Kitabain Zinda Rehti Hain
کتابیں زندہ رہتی ہیں
دنیا میں بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو تاریخ میں یاد رکھے جاتے ہیں، ہر روز پوری دنیا میں تین لاکھ سے زائد بچے پیدا ہوتے ہیں بڑے ہو کر مختلف سمتوں میں طبع آزمائی کرتے ہیں اور پھر ایک سال میں چند ایک ایسے ہوتے ہیں جو ملک کا نام روشن کرتے ہیں باقی متوسط زندگی گزار کر دنیا سے کوچ کر جاتے ہیں۔ ڈاکٹر اے آر خالد صاحب کا شمار پاکستان کے ان سینئر اور مستند دانشوروں میں ہوتا ہے جن کی بدولت ہمیشہ پاکستان کا سر فخر سے بلند ہوا۔ ڈاکٹر صاحب سیالکوٹ میں پیدا ہوئے نمایاں کارکردگی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی پھر عملی زندگی میں صحافت کو اپنایا ان کے کالم غیر روایتی انداز میں ہوتے ہیں شروع کرتے ہیں تو پھر پڑھتے چلے جاتے ہیں انکے کالم پاکستان کی اعلیٰ ترین کلاس میں بے حد مقبول ہیں، ڈاکٹر صاحب کی کئی کتب پاکستان اور بیرون ملک یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی ہیں انہوں نے مختلف موضوعات پر کتابیں لکھیں جن میں کانسپٹس آف جرنلزم، امریک میں نوے دن اور تھینک یو پاکستان قابل ذکر ہیں، ڈاکٹر صاحب فل برائٹ سکالر کے طور پر وائس آف امریکہ، کئی امریکی اخبارات اور نیوز چینلز کو تاریخ ساز انٹرویو دے چکے ہیں، آپ پنجاب یونیورسٹی، جی سی یونیورسٹی فیصل آباد، یونیورسٹی آف نیبر اسکا اوہاما (امریکہ) میں باقاعدہ تدریس رہ چکے ہیں، وہ امریکہ کی کئی بڑی یونیورسٹیوں میں لیکچرز بھی دیتے رہے ہیں، پاکستان کے تقریباً تمام بڑے اخبارات میں کالم لکھ چکے ہیں انکے کالم مختلف زبانوں میں ترجمہ کر کے بھی پڑھے جاتے ہیں ۔
آج کل ڈاکٹر اے آر خالد صاحب نوائے وقت سے وابستہ ہیں، چند روز قبل لاہور سے بہت ہی محترم استاد علامہ عبد الستار عاصم صاحب نے ڈاکٹر صاحب کی کتاب " میں اور میرے اماں جی" بھیجی ڈاکٹر صاحب کی کتاب کو اٹھایا تو مکمل کیے بغیر نہ رہ سکا کتاب کے نام سے ہی عقیدت و احترام محبت و خلوص نظر آتا ہے لفظ ماں جی یا اماں جی ایسا لفظ ہے جس کو ادا کرتے ہی منہ میں چاشنی آجاتی ہے ماں کے موضوع پر اگر لکھنا چاہیں تو قیامت تک ماں کی محبت پر ہم ایک کتاب نہیں لکھ سکتے لیکن ڈاکٹر اے آر خالد صاحب نے جس خوبصورت انداز سے یہ کتاب لکھی ہے یوں لگتا ہے ساری باتیں سمندر کو کوزے میں بند کر دیا ہے ڈاکٹر صاحب کے لفظوں کا جوڑ توڑ پڑھنے والے کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے، ڈاکٹر صاحب نے کتاب میں اپنی زندگی کے اہم واقعات پیش کیے ہیں جو کبھی ہنسا دیتے ہیں کبھی اداس اور کبھی حیران کر دیتے ہیں۔ ایک واقعہ میں ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ میں ہیلی کالج آف کامرس لاہور میں پڑھتا تھا ہفتہ یا پندرہ دن بعد اماں جی سے ملنے سیالکوٹ چلا جاتا تھا ایک روز سیالکوٹ سے لاہور آتے ہی اماں جی کی کمی کو محسوس کرنے لگا اداسی میں نہ پڑھنے کو دل لگتا نہ بازار میں گھومنے کو دل کرتا ہر طرف اداسی ہی اداسی تھی وجہ سمجھ سے بالاتر تھی اسی الجھے ہوئے ذہن کے ساتھ میں پرانی انار کلی میں گھوم رہا تھا کہ کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا میں نے مڑ کر دیکھا تو ادھیڑ عمر شخص تھا نہ حلیے سے فقیر نظر آئے نہ راستہ پوچھنے والا نہ ہی کوئی ٹھگ، میری آنکھوں میں اترے ہوئے سوالات کو کمال مہارت سے پڑھتے ہوئے اس نے کہا کہ ہم ایک دوسرے کو نہیں جانتے آپ ایسے آوارہ گردی کرتے نظر آئے تو سوچا حال احوال پوچھ لوں شاید کسی الجھن کا علاج بتا سکوں، میں نے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ کالج میں پڑھتا ہوں سیالکوٹ کا رہنے والا ہوں اماں جی کی یاد نے بے چین کیا تو باہر نکل آیا، وہ بولا خوش قسمت ہو ماں کی یاد میں اداس ہو اور وہ بڑے نصیب والے ہوتے ہیں جن کی مرشد انکی ماں ہوتی ہے کہنے لگے ماں کو مرشد بنا لو یہ دنیا والے تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے نہ تمہاری کامیابیوں کو روک سکیں گے تمہاری ماں کی دعائیں تمہارے ہر وقت ساتھ ہیں جو تمہیں ہر پریشانی ناکامی اور مصیبت سے بچاتی ہیں اور ہمیشہ بچائیں گی تم خود ہی دیکھ لو گے یہ کہ کر وہ بابا مجھے تھپکی دے کر چلا گیا، اور میں پرانی انار کلی کے بازار میں حیران و پریشاں کھڑا رہ گیا۔
میں جب " میں اور میرے اماں جی " کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا تو گویہ ایسے تھا جیسے دنیا مافیا سے بے خبر تھا ہر ورق پر پہلے سے خوبصورت واقعہ لکھا ہوا تھا۔ ماں جی کے موضوع پر اگر آپ کچھ پڑھنا چاہتے ہیں ڈاکٹر اے آر خالد صاحب کی یہ کتاب ضرور پڑھیں آپ پڑھ کر ہمیشہ یاد رکھیں گے، ماں کے حسنِ سلوک پر یہ بات ذہن میں آئی کہ حضرت ابو ھریرہؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا کہ اے خدا کے رسولﷺ میرے نیک سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے۔ آپﷺ نے فرمایا تیری ماں۔ اس نے پوچھا پھر کون تو آپﷺ نے فرمایا تیری ماں۔ اس نے پوچھا پھر کون تو آپﷺ نے فرمایا تیرا باپ، ماں کے قدموں تلے جنت ہے تو باپ بھی جنت کا دروازہ ہے۔
حضرت موسی علیہ السلام نے ایک دفعہ اللہ تعالی سے پوچھا کہ جنت میں میرے ساتھ کون ہوگا؟ ارشاد ہوا فلاں قصاب ہوگا۔ آپ کچھ حیران ہوئے اور اس قصاب کی تلاش میں چل پڑے۔ وہاں دیکھا توایک قصاب اپنی دکان میں گوشت بیچنے میں مصروف تھا۔ اپنا کاروبار ختم کرکے اس نے گوشت کا ایک ٹکڑا کپڑے میں لپیٹا اور گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس قصائی کے گھر کے بارے میں مزید جاننے کیلئے بطور مہمان گھر چلنے کی اجازت چاہی۔ گھر پہنچ کر قصائی نے گوشت کو پکایا پھر روٹی پکا کر اس کے ٹکڑے شوربے میں نرم کئے اور دوسرے کمرے میں چلا گیا جہاں ایک نہایت کمزور بڑھیا پلنگ پر لیٹی ہوئی تھی۔
قصاب نے بمشکل اسے سہارا دے کر اٹھایا اور ایک لقمہ اس کے منہ میں دیتا رہا۔ جب اس نے کھانا تمام کیا تو بڑھیا کا منہ صاف کیا۔ بڑھیا نے قصاب کے کان میں کچھ کہا جسے سن کر قصاب مسکرایا اور بڑھیا کو واپس لٹا کر باہر آگیا۔ حضرت موسی علیہ السلام جو یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ آپ نے قصاب سے پوچھا یہ عورت کون ہے اور اس نے تیرے کان میں کیا کہا جس پر تو مسکرادیا؟ قصاب بولا ارے اجنبی! یہ عورت میری ماں ہے۔ گھر پر آنے کے بعد میں سب سے پہلے اس کے کام کرتا ہوں، یہ روز خوش ہوکر مجھے دعا دیتی ہے کہ اللہ تجھے جنت میں حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھ رکھے گا جس پر میں مسکرا دیتا ہوں کہ بھلا میں کہاں اور موسی کلیم اللہ کہاں، تو یہ ماں کی خدمت کا ہی صلہ تھا جو نبی کا ساتھ ملتا ہے۔
ایک بار کسی شخص نے پوچھا کہ کیا ہم اپنی ماں کا بدلہ اتار سکتے ہیں کہ تو اللہ والے نے فرمایا کہ سرد رات میں جب تم رات بستر پر پیشاب کر دیتے تھے ماں کو پتا چلتا تھا وہ اٹھتی تھی تمہیں صاف کرتی تھی پھر تمہیں خشک اور صاف جگہ پر سلاتی اور خود گیلی جگہ پر لیٹ جاتی تھی تم تو اپنی پوری زندگی میں صرف ایک اس رات کا بدلہ نہیں اتار سکتے ماں خود بے سکون رہتی ہے صرف اولاد کے سکون کے لیے ماں ساری ساری رات جاگتی ہے اولاد کے لیے، بقول شاعر
ایک مدت سے میری ماں نہیں سوئی تابش
میں نے ایک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
مولانا محمد علی جوہر کے بقول "میری ماں دنیا کی حسین ترین عورت ہے" واقعی ہر ماں ہی حسین ہوتی ہے اور اس کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا اور وہی ہے جو اولاد کا واحد سہارا ہوتی ہے اور اس کے بغیر دنیا واقعی ادھوری سی لگتی ہے۔ ماں کے بغیر زندگی بے معنی سی لگتی ہے ایسا لگتا ہے جسم میں روح نہیں ماں کی محبت ہی انسان کی سب بڑی کامیابی ہے جو شخص ماں کی خدمت کرتا ہے وہ فلاح پا جاتا ہے اور جو ماں یا باپ کو تکلیف دیتا ہے وہ ہمیشہ خود تکلیف میں رہتا ہے، ڈاکٹر اے آر خالد صاحب کی ساری کتابیں ہی ایک سے بڑھ کر ایک ہیں کتاب پڑھنے کی بھی عادت ڈالنی پڑتی ہے کتابوں کے بغیر زندگی بے رونق سی ہوتی ہے اگر ساری کامیابیاں، اقتدار اور دولت سے بڑی نہ ہوتیں تو دنیا کے نامور جنگجو، فاتح، بادشاہ اور دولت مندکبھی کتابیں نہ لکھتے یا نہ لکھواتے۔ آپ سکندر اعظم سے لے کر بل گیٹس تک دنیا بھر کے کامیاب لوگوں کی پروفائل نکال کر دیکھ لیں، آپ کو ہر بڑا اور کامیاب شخص دنیا میں کتاب چھوڑ کر جاتا ہوا نظر آئے گا، یہ کتاب اس کی کامیابیوں کا گر بھی ہوتی ہے اور اس کی ناکامیوں کا تجزیہ بھی اور زندگی کی اصل حقیقت بھی اور ہم جب تک ان کتابوں کا مطالعہ نہیں کرتے، ہم اس وقت تک زندگی، کامیابی اور ناکامی کی اصل جہتوں تک نہیں پہنچ پاتے ہمیشہ تاریخ میں لوگ مر جاتے ہیں لیکن انکی تخلیق کردہ کتابیں ہمیشہ زندہ رہتی ہیں۔