Bhutto Aik Adalti Daastan
بھٹو ایک عدالتی داستان
یہ 13 ستمبر 1977ء کا دن تھا پورے ملک میں مارشل لاء نافذ تھا، ضیاء الحق کی صدارت میں اسلام آباد میں ایک اہم میٹنگ جاری تھی کہ ان کے سیکرٹری اطلاعات تقریباً بھاگتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے ان کے ہاتھ میں ایک فائل تھی جو انہوں نے ضیاء الحق کے سامنے رکھ دی۔ میٹنگ کے تمام شرکاء کی نظریں اس فائل پر تھیں ضیاء الحق نے فائل دیکھی ان کے چہرے پر فکرکے آثار نمودار ہوئے انہوں نے بات کرنا چاہی لیکن زبان نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا۔
یہ فائل ذوالفقار علی بھٹو کی ضمانت کی فائل تھی جسے لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس خواجہ محمد احمد صمدانی نے منظور کر لیا تھا، اب ضیاء الحق کے دماغ میں خان عبدالولی خان کا وہ جملہ ضرور آیا ہوگا کہ قبر ایک ہے اور بندے دو فیصلہ آپ کو کرنا ہے اور پھر ضیاء الحق نے فیصلہ کر لیا تھا۔
ذوالفقار علی بھٹو کی ضمانت کے تین دن بعد ہی مارشل لاء ریگولیشن 12 کے تحت بھٹو کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ جسٹس خواجہ محمد احمد صمدانی کا تبادلہ بطور سیکریٹری قانون اسلام آباد کر دیا گیا اور یوں بھٹو کا کیس جسٹس مولوی مشتاق حسین کے پاس بھیج دیا گیا، ان کا بھٹو کے ساتھ پرانا عناد تھا اور بھٹو نے بار بار درخواست کی کہ میرا کیس مولوی مشتاق حسین نہ سنیں لیکن ان کے پاس کیس لایا ہی اس لیے گیا تھا کہ بھٹو کی موت کا فیصلہ ہو چکا تھا۔ بھٹو اور مولوی مشتاق میں کئی بار تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا اس کی کئی مثالیں موجود ہیں مولوی مشتاق بھٹو پر برس پڑتے اور انہیں عدالت سے باہر نکال دیتے اور ان کی غیر موجودگی میں کارروائی آگے بڑھاتے رہے اور بھٹو کو پھانسی کی سزا سنا دی۔
یہ تب بھی واضح تھا کہ بھٹو کا عدالتی قتل غلط تھا اور آج بھی واضح ہے بھٹو چیختا چلاتا رہا کہ بیرونی سازش ہے وہ ایٹمی پروگرام کو بند کروانا چاہتے ہیں۔ ہنری کسنجر کی دھمکی پوری دنیا نے سنی اور اس کے بعد الیکشن دھاندلی کا الزام لگا کر نظام مصطفی کی تحریک کیسے چلی کس کے کہنے پر چلی بھٹو کو فیئر ٹرائل کا حق کیوں نہیں دیا گیا اور ایک بے بنیاد کیس میں پھانسی کی سزا سنا دی گئی جس پر آج تک دنیا حیران ہے۔
بیگم نصرت بھٹو اپنے ایک انٹرویو میں انکشاف کرتی ہیں کہ جن لوگوں نے بھٹو کا جنازہ پڑھا اور آخری بار دیکھا ان کے مطابق بھٹو کی گردن پر رسے کا کوئی نشان نہیں تھا ان کی گردن ٹھیک تھی، ایسے تھا جیسے انہیں پھانسی سے پہلے قتل کر دیا گیا تھا اس کے علاوہ بھی کئی لوگ اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ بھٹو کو پھانسی دی گئی تھی ان لوگوں کا ماننا ہے کہ بھٹو کو پھانسی سے قبل ہی مار دیا گیا تھا لیکن بہرحال حقیقت آج تک سامنے نہ آسکی، لیکن جو سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے وہ یہ ہے کہ کرنل رفیع الدین کہتے ہیں کہ بھٹو کی میت کو غسل دیا گیا تو ایک فوٹوگرافر نے جسے ایک انٹیلیجنس ایجنسی نے بھیجا تھا چند فوٹو اتارے ان تصویروں سے حکام کا یہ شک دور ہوگیا کہ ان کے ختنے نہیں ہوئے، آپ اندازہ کریں کہ اس وقت ایک میت کے فوٹو محض اس لیے اتارے گئے کہ دیکھا جائے کہ وہ مسلمان بھی تھا یا نہیں اور وہ شخص جس نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا جس نے اسلامی ممالک کو ایک کرنے کی بات کی جس نے اسلامی ممالک میں پہلا ایٹمی پروگرام شروع کیا جس نے آزاد خارجہ پالیسی کی بات کی۔
میں تفصیل میں نہیں جانا چاہتا لیکن اب چونکہ صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا ہے کہ بھٹو کا ٹرائل آئین اور قانون کے مطابق نہیں تھا تو سوال یہ ہے کہ کیا اس فیصلے سے ایک ذہین فطین دماغ دوبارہ زندہ ہو جائے گا یا تب جو لوگ بھٹو کے عدالتی قتل میں شامل تھے ان کو سزا ملے گی۔ اب اس وقت معزز چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب کے اوپر یہ ذمہ داری ہے کہ تاریخ ایک بار پھر 45 سال پیچھے جا کھڑی ہوئی ہے تب بھٹو نے کہا تھا بیرونی سازش ہے آج عمران خان کہہ رہا ہے کہ بیرونی سازش ہے تب بھٹو کی حکومت گرائی گئی تھی، آج عمران خان کا مینڈیٹ چھینا گیا ہے۔
تب بھٹو کو ایک بے بنیاد کیس میں جیل میں ڈالا گیا آج عمران خان پر درجنوں کیسز ہیں، تب بھٹو کو فیئر ٹرائل کا موقع نہیں دیا گیا آج عمران خان کو یہ حق نہیں دیا جارہا، تب بھٹو نے مولوی مشتاق حسین پر عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا آج عمران خان جسٹس عامر فاروق پر عدم اعتماد کا اظہار کر رہا ہے، تب بھٹو سے بیرونی قوتیں خفا تھیں آج عمران خان سے خفا ہیں، تب بھی عدالتوں پر تمام نگاہیں تھیں آج بھی عدالتوں سے انصاف کی امید ہے۔
آپ کی میز پر سائفر کی کاپی پڑی ہوگی عمران خان نے بھیجی تھی اسے کھولیں اس پر فیصلہ کریں آپ کو ارشد شریف شہید نے خود کو ملنے والی دھمکیوں کے متعلق خط لکھا تھا کہیں فائلوں میں دب نہ گیا ہو تو اسے اٹھا کر دیکھیں اور ان تمام لوگوں کو کٹہرے میں لائیں جن کی وجہ سے ارشد شریف کو ملک چھوڑ کر جانا پڑا۔ الیکشن کو دھاندلی زدہ قرار دیا جارہا ہے اس پر تحقیقات کروائیں یہ موقع ہے کہ آج سب کچھ آپ کے ہاتھ میں ہے آپ انصاف کرتے جائیں یہ نہ ہو کہ 45 سال بعد پھر عدالت لگے اور آج کے کیسز کا تب انصاف کے مطابق فیصلہ ہو خدارا یہ نہ کیجئے گا۔
اس ملک کے پچیس کروڑ عوام کو آپ سے ڈھیروں امیدیں ہیں ان کی امیدوں کو ٹوٹنے نہ دیجئے گا ورنہ تاریخ یاد تو سب کو رکھتی ہے آج بھٹو کا نام چمک رہا ہے جبکہ مولوی مشتاق حسین کا نام تک کوئی نہیں جانتا اور اداکار شاہد کے مطابق جب مولوی مشتاق حسین کا جنازہ جارہا تھا تو اس پر شہد کی مکھیوں نے حملہ کر دیا تھا سب لوگ جنازہ چھوڑ کر بھاگ گئے تھے یہ اتفاق تھا یا خدا کی طرف سے عبرت اس کا فیصلہ اللہ پر چھوڑتے ہیں لیکن آخر مرنا تو سب نے ہی ہے۔