوڑ کوششیں کر رہی تھی، تب سپریم کورٹ میں نواز شریف کی بیماریوں کی تفصیل جو دی گئی، وہ یہ تھی۔
نواز شریف کےدل کی دوسرجریاں ہو چکی ہیں سات سٹنٹ ہیں سترہ دوائیاں کھاتے ہیں، دل و دماغ کی کچھ شریانیں بند ہیں، گردوں کی بیماری ہے شوگر ہے انسولین لگاتے ہیں، بلڈ پریشر ہے ذہنی اعصابی دباؤ ہے، گردن میں موجود شریانوں میں سوجن کی بیماری ہے دماغ کی شریانیں سکڑ جانے کی بیماری میں مبتلا ہیں، اور شریانوں میں رکاوٹ کا علاج صرف بیرون ملک ممکن ہے اور فوری طور پر پاکستان سے باہر جانے کی اجازت دی جائے اور اس وقت نواز شریف کے لیے ایک درجن سے زائد ٹفن کھانے کے آتے تھے۔
بیرون ملک ایک دن ہسپتال میں نہیں گزارا اور نہ ہی بیماری کی حالت میں کوئی تصویر سامنے آئی ہوٹل میں کھانا کھانے پولو کا میچ دیکھنے جا سکتے تھے، لیکن دوا لینے ہسپتال نہیں جا سکتے تھے۔ یہ پاکستان کے مارکوس ہیں ان کے پاس پیسے کا کوئی حساب نہیں، لیکن بدقسمتی ملاحظہ کیجئے،یہ اپنے والد کی وفات پر پاکستان نہیں آسکے پھر اپنی والدہ کی تدفین کے لیے بھی نواز شریف ان کے دونوں بیٹے حسن، حسین شہباز شریف کے بڑے صاحب زادے سلیمان شہباز، نواز شریف کے داماد اور اسحاق ڈار پاکستان نہیں آسکے۔
یہ سب پاکستان کی عدالتوں میں بدعنوانی کے مقدمات میں مطلوب تھے، لہٰذا یہ بیگم شمیم اختر کی تدفین کے لیے پاکستان نہیں آئے، آپ ان کی اولاد کی بدقسمتی دیکھیں کہ نواز شریف کے دونوں بیٹے اپنی والدہ کلثوم نواز کی وفات پر بھی پاکستان نہیں آئے تھے۔ یہ پورا خاندان دربدر کی ٹھوکریں کھا رہا ہے۔ تقریباً زیادہ لوگ ضمانتوں پر باہر ہیں پیشیاں بھگت رہے ہیں، رشتے خراب ہو رہے ہیں۔ نواز شریف اتنے سال سے لندن بیٹھے ہیں۔
شہباز شریف پاکستان میں جیلوں اور عدالتوں کے چکر لگا رہے ہیں سلیمان اور حمزہ شہباز بھی مطلوب ہیں لیکن پھر بھی یہ خاندان اقتدار کے لیے پر تول رہا ہے، یہ چاہتا ہے کسی طرح ہمیں کرسی مل جائے اور ہم پھر ایک بار ملک کو لوٹیں۔ میں دنیا میں جب بھی لوگوں کو چوری کرتے دیکھتا ہوں، تو انہیں صرف پاکستان کے مارکوس کی مثال دیتا ہوں کہ چوری کر کے چند دن ٹھیک گزریں گے پھر عمر بھر کی ذلالت مقدر میں ہو گی۔
تھوڑے سے پیسے کے لیے اپنی اولاد کو حرام کا نوالہ نہ کھلائیں ورنہ دنیا و آخرت دونوں تباہ ہو جائیں گے، آپ کے بچے بھی آپ کی طرح اپنے والدین کی تدفین میں شامل نہیں ہوں گے۔ جن بچوں کے لیے آپ یہ سب کرتے ہیں وہ آپ کو قبر میں نہیں اتار سکیں گے۔ اب بھی وقت ہے خدارا اپنی آخرت بچا لیں واپس آئیں، اپنے اوپر لگے الزامات کا سامنا کریں، سچے ہیں تو ثبوت دیں ورنہ سزا برداشت کریں اور ہمیشہ کے لیے امر ہو جائیں ورنہ یہ قوم اور آپ کی اگلی نسل آپ کو یاد تو رکھے گی لیکن سوہارتو، عیدی امین اور فرڈیننڈ مارکوس کی شکل میں۔