Kuch Sachaiyan
کچھ سچائیاں
روزی گیبریل ٹریولر ہیں ان کا تعلق کینیڈا سے ہے یہ بائیک پر سفر کرتی ہیں مختلف علاقوں میں جاتی ہیں ڈاکومینٹری بناتی ہیں سوشل میڈیا پر شیئر کرتی ہیں، یہ پاکستان دسمبر 2018ء میں آئیں ان کا کہنا تھا کہ مجھے پاکستان کے بارے میں بہت سی غلط اور خوفناک باتیں بتائی گئی تھیں میں وہ سب باتیں جاننے کے لیے پاکستان آئی، روزی نے موٹر سائیکل پر پاکستان کا سفر شروع کیا اور اور ملک بھر کے 40 مقامات پر گئیں انہوں نے 14 ماہ پاکستان میں گزارے ان کا کہنا ہے کہ میں جہاں بھی گئی لوگوں نے محبت اور عزت سے استقبال کیا، روزی نے جنوری 2020ء میں اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ میں نے اسلامی ممالک میں سیاحت کر کے اور ان لوگوں سے متاثر ہو کر ان کے کردار سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا، روزی پاکستان میں آئی یہاں موٹر سائیکل پر سفر کرتی رہی وہ 14 ماہ پاکستان میں رہی وہ بہت سی جگہوں پر گئی لیکن اسے کسی پاکستانی نے تنگ نہیں کیا اسے کسی پاکستانی نے چھیڑا نہیں روزی نے اعتراف کیا کہ پاکستانی عزت دار ہیں اس کے بعد روزی نے اپنی طرح کے ہی ایک پاکستانی ٹریول ولاگر عدیل عامر سے شادی بھی کر لی۔
اب میں لاہور اقبال پارک میں ہونے والے واقعے کی طرف آتا ہوں جسے بنیاد بنا کر پاکستان پر کیچڑ اچھالا جا رہا ہے، عائشہ اکرم پیشے کے لحاظ سے نرس ہے اور پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی لاہور میں بطور سٹاف نرس کام کر رہی ہے، عائشہ اکرم پر دوران ڈیوٹی موبائل استعمال کرنے اور ٹک ٹاک ویڈیوز بنانے کے باعث دو بار نوٹس بھی جاری کیے گئے تھے، عائشہ نے 13 اگست کو اپنے ٹک ٹاک فینز کو ویڈیو پیغام میں کہا کہ کل اقبال پارک جو مجھ سے ملنا چاہتا ہے یا سیلفی لینا چاہتا ہے وہ آجائے 14 اگست شام عائشہ اکرم اپنے ساتھی جس کا نام ریمبو ہے کے ساتھ پارک میں پہنچی اور اپنے فینز کے ساتھ تصویریں بنانے لگی لوگوں کی تعداد بڑھتی گئی عائشہ تصاویر بنواتی رہی اقبال پارک کے سیکورٹی گارڈ کے ایک بیان کے مطابق جب لوگ عائشہ کے قریب جا رہے تھے تب عائشہ وہاں سے جا سکتی تھی لیکن وہ نہیں گئی اور لوگوں نے اسے چھیڑنا شروع کر دیا پھر اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ پوری دنیا نے دیکھا۔
لیکن پھر عائشہ نے 15 اور 16 اگست کو معمول کے مطابق اپنی تصویریں سوشل میڈیا پر لگائی عائشہ اس معاملے کو بھول چکی تھیں لیکن بد قسمتی سے 17 اگست کو کسی سوشل میڈیا یوزر نے اس واقعہ کی ویڈیو وائرل کر دی جب عائشہ کو پتہ چلا تو اس نے اپنی دو دن پہلے کی ویڈیوز اور تصویریں ڈیلیٹ کر کے اپنے ساتھی کے ساتھ روتے ہوئے ایک ویڈیو پیغام جاری کر دیا، سوشل میڈیا اور میڈیا پر ہنگامہ برپا ہو گیا پولیس تک بات پہنچی ڈی جی آپریشنز نے فوراً ایکشن لیا عائشہ کو نہ چاہتے ہوئے بھی رپورٹ درج کروانی پڑی، اور میڈیا گروپس کی لائن لگ گئی عائشہ کا انٹرویو کرنے کے لیے عائشہ نے روتے ہوئے انٹرویو دیا اور پھر پاکستان میں طوفان برپا ہو گیا بیرون ملک سے بھی پاکستان کے خلاف زبانیں بلند ہوئیں اور پاکستان کو عورتوں کے لیے غیر محفوظ ملک قرار دیا جانے لگا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عائشہ نے ایسا کیوں کیا اس کی وجہ صاف ظاہر ہےکے عائشہ کو فالورزبڑھانےتھے اور فالورز کیسے بڑھنے تھے اس کے لیے کہانی میں کچھ نیا لانا تھا اور عائشہ اس میں کافی حد تک کامیاب ہوبھی گئی، لیکن پھر ہمارے عوام جس نے اس سارے ڈرامے کو ٹریس کیا، میں ابھی تک ان سارے لوگوں کے خلاف ہوں جنہوں نے عائشہ کے ساتھ بد تمیزی کی اس کی تذلیل کی ان سب لوگوں کے خلاف سخت ایکشن ہونا چاہیے اور کڑی سزا دی جانی چاہیے تا کہ آئندہ کوئی بھی اوباش ایسی حرکت نہ کر سکے لیکن ساتھ ہی عائشہ اکرم سے بھی مکمل تفتیش کی جائے اور اس سارے منصوبے میں جو شامل ہے جن لوگوں نے وطن عزیز پاکستان کی حرمت پر بات کرنے کی گستاخی کی ہے انہیں سخت سزا دی جائے، بات کسی ایک فرد، ادارے پر ہوتی تو قابلِ برداشت تھی لیکن بات ہمارے پاکستان پر ہوئی ہے کہ پاکستان عورتوں کے لیے محفوظ ملک نہیں ہے ایسا کیوں ہوا وہ تین چار سو لوگ اور عائشہ اکرم جواب دیں۔
وطن عزیز میں جب سخت دھوپ اور گرمی کے موسم میں عورت لائن میں لگتی ہے تو وہاں کھڑے مرد کہتے ہیں بہن پہلے آپ اپنا کام کر لیں پاکستان میں اگر کسی عورت کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے پاکستان میں سب سے زیادہ احتجاج یہی مرد کرتے ہیں پاکستان میں جب کوئی غیر ملکی آتا ہے تو ہمارے یہی لوگ ہمارا معاشرہ انہیں عزت دیتا ہے محبت دیتا ہے، میرے وطن میں جب کسی لڑکی کو اوباش چھیڑتا ہے تو پورا محلہ اسےمارنے آجاتا ہے اس پاک دھرتی پر عورتوں کے حق کے لیے سڑکوں پر نکلا جاتا ہے لیکن یاد رہے صرف عورت، سارا دن ٹک ٹاک پر ناچ کر اگر آپ اس معاشرے سے عزت لینا چاہتی ہیں تو آپ غلط ہیں، اسلام نے حد بندی کی ہے عورت اپنا مقام سمجھے اور مرد اپنی اوقات میں رہےلیکن افسوس ہے دونوں اس سطح سے نیچے ہیں، ہمارے ملک میں کسی ٹک ٹاکر کا دل کرتا ہے تو وہ ہمارے وزراء پر الزام لگا دیتی ہے ہمارے سرکاری دفاتر کے دروازوں کو ٹانگ مار کر کھولتی ہے، ہمارے قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے لیکن کیا ہوتا ہے؟ کچھ نہیں ہوتا، کیونکہ لاقانونیت ہے جس ملک میں ہر مسلئہ پر وزیراعظم کو ایکشن لینا پڑے وہاں کیسے کوئی ادارہ بہتر کام کر سکتا ہے، بیرون ممالک میں اگر صدر یا وزیراعظم کسی مسلئہ پر ایکشن لے تو اپوزیشن ہنگامہ کر دیتی ہے کہ متعلقہ ادارہ ٹھیک کام نہیں کر رہا اور صدر، وزیراعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کر دیتے ہیں، لیکن بد قسمتی سے ہمارے ہاں تب تک سنوائی نہیں ہوتی جب تک وزیراعظم خود نوٹس نہ لیں۔
ہمارے ملک سے ایسے مسئلے بہت جلد حل ہو سکتے ہیں اگر سزا و جزا کا عمل شروع ہو جائے جو شخص جرم میں ملوث ہو اسے سزا دی جانے لگے جو کسی پر الزام تراشی کرے اور وہ ثابت نہ ہو تو اسے ہرجانہ ادا کرنے پر پابند کیا جائے، ہمارا ملک بہت جلد ان سارے چھوٹے چھوٹے مسائل سے نجات پا لے گا اگر اسی لاہور والے واقعہ کی مکمل تحقیقات ہوں اور مجرموں کو سخت سزا دی جائے ان تمام لوگوں کو بھی نشان عبرت بنا دینا چاہیے جنہوں نے عائشہ اکرم کے ساتھ بد تمیزی کی اور ان کے ساتھ ہی عائشہ کو بھی شامل تفتیش کرنا لازم ہے تا کہ اصل معاملہ سامنے لایا جاسکے اور عوام کو اصلیت معلوم ہو اور سرحد پار سے پاکستان مخالف بیانیے کو لگام ڈالی جا سکے۔