Madaris Khair Ke Marakiz
مدراس خیر کے مراکز
ہم پیدا ہوتے ہیں ہم پر لازم ہے کہ ہم دینی تعلیم حاصل کریں اور اتنی حاصل کریں کہ ہمیں غسل، وضو، نماز، پاکی ناپاکی، حلال حرام میں فرق کرنا آجائے اور ہم اس سے بڑھیں تو قرآن مجید کو ترجمہ وتفسیر کے ساتھ پڑھنا چاہیے، جب ہم یہ پڑھ لیتے ہیں تو ہم بنیاد سیکھ جاتے ہیں اس کے بعد باری آتی ہے آپ قرآن مجید کو حفظ کریں یا عالم بنیں، اور جو بنیادی چیزیں میں نے عرض کی ہیں یہ والدین کا فرض ہے کہ کوشش کرکے بچے کو خود سیکھائیں اور بچے کو یہ باور کرائیں کہ بیٹا یہ لازم ہے اس کے بغیر گزارہ نہیں، اس سے ایڈوانس دینی تعلیم کے لیے پھر مداراس کا رخ کیجئے۔
لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے ہم اپنے بچے کو چھوٹی عمر میں مدارس میں تعلیم کیلیے بھیج دیتے ہیں جہاں وہ تعلیم تو حاصل کرتا ہے لیکن ساتھ اسے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے، کچھ بچے اس عمل سے بچ جاتے ہیں اور زیادہ تر اس عمل کا شکار ہوجاتے ہیں، بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والے کون لوگ ہوتے ہیں یہ قریبی رشتے دار جن پر ہم بہت بھروسہ کرتے ہیں مثلاً ماموں، چاچو، کزن وغیرہ اور استاد بھی ہوسکتا ہے جن کے ساتھ بچہ گھل مل جاتا ہے وہ بچے کے ساتھ یہ قبیح فعل کرتے ہیں۔
لاہور کے ایک مدرسہ میں عزیز الرحمن نامی شخص نے اپنے شاگرد کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا، بچے نے ویڈیو بنائی اور وائرل کر دی، یہ تو شکر ہے موبائل میں کیمرہ لگانے والوں کا کہ جن کی وجہ سے آج ہم عزیز الرحمن جیسے ذہنی مریضوں کے کارنامے دیکھ رہے ہیں اور ان پر کیس دائر کر رہے ہیں، سوچیئے اگر یہود کا بنایا کیمرہ آپ کے پاس نہ ہوتا تو ہم اس واقعے سے نابلد رہتے اور عزیز الرحمن جیسے ذہنی مریض کو مولانا صاحب کہتے ہوئے اس کے ہاتھ چومتے رہتے، یہاں پر یہ آپ کو یہ بتاتا چلوں کہ عزیزالرحمن شیخ الحدیث اور جمیعت علماء اسلام کے متحرک رہنما ہیں، بچے کا کہنا ہے کہ یہ شخص کافی عرصہ سے اس کے ساتھ یہ فعل کر رہا ہے میں نے مدرسے کے باقی عملے کو آگاہ کیا تو انہوں نے مجھے غلط کہا کہ عزیز الرحمن صاحب فرشتہ صفت انسان ہیں وہ ایسا کر ہی نہیں سکتے تم جھوٹ بول رہے ہو بچے کو مجبوراً ویڈیو بنا کر ثبوت کے طور پر پیش کرنی پڑی جس کے فوراً بعد ذہنی مریض کا ویڈیو پیغام جاری ہوا کہ میں نیک پارسا ہوں مجھے نشہ دیا گیا تھا میں حوش و حواس میں نہیں تھا، اگر آپ کی نظر سے وہ ویڈیو گزری ہے توآپ غور کیجئے گا عزیز الرحمن باقاعدہ ہوش و حواس میں ہے بلکہ اپنے جسم کو ہلا جلا بھی رہا ہے۔
چلیں یہ مان لیتے ہیں کہ انسان خود کو بچانے کے لیے ایسا ویڈیو پیغام جاری کر سکتا ہے لیکن مجھے سب سے زیادہ حیرانی اس بات پر ہوئی جب اس ذہنی مریض کے چاہنے والے اس کے پیغام کو سچ ثابت کرنے پر تلے تھے اور کچھ کا کہنا تھا کہ اگر میں مولانا صاحب کے کمرے میں جاتا اور ہمارے مولانا صاحب اس حالت میں ہوتے کہ ان کی گود میں کوئی لڑکی برہنہ حالت میں لیٹی ہوتی تو میں اس کو بھی نظر کا دھوکہ سمجھتا اور اس بات پر یقین کرتا جو ہمارے مولانا صاحب فرماتے، میں قائدین کے خلاف نہیں ہوں لیکن میں شخصیت پرستی کے بے حد خلاف ہوں اسلام کو پڑھیں اس میں شخصیت پرستی کا تصور ہی نہیں ہے یہ تو ہم نے کوئی ایک ہزار سال بعد اپنی اپنی پسند کے بابے بنا لیے ہیں اور ان بابوں کی بات کو ہی حق سچ مان لیا ہے، ایسا نہ کریں اسلام کا چہرہ مسخ نہ کریں اسلام پاک مذہب ہے اس کے نام پر سیاست یا اپنی روزی نہ چمکائیں، کہا جاتا ہے کہ علماء کے بارے میں بات نہ کریں یہ انبیاء کی میراث ہیں یہ پاک نیک پارسا ہیں ان سے پوچھ گچھ نہ کریں اس سے انکی توہین ہوتی ہے میرا ماننا یہ ہے کہ اگر خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ایک بدو یہ کہ سکتا ہے کہ میں نہ آپؓ کی بات سنتا ہوں اور نہ ہی اطاعت کرتا ہوں۔
حضرت عمرؓ نے استفسار کیا کہ کیوں؟ بدو بولا، یمن سے جو چادریں آئی تھیں ان میں سے صرف ایک ایک چادر سب کے حصے میں آئی تھی۔ اور اس چادر سے آپؓ کی قمیض نہیں بن سکتی، مگر آپؓ نے اس چادر کی قمیض زیب تن کی ہوئی ہے، یقینا آپؓ نے اپنے حصہ سے زائد کپڑا لیاہے، حضرت عمرؓ نے فرمایا، اس کا جواب میرا بیٹا عبداللہؓ دے گا، یہ سن کر حضرت عبداللہ بن عمرؓ اُٹھے اور کہا "واقعی میرے ابا جان کی قمیض ایک چادر میں نہ بنتی تھی میں نے اپنے حصے کی چادر انہیں دے دی تھی، اس طرح ان کی یہ قمیض بنی ہے۔"یہ سن کر بدو پھر اُٹھا اور گویا ہوا، "اب میں آپؓ کی بات سنتا ہوں اور اطاعت کرتا ہوں، تو یہ علماء کیا چیز ہیں ان سے کوئی کیوں نہیں پوچھ سکتا کیوں ان پر اندھا اعتماد کیا جاتا ہے کیوں ان کے خلاف ایکشن نہیں ہو سکتا میں ان علماء سے عرض کرتا ہوں کہ مدارس خیر کے مراکز ہیں ان سے لوگوں کو صرف خیر دیں لوگوں کو ان سے بدگمان نہ کریں پاکستان میں اس وقت یومیہ 11 بچے جنسی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں یہ 11 بچے کون ہیں؟ یہ مدارس میں پڑھنے والے، گھروں میں کام کرنے والے، اور اپنے قریبی رشتے داروں کی درندگی کی بھینٹ چڑھنے والے ہیں یہ ہمارے بچے ہیں ہمارا مستقبل ہیں اور ہم ان کے ساتھ کیا کر رہے ہیں ہم ان کی بات پر یقین تک نہیں کر رہے، پاکستان میں اس وقت تین بڑے مکتب فکر ہیں جنکے مدارس کثیر تعداد میں پورے پاکستان میں پھیلے ہوئے ہیں۔
دیوبندی مکتبہ فکر کا الحاق وفاق المدارس سے ہے جس سے تقریبا 18600 مدارس منسلک ہیں اور یہاں 20 لاکھ کے قریب طلباء طالبات زیر تعلیم ہیں۔ بریلوی مکتبہ فکر کا الحاق تنظیم المدارس سے ہے اور اس سے تقریبا 9000 بریلوی مدارس منسلک ہیں جن میں 13 لاکھ طلباء و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ اس طرح اہل حدیث مکتبہ فکر کا الحاق وفاق المدارس السلفیہ سے ہے اس کے تحت تقریباً 1400 مدارس ملک بھر میں فعال ہیں جہاں کل ملا کے تقریباً 39000 طلباؤطالبات زیر تعلیم ہیں، یہ رجسٹرڈ ہیں ان کے علاوہ کئی سو ایسے ہیں جو رجسٹرڈ ہی نہیں ہیں ان مدارس میں بچے دور دراز کے علاقوں سے آتے ہیں اور یہاں بیٹھے درندے ان معصوم بچوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں۔
والدین اپنے بچوں کو اعتماد میں لیں اور سمجھائیں کہ اگر کوئی اس طرح کی حرکت کرے تو فوراً آگاہ کریں اور بچوں کی بات پر یقین بھی کریں ان کو دوست بنائیں ان کو ڈرائیں نہیں بلکہ پیار سے سمجھائیں کہ بیٹا یہ غلط ہے، آپ کے بچے آپ کا اور اس قوم کا مستقبل ہیں خدارا ان کو بچا لیں ان کو ایسے درندوں کے ہاتھ نہ جانے دیں ورنہ آپ روتے رہیں گے اور آپ کے آنسو پونچھنے کوئی نہیں آئے گا۔