Hamara Masla
ہمارا مسئلہ
وہ مجھے مارتا ہے اپنے ماں باپ کے سامنے میری تذلیل کرتا ہے میرے بچوں کا خرچہ نہیں اٹھاتا جب شادی ہوئی تو پانچویں روز پتہ چلا کہ میرا شوہر نشہ بھی کرتا ہے منع کرنے پر بہت مارتا ہے غلیظ گالیاں دیتا ہے، شادی کو سات سال ہو گئے ہیں ایک دن سکون سے نہیں رہی، میرا باپ اس دنیا میں نہیں ہے ماں کو کہتی ہوں تو جواب ملتا ہے صبر کرو بھائی بھی ساتھ نہیں دیتے، میرا شوہر ہر دوسرے دن تشدد کا نشانہ بناتا ہے اس کے ماں باپ بھی ساتھ مل جاتے ہیں میرے بچے نفسیاتی مریض بن رہے ہیں، میرا بڑا بیٹا چار سال کا ہے جب باپ مجھ سے لڑتا ہے تو وہ سہم جاتا ہے مجھ سے لپٹ جاتا ہے اس کا جسم کانپنے لگتا ہے کبھی کبھار تو بے ہوش بھی ہو جاتا ہے، جناب میرے جسم کا کوئی حصہ تشدد سے محفوظ نہیں ہے میں اپنی بازو آپ کو دیکھاتی ہوں جس پر کوئلہ رکھا گیا تھا، جناب میں نہیں جانتی کہ جہنم کیا ہے نہ میں نے اس کے بارے میں سنا ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ میری زندگی جہنم سے بدتر ہے، میرا شوہر مجھ سمیت میرے گھر والوں کو بھی گالیاں دیتا ہے میں خود پر لفظوں کے وار برداشت کر لیتی ہوں لیکن جب وہ میری ماں کو گالیاں دیتا ہے تو مجھ سے برداشت نہیں ہوتا میں اٹھ کر اسے چپ کروانے کی کوشش کرتی ہوں تو اس کے ہاتھ میں جو چیز ہوتی ہے وہ مار دیتا ہے ایک بار تو سر میں ڈنڈا مار دیا تھا سر سے خون بہنے لگا تھا پھر میں نے خود ہی دوپٹہ پھاڑ کر سر پر باندھ لیا تھا۔
جناب وہ اور عورتوں کے پاس بھی جاتا ہے اور کئی کئی دن گھر نہیں آتا گھر میں پیسے نہیں دیتا مجھے کپڑے بھی سلائی کرنے پڑتے ہیں میں اپنے بچوں کو بھوکا تو نہیں سلا سکتی نا، وہ جب گھر آتا ہے بچے کمرے سے باہر نہیں نکلتے اس سے بہت ڈرتے ہیں وہ ہر وقت غصے میں ہوتا ہے چھوٹی سی بات پر مارنے لگتا ہے، اس نے پہلی بار شادی کے انیسویں دن نشے میں مجھے مارا تھا بس پھر اس کے بعد اب تک یہ سلسلہ جاری ہے، میں نہیں جانتی میرا قصور کیا ہے یا میں نے ایسی کون سی غلطی کی ہے جس کی اتنی بڑی سزا مل رہی ہے، میں اس سے علیحدہ ہوکر بھی نہیں رہ سکتی جو بھی ہے جناب وہ میرے سر کا سائیں ہے مجھے بڑا عزیز ہے میرے بچوں کا باپ ہے میں اس کے ساتھ بہت خوش ہوں، یہ تو بس جذبات میں چند باتیں بتا دی وہ بہت اچھا ہے اچھا جناب میں جاتی ہوں، اس کی آنکھوں میں کرب تھا وہ نا چاہتے ہوئے بھی بہت کچھ کہ گئی اور تب میں نے زندگی میں خود کو بہت بے بس اور مجرم پایا میں بھی مرد ہوں میں بھی عورت کو پاؤں کی جوتی سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں میں بھی عورت پر بند کمرے میں مردانگی دیکھانا چاہتا ہوں میں بھی عورت کو کمزور اور لاچار دیکھنا چاہتا ہوں میری آنکھوں میں بھی خوشی کی چمک آتی ہے جب عورت ایک مرد کا ظلم برداشت کرتی ہے میں اورآپ سب مرد خود کو دنیا کا سب سے طاقتور مرد سمجھتے ہیں ہم خود کو فرعون کی نسل سے سمجھنا شروع کر دیتے ہیں ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم مرد سے پہلے انسان ہیں اور انسان کسی پر ظلم نہیں کرتا یہ اس کی فطرت میں ہی نہیں ہے کہ وہ کسی پر ظلم کرے یا اپنی مردانگی دیکھائے۔
لیکن کیا کریں ہم انسان سے پہلے خود کو مرد سمجھتے ہیں ہم عادت سے مجبور ہیں ہمارے دماغوں میں ایک بات بھری ہوئی ہے کہ عورت ایک جسم ہے اس کے ساتھ جو مرضی کر لو اسے کون سا فرق پڑنا ہے اس کا کون سا دل ہے اس میں روح تو ہے ہی نہیں وہ صرف ایک جسم ہے اور جسم کو نوچنا ہمارا کام ہے ہم چھوٹی بچیوں سے لے کر بڑی عمر کی عورت تک کو نہیں چھوڑتے ہم اپنے دفتروں میں کام کرنے والی خواتین کو بھی ہراساں کرتے ہیں، ایک محتاط اندازے میں مطابق پاکستان میں اس وقت یومیہ 11 خواتین جنسی زیادتی کا شکار ہو رہی ہیں اور یہ وہ ہیں جو پولیس تک پہنچتی ہیں جن کا ریکارڈ ہے اور جو عزت کے ڈر سے چپ کر جاتی ہیں وہ الگ ہیں، ہم اپنی بیوی جو سب سے بڑی نعمت ہے اس کو نہیں بخشتے اس پر تشدد کرتے ہیں یہ ہمارے دماغ کی بیماری ہے کہ عورت کے ساتھ ظلم کرو جیسے کر سکتے ہو پتہ نہیں ہم یہ کیوں کرتے ہیں۔ اس کا جواب مجھے نہیں ملا ہم بازار میں گئی عورتوں کو اس طرح گھورتے ہیں جیسے جانور اپنے شکار کو دیکھتا ہے ہم مدرسے جاتی بچیوں کو اغوا کر لیتے ہیں ہم عورتوں کو چھوڑ کر چھوٹے بچوں کو نہیں بخشتے کیا ہم انسان بھی ہیں۔
بچوں کے ساتھ بد فعلی میں 55 فیصد چھوٹی بچیاں اور 45 فیصد بچے شامل ہیں، ہر سال جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے، ہماری یونیورسٹیوں میں پڑھنے والی لڑکیاں اپنے ساتھ پڑھنے والے لڑکوں اور پروفیسرز سے محفوظ نہیں ہیں نمبرز کے چکر میں پروفیسرز لڑکیوں کے ساتھ غلط سلوک کرتے ہیں اور گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان کا تو آپ سب جانتے ہیں کہ کیسے طالبات کو ہراساں کیا جاتا رہا، ایسے ہی پشاور یونیورسٹی کی ایک طالبہ کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے اس کو گولڈ میڈل دینے کے لیے ایک لاکھ روپے اور ڈنر کرنے کا مطالبہ کیا۔ حالانکہ مجموعی کارکردگی کے لحاظ سے وہی گولڈ میڈل کی حقدار تھی۔ اب جب معاملہ رپورٹ کر دیا گیا ہے تو بجائے انصاف کے اس کی کردار کشی کی جا رہی ہے، مجھے سمجھ نہیں آتی ہم کیوں خود کو شیطان بنا رہے ہیں ہم تو مسلمان بھی ہیں انسان بھی ہیں پھر کیوں صرف مرد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور مردانگی صرف عورتوں پر دیکھاتے ہیں پھر چاہے وہ ہماری بیوی ہو ہماری طالب علم ہو ہمارے ساتھ کام کرنے والی ساتھی ہو یا راہ میں جاتی ایک معصوم بچی ہو ہم جنسی زیادتی کے ساتھ ان پر تشدد بھی کرتے ہیں ہم سگریٹ سے ان کا جسم بھی داغ دار کرتے ہیں ہم ان کی ویڈیوز بھی بناتے ہیں پھر ان کو بلیک میل بھی کرتے ہیں ان سے پیسہ بھی کھاتے ہیں، کچھ بیچاری تو ذلت کی زندگی سے موت کو ترجیح دیتی ہیں اور کچھ یہ سہتی رہتی ہیں، میں یہاں پر تمام مردوں کو مورد الزام نہیں ٹھہراؤں گا یہ وہ مرد ہیں جنہیں نفسیاتی مرض ہے یا وہ خود پر جان بوجھ کر شیطان حاوی کر لیتے ہیں۔
لیکن یہاں پر میں عورت ذات کو مکمل مظلوم نہیں کہوں گا یہ بھی کچھ حد تک قصوروار ہے جس میں سب سے پہلی بات بے پردگی ہے آپ کالج یونیورسٹیوں میں چلے جائیں یہ ایسا لباس پہن کر جاتی ہیں یوں لگتا ہے فیشن شو میں آئی ہیں، پردے کے موضوع پر جب وزیراعظم عمران خان نے بات کی تو تمام لبرلز اکھٹے ہو کر احتجاج کرنے لگ گئے تو اس طرح احتجاج کرنا بالکل غلط ہے جو آپ میں کمی ہے آپ اس کو سمجھیں اور پردہ کو لازمی اپنی زندگی کا اہم جزو سمجھیں، اگر آپ کو کسی جگہ ہراساں کیا جاتا ہے تو بنا کسی دباؤ یا ڈر سے اس کی شکایت کریں، اور کہا جاتا ہے کہ جب تک عورت خود نہ چاہے مرد اس پر اختیار حاصل نہیں کر سکتا، آپ سوشل میڈیا کے استعمال کو دیکھ لیں جہاں ہمارے لیے بہت محترم و معزز خواتین موجود ہوتی ہیں اور اکثر اپنی وال پر مردوں کے خلاف شکایات کر رہی ہوتی ہیں لیکن ان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ان کی شکایت سائبر کرائم برانچ کو کریں، اور اس پر ڈٹ جائیں تا کہ کچھ کو سزا ملے اور سکون ہو، لیکن بد قسمتی سے خواتین بھی خود مردوں کو اپنے انباکس آنے کا راستہ دیتی ہیں، جب آپ کسی کو جانتی نہیں ہیں تو بہتر یہی ہے جواب ہی نہ دیا جائے لیکن یہ خود بھی بہت حد تک خود قصوروار ہیں۔
یہاں پر یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ ہمارا ملک اسلامی ہے اور ہم نے اسلام کو فالو کرتے ہوئے اس معاشرے کو بہتر خود بنانا ہے ہم مرد ہیں یا عورت ہمیں خود کچھ کرنا ہے بہتری لانی ہے مرد ہے تو وہ اس ذہنی بیماری سے باہر آئے کہ وہ مرد ہے وہ خود کو سمجھے اپنا مقصد حیات دیکھے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرے، اور اگر عورت ہے تو وہ اپنا مقام سمجھے جو اسے اسلام نے عطاء کیا ہے پردہ کرے نا محرم سے بچنے کی کوشش کرے اور جہاں لگے کہ میرے ساتھ غلط ہونے لگا ہے فوراً شکایت کرے، ڈر یا دباؤ سے چپ نہ رہے، اور والدین سے عرض کرنا چاہوں گا کہ خدارا اپنے بچوں کی تربیت پر زور دیں ان کو انسانیت کا درس دیں ان کو بری صحبت سے بچائیں اور جو ضابطہ حیات اسلام نے دیا ہے وہ اپنے بچوں کو سکھائیں، مخلوط تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہ دیں اور اگر لازم ہے تو آنکھوں میں حیا کا مادہ ضرور پیدا کریں، اپنی بچیوں کو مرد استاد کے پاس نہ بھیجیں، اور سب سے اہم بات کہ اپنے بچوں کے نکاح جلدی کریں وہ جیسے ہی بالغ ہوں اور برسرِ روزگار ہو جائیں تو پھر نکاح میں دیر نہ کریں، نکاح میں دیر بہت بڑے گناہ اور جرائم کا باعث کا بنتی ہے نکاح میں تاخیر نہ کریں، اپنی بیٹی کی شادی کریں تو اسے یہ ضرور کہیں کہ بیٹی اگر وہاں شوہر جلاد بن جائے تو واپس لوٹ آنا ہم تمہارے ساتھ ہیں ظلم برداشت نہ کرتی رہنا، بیٹے کو بھی سمجھائیں کہ بیوی کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے تمہاری بیوی بھی کسی کی بیٹی اور بہن ہے، یہ چھوٹے چھوٹے کام اگر ہم کر لیں تو ہم اپنے اس مسلئے کو بہت آسانی سے حل کر لیں گے، اگر ہم یہ نہ کر پائے تو ہر سال یہ اعداد وشمار بڑھتے جائیں گے ہمارے مسائل بڑھتے جائیں گے، ہماری نسلیں تباہی کا شکار ہوتی رہیں گی ہم اپنے ہاتھوں سے اپنی بچیوں کی جلی ہوئی لاشیں اٹھاتے رہیں گے ہم بے بسی کے آنسو بھی بہاتے رہیں گے لیکن ابھی وقت ہے خدارا خود کو بدل لیں اپنے بچوں کو بہتری کی طرف لے آئیں۔