Ishq Pakistan
عشق پاکستان
آج سے چند سال پہلے تک کتابیں پڑھنے کا رجحان بہت زیادہ تھا لوگ کتابیں خریدتے تھے پڑھتے تھے پھر اپنے دوستوں کو بھی پڑھنے کے لیے دیتے تھے ہر گھر میں کتابیں رکھنے کی جگہ ہوتی تھی بڑے سلیقے سے ان میں کتابیں رکھی ہوتی تھی پھر آہستہ آہستہ ہم ترقی کرتے گئے کتاب پڑھنے کی جگہ سمارٹ فون اور لیپ ٹاپ نے لے لی لوگ موبائل میں کتابیں پڑھنے لگے اب موبائل میں سیکنڑوں کتابیں رکھنے لگے موبائل سے دوستوں کے ساتھ کتابیں شئیر کرنے لگے یوں جو صدیوں سے ایک تسلسل چلا آرہا تھا جو کتاب پکڑ کر ایک پرسکون گوشے میں بیٹھ کر چائے پیتے ہوئے کتاب کی ایک مسحور کن مہک محسوس کرتے ہوئے کتاب پڑھنے کی جو لذت تھی جو کتاب اور انسان کا بندھن تھا وہ ٹوٹ گیا، اب ہم ویسے کتابیں نہیں پڑھتے ہم موبائل میں لے لیتے ہیں چند صفحات پڑھتے ہیں بیزار ہو جاتے ہیں پھر سوشل میڈیا کی وسیع دنیا میں آجاتے ہیں، لیکن آج بھی کچھ لوگ ہیں جو ہر مہینے اپنی ضرورت کی چیزوں کے ساتھ کتابیں خریدتے ہیں گھر لاتے ہیں مطالعہ کرتے ہیں وہ ڈیجیٹل سٹڈی پر نہیں آئے وہ ویسے ہی کتاب پڑھ کر سکون محسوس کرتے ہیں، کتاب خرید کر پڑھنا بھی ایک سلیقہ ہے جو ہر انسان میں نہیں ہوتا ہم لوگ اب کتاب خریدنے کی بجائے موبائل میں منگوانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔
چند روز قبل مجھے لاہور سے ایک کتاب موصول ہوئی کتاب کے مصنف مشہور صحافی ادیب و دانشور محترم اکبر جزیں کے صاحزادے اکمل شاہد کنگ صاحب تھے، جن کو پڑھنے اور لکھنے کی صلاحیت وراثت سے ملی ہے اور یہ مختلف موضوعات پر کالم لکھتے ہیں ان کا تعلق صادق آباد پنجاب اور سندھ کے سنگم پر ہے یہ دونوں صوبوں کے علمی و ادبی اور تحقیقی حلقوں میں اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں، ان کی کتاب "میرا عشق ہے پاکستان" ان کا تعارف اور وطن سے محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے، اکمل شاہد صاحب نے جس سادگی سے یہ کتاب لکھی ہے اور پاکستان کو درپیش مسائل پر قلم اٹھایا ہے اس کی مثال نہیں، ہمارے ہاں دستور یہ ہے کہ ہم وطن کے لیے کچھ خاص نہیں کرتے ہم سمجھتے ہیں کہ وطن ہمیں بزرگوں کی طرف سے ملا ہوا ایک زمین کا ٹکڑا ہے اس زمین کا ہم پر کوئی حق نہیں لیکن حقیقت یہ کہ جہاں انسان پیدا ہوتا ہے اس کا اس سرزمین سے محبت کرنا فطری عمل ہے اور اس مٹی کی عزت و حرمت پر اپنا سب کچھ قربان کرنا ہی سب کچھ ہے، اس زمین کی کہ شان و شوکت کے لیے ایسے اقدامات کیے جائیں گے وطن عزیز کی حرمت پر کوئی بات نہ آئے، ہم میں سے چند لوگ اس بات سے کتراتے ہیں وہ امریکہ، چین، روس کی شان میں زمین آسمان ایک کر دیتے ہیں ان کے نزدیک پاکستان کچھ بھی نہیں، لیکن وطن سے محبت کا درس ہمیں اسلام سے ملتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب مکہ سے مدینہ ہجرت فرمانے لگے تو مکہ کو مخاطب کر کے کہا کہ اے مکہ تو کتنا پاکیزہ اور میرا محبوب شہر ہے اگر میری قوم مجھے نہ نکالتی تو میں اور کہیں نہ رہتا، رسول اللہ ﷺ کی مکہ سے محبت کا یہ عالم تھا کہ جب پہلی وحی نازل ہوئی تو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی آپ ﷺ کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے جاتی ہیں اور وہ آپ ﷺ کو تین باتیں کہتے ہیں، پہلی یہ کہ آپ کی قوم آپ کی تکذیب کرے گی، آپ ﷺ خاموش رہتے ہیں۔ دوسری بات وہ کہتے ہیں کہ قوم آپ کو تکلیف و اذیت میں مبتلا کرے گی، آپ ﷺ خاموش رہتے ہیں جب تیسری بات کہتے ہیں کہ قوم آپ کو وطن سے نکال دے گی تو آپ ﷺ فوراً فرماتے ہیں:کیا وہ مجھے میرے وطن سے نکال دیں گے؟ اور اس سوال میں جو تڑپ ہے جو دکھ ہے وہ محسوس کیا جا سکتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کو اپنے وطن سے کتنی محبت تھی۔
اور ہم پاکستان سے محبت کیوں نہ کریں یہ مٹی ہی ایسی ہے جس سے بے ساختہ محبت کرنے کو دل کرتا ہے، وطن سے محبت کا پہلا پہلو ہمیں اسلام سے مل گیا جب کہ دوسرا پہلو فطری ہے کہ انسان جہاں پیدا ہوتا ہے اس سے محبت کرنا فطری عمل ہے اور یہ صرف انسان نہیں ہر ذی روح اس بات کی قائل ہے، تیسرا پہلو نظریاتی ہے اور ہمارے پاس تو اتنا مضبوط اور خوبصورت نظریہ ہے کہ ہمیں اور کسی دلیل کی ضرورت نہیں، اور وہ نظریہ پاکستان کی بنیاد ہے " لا الہ الااللہ" وطن عزیز پاکستان کلمہ طیبہ کی بنیاد پر بننے والا ایک نظریاتی ملک ہے، پاکستان کا سر فخر سے بلند کرنے والے اس مٹی نے بہت سے لوگ پیدا کیے ہیں جو کسی نا کسی شعبے میں وطن عزیز کا سر بلند کرتے ہیں ایسے ہی چند لوگوں میں ایک اکمل شاہد کنگ صاحب ہیں جنہوں نے بڑے عمدہ انداز سے وطن سے محبت کا ثبوت دیا ہے اس کتاب کا انتساب انہوں نے اپنے والد محترم اور بڑے بھائی کے نام کیا ہے، اس کتاب میں انہوں نے پاکستان کے مسائل کو اجاگر کیا ہے، ان کے کالموں میں آنے والے وقت کی نبض دھڑکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے ایک دردمند پاکستانی کا قلم حالات کی جو تصویر بناتا ہے وہ اپنے اصل رنگ کے ساتھ سب کو چونکا دیتی ہے، اس کتاب میں پاکستان کی مشہور شخصیات نے اپنی آراء دی ہے جن میں ڈاکٹر عبد القدیر خان صاحب بھی شامل ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس کتاب کا مطالعہ علم میں اضافہ کرتا ہے اکمل شاہد ایک سچے اور کھرے پاکستانی ہیں وہ باتیں تو نئے پرانے کی کرتے ہیں لیکن انہیں عشق صرف پاکستان سے ہے اور پاکستان میں بسنے والے ہر مکتبہ فکر، رنگ و نسل اور زبانوں سے ہے، اکمل شاہد صاحب بلدیاتی نظام سے کسانوں کے مسائل اور سرائیکی وسیب سے روہی کے صحراؤں تک لکھ رہے ہیں، ان کا قلم ایک سچے صحافی کا قلم ہے جو اپنے منصب کی حرمت و آبرو کا پاسدار ہے۔
اکمل شاہد صاحب کے لیے دلی دعائیں ہیں کہ اللہ ان کو اور زور قلم عطاء فرمائیں اور وہ لکھتے رہیں پاکستان کے مسائل، پاکستان کی محبت آزاد ملک کی ترقی، وطن عزیز کے مستقبل کے حالات اور پاکستان کے سیاسی و سماجی مسائل پر پاکستان کی شہ رگ کشمیر پر ظلم کی داستان پر، کہتے ہیں کہ اگر آپ ظلم کے خلاف لڑ نہیں سکتے تو ان کے ساتھ کھڑے ہو جائیں جو ظلم کے خلاف لڑتے ہیں اور جناب اکمل شاہد صاحب تو وطن سے محبت کا سفر طے کر رہے ہیں ہم اگر ان کا ساتھ بھی نہ دے سکے تو پھر وطن عزیز میں رہنے کا بھی کوئی حق نہیں ہم ہر وقت پاکستان کی عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے اپنی خدمات پیش کرتے رہیں گے پھر چاہے وہ 1965ء ہو یا بھارت کے ساتھ کسی بھی قسم کی جھڑپ ہم وطن عزیز کی سر بلندی کے لیے اپنا عملی کردار ادا کرتے رہیں گے، یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاء کردہ ایک تحفہ ہے جو ہمارے آباؤ اجداد کی قربانیوں سے ہمیں ملا ہے ہم پر لازم ہے کہ ہم پاکستان کے لیے سب کچھ کریں کیونکہ ہم سب کا عشق ہے پاکستان۔