Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aasim Irshad
  4. Jeet Ki Talash

Jeet Ki Talash

جیت کی تلاش

اس پانچ سال کے بچے کی زندگی کی سب سے دردناک رات تھی وہ زندگی بھر اس رات کو بھول نہیں سکتا وہ جب بھی اس رات کو سوچتا ہے تو رو پڑتا ہے رات کے وقت اس بچے نے پنڈی بھٹیاں سے اپنے گاؤں مچھو نکا کا سفر اپنی ماں کی میت کے ساتھ کیا بچہ کبھی کالی سیاہ رات کو دیکھتا اور کبھی ماں کے چہرے سے کپڑا ہٹا کر دیکھتا کہ شاید ماں کہے کہ بیٹا مت ڈرو میں تمہارے ساتھ ہوں، پانچ سال کے بچے کی زندگی کا پہلا دکھ تھا جسے وہ کبھی بھول نہیں پایا ماں کی وفات کے کچھ عرصہ بعد باپ نے دوسری شادی کر لی اور اس کی دوسری ماں عموماً سوتیلی ماں جیسی ہی بنی بچے کو سکول بھیجا گیا کبھی سکول کی فیس کے پیسے نہیں ہوتے تھے تو کبھی قاعدہ لینے کے پیسے نہیں ہوتے تھے بچے کے پاس ایک ہی یونیفارم تھا جو ایک بار گرمیوں کے موسم میں دو جگہ سے پھٹ گیا بچے نے گھر سے چادر اٹھا کر اپنے اردگرد لپیٹ لی اور سکول جانا شروع کر دیا بچوں نے پوچھا کہ اتنی گرمی میں تو نے یہ چادر کیوں لپیٹی ہوئی ہے تو بچے نے جھوٹ بولا کہ مجھے بخار ہے سردی لگتی ہے اس لیے لپیٹی ہوئی ہے۔

اس نے چار سال وہ ایک یونیفارم پہنا، میٹرک کے امتحان کی باری آئی تو اس گاؤں سے بیس بچوں نے امتحان دیا لیکن پاس صرف وہی بچہ ہوا اس کے بعد وہ لاہور آگیا اور آگے پڑھائی کے ساتھ کام بھی کرنے لگا اس بچے نے سبزیوں کی ریڑھی بھی لگائی وہ ریڑھی پر سبزی رکھتا اور گلی محلوں میں نکل جاتا اور سبزی بیچتا پھر کسی پارک میں سو جاتا اور ساتھ پڑھتا رہااسی طرح کرتے ہوئے اس نے ایف اے کا امتحان پاس کر لیا اس نے لاہور میں رہتے ہوئے مختلف جگہوں پر ملازمت کی لیکن حالات بہتر نہ ہوئے تو اسلام آباد جانے کا سوچ لیا اسلام آباد پہنچا تو اس کی جیب میں صرف 150 روپے تھے بچے نے 100 روپے کرایہ پر ایک ہوٹل میں رات گزاری اور صبح ناشتہ کیا اب باقی اتنے پیسے نہیں بچے تھے کہ کسی ہوٹل میں رات گزاری جاتی لہذا بچے نے اگلی رات سرائےمیں گزاری اور پھر نوکری کی تلاش میں نکل پڑا، بچے نے مختلف اخبارات کے دفتروں میں ملازمت کے لیے جانا شروع کر دیا لیکن ہر ایڈیٹر نے دھکے دے کر باہر نکال دیا۔

اسی طرح کرتے ہوئے ایک سکول میں لیبارٹری اسسٹنٹ کے طور پر ملازمت ہو گئی ایک جاننے والے دوست نے ایک جگہ پر رہنے کا بندوست کر دیا کہ اس بچے کے پاس کرایہ نہیں ہے اسے دو مہینے اپنے پاس رکھ لیں اور اس طرح بچے کی زندگی کی ایک نئی شروعات ہوئی سکول کی ملازمت سے فارغ ہو کر ایک اخبار میں پروف ریڈر کے طور پر بھی ملازمت شروع کر دی اور وہاں پھر اخبار کے سارے کام کرنے شروع کر دیئے اور چار سال کام کیا، آپ اس بچے کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں وہ سینئر صحافی جناب ارشاد بھٹی صاحب ہیں، ارشاد بھٹی صاحب اسی اخبار میں کام کرتے تھے کہ ان کی زندگی میں ایک نیا موڑ آیا ان کی ملاقات ایک خاتون سے ہوئی جو دبئی سے اسلام آباد رہائش پذیر تھیں کچھ ملاقاتیں ہوئیں گفتگو بڑھی تب ارشاد بھٹی صاحب کی ٹوٹل تنخواہ تقریباً 3500 تھی اور اس خاتون کا جیب خرچ دس ہزار تھا اپنا گھر گاڑی سب کچھ، تب اس خاتون نے سٹینڈ لیا کہ میں نے ارشاد بھٹی سے شادی کرنی ہے پورے خاندان نے مخالفت کی لیکن وہ اپنی ضد پر قائم رہی کہ میں نے اس غریب شخص سے شادی کرنی ہے یوں یہ پہلا موقع تھا جب ارشاد بھٹی صاحب کی زندگی نے نیا رخ لیا، شادی کے بعد دونوں نے ملازمت شروع کر دی اور گھر چلانے لگے بھٹی صاحب مختلف جگہوں سے ہوتے ہوئے آخر کار الیکٹرانک میڈیا میں آگئے اور آج جب پاکستان کے چند بڑے صحافیوں کا نام لیا جاتا ہے تو ان میں ایک نام ارشاد بھٹی صاحب کا ہے۔

میں نے ارشاد بھٹی صاحب کو پڑھا ان کو سنا آپ کوان سے کئی اور اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن میں ان کی محنت اور قسمت کا فین ہو گیا کہ ایک شخص زمین سے اٹھ کر آسمان کو چھو لیتا ہے ایک شخص پندی بھٹیاں کے چھوٹے سے گاؤں سے اٹھ کر اسلام آباد پہنچ کرارشاد بھٹی بن جاتا ہے، میں ارشاد بھٹی صاحب کی ایک بات کا ہمیشہ سے معترف ہوں کہ انہوں نے کبھی اپنا آپ چھپایا نہیں یہ جو ہیں وہی بتاتے ہیں یہ ٹاک شو میں بھی بیٹھ کر ایک مزدور کی بات کر رہے ہوتے ہیں یہ کالم لکھتے ہوئے بھی ہمارے سماجی مسائل کا ذکر ضرور کرتے ہیں۔

میں نے ان کی کامیابی کے پیچھے تین چیزیں دیکھی ہیں پہلی بات یہ کہ ارشاد بھٹی صاحب نے کبھی محنت سے منہ نہیں موڑا انہیں جو کام ملا انہوں نے بسم اللہ پڑھ کر شروع کر دیا انہوں نے کوئی کام کرتے ہوئے اپنی توہین نہیں سمجھی کہ میں یہ کام کیوں کروں ان کی کامیابی کی دوسری اور سب سے بڑی وجہ ان کی بیوی کا ساتھ دینا ہے وہ اگر ان کے ساتھ نہ کھڑی ہوتیں تو شاید آج بھی ارشاد بھٹی کسی اخبار میں رپورٹر ہوتا یا پروف ریڈنگ کر رہا ہوتا لیکن انکی بیوی نے اس وقت یہ فیصلہ کیا کہ جو مرضی ہو جائے میں نے اس آدمی سے شادی کرنی ہے اور پھر اپنے فیصلے کو بہترین بنا کر دیکھایا کہ کوئی سٹیٹس کوئی لیونگ اسٹینڈرڈ کوئی ذات پات کوئی چیز معنی نہیں رکھتی جب آپ کسی کو اپنانے کا سوچ لیتے ہیں، ارشاد بھٹی کی کامیابی کی تیسری وجہ ان کی فطرت ہے ان کی فطرت میں غرور نہیں ہے یہ انسانیت کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں اور بچپن سے ہی کر رہے ہیں ارشاد بھٹی کہتے ہیں کہ میں نے اپنی پوری زندگی میں کسی ایک انسان کے ساتھ بھی پلاننگ کے ساتھ غلط نہیں کیا ہاں انجانے میں غلطی ہو گئی ہو تو الگ بات ہے لیکن جان کر کبھی کسی انسان کے ساتھ برا نہیں کیا اور نہ ہی ظلم کیا۔

میں سمجھتا ہوں کہ واقعی اگر کوئی شخص سچا ہو محنتی ہو ایمان دار ہو اور پھر اسے بہترین ساتھ مل جائے تو وہ بھی کچھ کر سکتا ہے ہم بھی کرسکتے ہیں اگر اپنا راستہ خود بنا کر اس پر پیر جما کر چلنا شروع کر دیں تو ہمیں بھی منزل مل سکتی ہے لیکن ہر انسان کی کامیابی کا ایک وقت طے ہے کوئی سونے کس چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوا ہے تو کوئی سنگلاخ پہاڑوں میں پیدا ہوا ہے کسی کو بچپن میں ہی سب کچھ مل گیا اور کوئی رزق کی تلاش میں سڑک پر کسی انجان گولی سے مارا گیا کسی کو اپنی محنت سے سب کچھ ملا اور کسی کے نصیب میں صرف دھکے آئے غرض یہ کہ ہر انسان کی قسمت الگ ہے ہم کسی بھی انسان کے ساتھ رزق میں شریک نہیں بن سکتے ہر انسان کو اللہ اس کی استطاعت کے مطابق دیتا ہے کسی کو زیادہ دے کر آزماتا ہے تو کسی کو نہ دے کر آزماتا ہے یہ اللہ کی تقسیم ہے، لیکن ان سب میں ایک چیز ایسی ہے وہ جتنی ہم کر لیں اس کا صلہ ہمیں مل ہی جاتا ہے اور وہ ہے محنت ہم محنت کرتے رہیں اور اللہ سے خیر کی دعا مانگتے رہیں میرا ایمان ہے اللہ رب العزت ہمیں کبھی مایوس نہیں کریں گے۔

Check Also

Kahani Aik Deaf Larki Ki

By Khateeb Ahmad