Dastaan e Azm
داستان عزم
محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خود نوشت داستان عزم ان کی وفات کے بعد شائع ہوئی کتاب قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل نے شائع کی میں اس بات کو بھی اعزازسمجھتا ہوں کہ قلم فاؤنڈیشن کے چیئرمین علامہ عبد الستار عاصم صاحب کے لیے یہ بہت بڑا اعزاز ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی سوانح حیات علامہ صاحب نے شائع کی اور یہ ایسی کتاب ہے کہ ہر پاکستانی کو پڑھنی چاہیے اور خاص طور پر نوجوان نسل کو تو لازماً پڑھنی چاہیے تا کہ انہیں علم ہو کہ ڈاکٹر صاحب نے کن مشکل حالات کا سامنا کرتے ہوئے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا۔
ڈاکٹر صاحب کی کتاب 1975ء سے شروع ہوتی ہے جب ڈاکٹر صاحب پاکستان آئے ہوئے تھے اور ذوالفقار علی بھٹو نے ملاقات کی اور کہا کہ ڈاکٹر صاحب آپ دیکھیں کہ منیر احمد خان اور ان نے ساتھیوں نے ایٹمی پروگرام پر ایک سال میں کتنی پیش رفت کی ہے ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ میں نے جب دیکھا تو سخت دھچکا لگا کہ ایک ناسمجھ انجینئر کی سربراہی میں آٹھ دس جونیئر لوگ ایک کھنڈر میں ایٹم بم بنانے کی کوشش کر رہے تھے میں نے سب کچھ دیکھا اور جا کر بھٹو صاحب کو حقیقت بتا دی وہ بہت فکر مند ہوئے اور مجھ سے پوچھا کہ آپ کا کیا پروگرام کے میں نے جواب دیا کہ میں کچھ ہفتوں تک واپس ہالینڈ جا رہا ہوں بھٹو صاحب نے فوراً ڈاکٹر صاحب کو کہا کہ آپ نہ جائیں یہ کام آپ کے بغیر نہ ہو گا ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ میں نے بھٹو صاحب کو کہا کہ میری ہالینڈ میں اعلیٰ نوکری ہے بچیاں وہاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔
بھٹو صاحب کو پاکستان کی فکر تھی وہ ضد کرتے رہے میں نے انہیں کہا کہ میں بیگم سے مشورہ کر کے بتاؤں گا، یہاں سے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کا سفر شروع ہوا درمیان میں بہت مسائل آئے پھر غیر ملکی دباؤ لیکن ڈاکٹر صاحب لگے رہے اور اس وقت کی حکومت اور فوج نے ڈاکٹر صاحب کو مکمل اختیارات دہے اور یہ کام چلتا رہا اس میں بہت سے دلچسپ اور حیرت انگیز واقعات بھی پیش آئے جیسے کہ مارشل لاء لگنے کے بعد ایک دن اچانک جنرل ضیاء الحق نے کہوٹہ جانے کا فیصلہ کیا ہم جیپ میں بیٹھے اور کہوٹہ کی طرف جانے لگے صدر صاحب نے کسی کو نہیں بتایا تھا اس لیے ساتھ کوئی حفاظتی جیپ نہ تھی سہالہ سے سڑک بہت خراب تھی اس میں کئی گڑھے اور دشوار موڑ تھے میں نے جنرل صاحب سے کہا کہ اس سڑک سے ہمارے سائنسدانوں اور انجینئروں کی جانوں کو خطرہ ہے یہ سن کر ضیا الحق صاحب نے فوراً جنرل ضامن نقوی سے کہا کہ یہ سڑک فوراً بہترین حالت میں بنا دیں اور چوڑا کر دیں، جنرل ضیاء الحق نے پلانٹ دیکھا تو بے حد خوش ہوئے اور کہا کہ یہ تو امریکی پلانٹ لگتا ہے وہاں سب چیزیں غور سے دیکھتے رہے اسی اثناء میں عصر کی نماز کا وقت ہو گیا تو جنرل ضیاء الحق نے ایک داڑھی والے ڈاکٹر عاصم فصیح کا ہاتھ پکڑا اور کہا کہ امامت کروائیں اور اسی طرح ہم سب نے وہاں نماز ادا کی اس کے بعد ہم وہاں سے آرمی ہاؤس پہنچ گئے، سڑک کا کام فوراً شروع ہو گیا اور بہت اعلیٰ سڑک تیار ہو گئی اور ہمارے سفر کا وقت کافی حد تک کم ہو گیا۔
ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ ضیاء الحق نے ایٹمی پروگرام کو مکمل کروانے کے لیے امریکہ سے ٹکر لے لی امریکہ کے مخبر چند سائنسدان بھی اسی پروگرام کا حصہ تھا جنہیں بعد میں وہاں سے ہٹا دیا تھا وہ یہاں کی خبریں امریک کو دیتے تھے کہوٹہ میں کرنل عبدالرحمن نے بہت سے مخبر چھوڑ دیے کہ کوئی یہاں کی خبر باہر نہ پہنچا سکے ایک دن ایک سپاہی ایک پتھر نما چیز لے کر آیا اسے کھول کر دیکھا گیا تھا اس میں پیچیدہ آلات تھے ایک خشک بیٹری اور ٹرانسمیٹر لگا ہوا تھا جو یہاں کی خبریں باہر منتقل کرتا تھا ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں ہم نے وہ ناکارہ بنا دیا اور جنرل ضیاء الحق کو خبر دے دی، اس واقعہ کے کچھ دن بعد امریکی سفیر جنرل ضیاء الحق سے ملنے آیا تو ایٹمی معاملہ پر بات کی جنرل ضیاء الحق نے حسب عادت نرم گوئی اور انکساری سے جواب دیا کہ ہم کوئی ایٹم بم نہیں بنا رہے اس پر امریکی سفیر نے کہا کہ ہماری انٹیلیجنس بہت اچھی ہے آپ ناشتہ کیا کرتے ہیں ہمیں وہ بھی علم ہو جاتا ہے ہمیں ہر چیز کی اطلاع ملتی رہتی ہے، اس پر جنرل ضیاء الحق نے کرسی سے ٹیک لگاتے ہوئے کہا اییکسیلینسی اگر آپ پتھر کی مدد سے معلومات حاصل کرتے ہیں تو وہ میرے جوانوں نے اٹھا لیا ہے اور کھول کر ساری معلومات حاصل کر کے ناکارہ بنا دیا ہے اب آپ کو کچھ نہیں ملے گا، یہ سن کر سفیر کا رنگ فق ہو گیا اور اٹھ کر چلا گیا۔
اسی طرح بی بی سی نے ایک صحافی مارک ٹلی کو پاکستان اس کام کے لیے بھیجا کہ وہ معلومات اکھٹی کر سکے مارک ٹلی روز موٹرسائیکل پر میرے گھر کے چکر لگاتا تھا میں نے ایک دن کرنل عبدالرحمن کو بتایا انہوں نے اپنے آدمیوں سے کہا اور اسے میرے گھر کے باہر دبوچ لیا اور ایسی پٹائی کی کہ ساری زندگی یاد رکھے گا اسے پولیس کے حوالے کر دیا اور پھر ملک بدر کر دیا، ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ پاکستان آنے سے پہلے مجھے نائجیریا کی ایک ریاست میں سائنس لیکچرار کی آفر ہوئی تنخواہ اچھی تھی گھر مفت اور ہر سال گھر جانے کی چھٹی فوراً کار خریدنے کا ایڈوانس ہر طرح کی سہولیات تھیں انہوں نے مجھے ٹکٹ بھی بھیج دیا میں نے جانے کا فیصلہ بھی کر لیا لیکن اپنے ایک غیر ملکی طلباء کے محکمہ کے انچارج پروفیسر ایچ اشٹارک سے ملنے اور مشورہ کرنے کا سوچا میں ان سے ملا انہوں نے میری پوری روداد سنی اور مجھے کہا کہ خان تم ایک ٹیچر بننے جا رہے ہو پوری زندگی ٹیچر رہ کر مر جاؤ گے اور اپنی زندگی کا مقصد حاصل نہ کر سکو گے اور زندگی بھر خود کو معاف نہیں کرو گے، ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ وہ الفاظ میرے دل میں تیر کی طرح لگے میں نے نائجیریا جانے کا فیصلہ بدل دیا اور برلن یونیورسٹی چلا گیا اور پھر پاکستان آگیا اور پاکستان کو ایٹمی طاقت بنا دیا۔
بے شک یہ ڈاکٹر صاحب کا ہم پر احسان ہے کہ ہم ایک ایٹمی طاقت ہیں دنیا کی پہلی اسلامی اور ساتویں ایٹمی طاقت یہ صرف اور صرف ڈاکٹر صاحب کی محنت اور پاکستان سے لازوال عشق کی داستان ہے آج ڈاکٹر صاحب ہم میں موجود نہیں ہیں لیکن ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گے ڈاکٹر صاحب کا پوری قوم پر احسان ہے اور ہم ان کے اس احسان کا بدلہ تا قیامت نہیں اتار سکتے شکریہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب شکریہ۔