1.  Home
  2. Blog
  3. Aasim Irshad
  4. Aqeeda Khatm e Nabuwat

Aqeeda Khatm e Nabuwat

عقیدہ ختم نبوت

گوگل کا مرکزی دفتر ماؤنٹین ویو کیلیفورنیا میں واقع ہے، یہ دنیا کا سب سے بڑا سرچ انجن ہے اس پر دنیا جہاں کا ہر قسم کا مواد مل جاتا ہے یہ آج کے دور میں ہر انسان کی ضرورت ہے۔ جہاں ہم گوگل سے صحیح معلومات حاصل کرتے ہیں وہاں گوگل ہمیں غلط معلومات بھی دیتا ہے، لیکن مقصد یہ ہے کہ اسکو آپریٹ غیر مسلم کر رہے ہیں اور اس وقت گوگل کا موجودہ چیئرمین سندر پچائی ہے۔ گزشتہ روز سے گوگل پر غلط معلومات کو لے کر مسلمانوں میں غم وغصہ پایا گیا ہے بات کچھ اس طرح ہے کہ گوگل پر جب سرچ کیا جاتا ہے کہ اسلام کا موجودہ خلیفہ کون ہے تو گوگل ویکیپیڈیا پر مرزا مسرور احمد قادیانی کا نام دیتا ہے جو کہ قابلِ تشویشناک بات ہے۔

مرزا غلام احمد قادیانی نے 23 مارچ 1889 کو احمدیہ جماعت کی بنیاد رکھی جو قادیانی اور مرزائی بھی کہلاتے ہیں یہ جماعت اب تک 200 ممالک تک پھیل چکی ہے اور اس وقت انکی تعداد لگ بھگ ایک سے دو کروڑ ہے انکا موجودہ خلیفہ مرزا مسرور احمد قادیانی ہے جو رشتے میں بد بخت مرزا غلام احمد قادیانی کا پڑپوتا ہے۔

تحریک ختم نبوت 1974ء کے دوران میں حضرت مولانا سیّد محمد یوسف بنوریؒ کی قیادت میں مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کے جید علمائے کرام پر مشتمل ایک وفد نے جناب ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات کی اور انھیں قادیانی عقائد و عزائم سے آگاہ کیا۔ اس موقع پر علمائے کرام نے بھٹو صاحب سے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیے جانے کی پرُزور درخواست کی۔ اس پر جناب بھٹو نے وفد کو یقین دلایا کہ وہ اپنے ایمان اور عقیدے کی رُو سے قادیانیوں کو غیر مسلم سمجھتے ہیں اور قادیانیوں کے بارے میں پارلیمنٹ کے فیصلہ پر ہر مسلمان فخر کرے گا۔ مزید برآں انھوں نے اپنے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے وفد سے کہا کہ آپ لوگ مجھ سے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دلوا رہے ہیں لیکن میں اس کے بدلہ میں اپنی گردن میں پھانسی کا پھندہ دیکھ رہا ہوں، کیونکہ امریکہ سمیت مجھے کئی عالمی طاقتوں نے خصوصی طور پر کہا ہے کہ "آپ پاکستان میں احمدیوں کا خاص خیال رکھیں!"۔ یاد رہے اس موضوع پر معروف مصنفہ ڈاکٹر عائشہ جلال نے کہا تھا کہ"1970ء کے انتخابات میں قادیانیوں نے اپنے سرابراہ کی ہدایت پر ووٹوں اور نوٹوں سے پیپلز پارٹی کی حمایت کی تھی۔ جس کے نتیجے میں انہیں حکومت میں کلیدی عہدوں سے نوازا گیا۔ وزیر خارجہ عزیز احمد بھی ایک قادیانی تھا۔ 1972ء کے وسط میں نیوی اور ائیر فورس کے حساس اعلیٰ عہدوں پر اور فوج میں کور کمانڈروں سمیت ایک درجن سے زائد قادیانی براجمان تھے قادیانی پیپلز پارٹی کی حمایت کر کے، اپنے مذہبی سربراہ کے الہٰامات کی روشنی میں پاکستان پر قادیانی اقتدار کے خواب دیکھنے لگے تھے۔ دُوسری طرف اپنے ہم مذہب اعلیٰ افسران کی پشت پناہی کی بدولت وہ سرکاری ذرائع استعمال کر کے، بیرونی ممالک خصوصاً افریقہ کے پسماندہ علاقوں کو اَپنی تبلیغی سرگرمیوں کا مرکز بنا چکے تھے۔ جس پر عالم اسلام میں شدید اضطراب و تشویش پائی جارہی تھی اس پر جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم صاحب سے بات کی گئی جس کی انہوں نے یقین دہانی کروائی کہ وہ خود اس مسلئے کو حل کریں گے، اس بات کو حکومتی سطح پر اٹھایا گیا اور 10 اگست اور 20سے 24 اگست تک کل گیارہ روز مرزا ناصر احمد کا بیان، اس سے سوالات و جوابات اور اس پر جرح ہوئی۔ ان گیارہ دنوں میں 42 گھنٹے مرزا ناصر پر جرح ہوئی۔

گواہوں پر جرح اور ان سے سوالات کے لیے اس وقت کے اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار کو متعین کیا گیا، انہوں نے پوری قومی اسمبلی کی اس سلسلے میں معاونت کی اور بڑی محنت و جانفشانی سے اپنی ذمہ داری کو نبھایا۔ قومی اسمبلی کے ممبران اپنے سوالات لکھ کر اٹارنی جنرل صاحب کو دیتے اور وہ سوالات کرتے تھے، اس سلسلے میں مفتی محمود، مولانا ظفر احمد انصاری اور دیگر حضرات نے اٹارنی جنرل کی معاونت کی۔

بالآخر پوری جرح، بیانات اور غورو فکر کے بعد قومی اسمبلی کی اس خصوصی کمیٹی نے اپنی رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کی۔ وزیر اعظم پہلے ہی فیصلے کے لیے 7ستمبر کی تاریخ طے کرچکے تھے، چنانچہ 7ستمبر کو قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا، جس میں خصوصی کمیٹی کی سفارشات پیش کی گئیں اور آئین میں ترمیمی بل پیش کیاگیا۔ وزیر قانون نے اس پر مختصر روشنی ڈالی، اس کے بعد وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو مرحوم نے تقریر کی۔ تقریر کے بعد بل کی خواندگی کا مرحلہ شروع ہوا اور وزیر قانون نے بل منظوری کے لیے ایوان کے سامنے پیش کردیا، تاکہ ہر رکن قومی اسمبلی اس پر تائید یا مخالفت میں رائے دئے۔ رائے شماری کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی نے پانچ بج کر باون منٹ پر اعلان کیا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے والی آئینی ترمیم کے حق میں ایک سو تیس ووٹ آئے ہیں، جبکہ مخالفت میں ایک ووٹ بھی نہیں ڈالا گیا، چنانچہ 7 ستمبر 1974ء کو ملک کی منتخب پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر قادیانیوں کو ان کے کفریہ عقائد کی بناء پر 13 دن کی طویل جرح کے بعد غیر مسلم قرار دے دیا۔ آئین کی دفعہ 106 کی شق (2) اور 260 کی شق (3) کے ذریعے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا۔" جس کا کریڈٹ تمام امت مسلمہ ہمارے جید علماء کرام اور محترم جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کو جاتا ہے۔

مجاہد ختم نبوت جناب آغا شورش کاشمیریؒ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے پر جناب ذوالفقار علی بھٹو کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"پاکستان بنا تو مرزائی قادیان سے اٹھ کر لاہور آگئے پھر انگریز گورنر سر فرانسس موڈی سے کوڑیوں کے بھاؤ ربوہ کی زمین حاصل کی اور وہاں سے پاکستان کے مختلف حصوں میں اپنی فرمانروائی کا منصوبہ تیار کرنے لگے۔ مرزا ناصر تو عقل کے کورے ہیں لیکن مرزا محمود، کرنل لارنس کی سی شاطرانہ ذہنیت کے مالک تھے۔ انھوں نے پاکستان میں اقتدار کا خواب دیکھنا شروع کیا حتیٰ کہ بلوچستان کو احمدی صوبہ بنانے کا اعلان کیا۔ جب ان کی سیاسی معاملات میں مداخلت خطرناک ہو گئی تو علما میں زبردست ہیجان پیدا ہو گیا۔ تمام علما نے اکٹھے ہو کر مزاحمت کا بیڑا اٹھایا، اور ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے پاس گئے اور میں یہ اعلان کرتا رہا کہ مسٹر بھٹو ہی قادیانیوں کو ملت اسلامیہ سے خارج کر کے غیر مسلم قرار دیں گے۔ بحمدللہ یہی ہوا۔ آج یہ عظیم کارنامہ مسٹر بھٹو نے ہی سرانجام دیا ہے۔ انھوں نے ملت اسلامیہ سے 13 جون کے عظیم نشریہ میں جو وعدہ کیا تھا، وہ پورا کیا اور اس طرح پورا کیا کہ آج پاکستان کے مسلمان ہی نہیں بلکہ کائنات کے مسلمان ان کے شکر گزار ہیں۔ انھوں نے مسلمانوں کی اجتماعی آواز کو پروان چڑھایا۔ بلکہ اس مسئلہ کو حل کرنے میں اس حد تک غیرت ایمانی اور جرأت اسلامی کا ثبوت دیا کہ پاکستان میں ہمیشہ کے لیے فرضی نبوتوں کا دروازہ بند ہو گیا"۔

ختم نبوت کا دفاع ہر مسلمان پر فرض ہے چاہے وہ اپنی ذات سے کسی بھی طرح کرے لکھاری لکھ کر دفاع کرے سپیکر بول کر دفاع کر حکومتی سطح پر وزراء اور صدر عالمی سطح پر اسکا دفاع کریں غرض یہ کہ ہر مسلمان اپنی ذات سے ختم نبوت کا دفاع کرے چاہے اسکے لئے اسکی جان ہی کیوں نہ چلی جائے، جب قرآن مجید کا فیصلہ ہے کہ ترجمہ: محمد (ﷺ) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔ (الاحزاب، 33: 40)

اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالٰیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کو خاتم النبیین کہہ کر یہ اعلان فرما دیا کہ آپ ﷺ ہی آخری نبی ہیں اور اب قیامت تک کسی کو نہ منصب نبوت پر فائز کیا جائے گا اور نہ ہی منصب رسالت پر۔ تو پھر تمام مسلم کمیونٹی ہر لحاظ سے اسکا دفاع کرے چاہے وہ گوگل پر پراپیگنڈا ہو یا آپ کے سامنے یہ ہمارا فرض ہے ہم سب کچھ چھوڑ کر اس پر آواز بلند کریں۔

آج آپ دیکھ لیں یہی موضوع کسی شوبز کی سلیبرٹی کو کہیں کہ اس موضوع پر بولے وہ نہیں بولیں گے کیونکہ وہ اپنا کیریئر خراب نہیں کرنا چاہتے اسی طرح ہمارے سابق وزیراعظم نواز شریف نے خیر سگالی کا پیغام دیتے ہوئے کہا تھا کہ احمدی ہمارے بھائی ہیں، لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ احمدی بد بخت ہے یہ کافر ہیں ہمارا ان کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں ہے، ہمارے لئے سب سے بڑھ کر عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ ہے جو ہم آخری سانس تک نبھائیں گے ان شاءاللہ، توہین رسالت پر وزیراعظم عمران خان صاحب کا موقف آپکے سامنے ہے کہ انہوں نے جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے توہین رسالت پر قانون بننا چاہیے اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ عمران خان کے ہاتھوں یہ کام ہو جائے تو تا قیامت امت مسلمہ عمران خان صاحب کو بھی ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی طرح اچھے لفظوں میں یاد رکھے گی۔

ہمارا فرض ہے کہ جو شخص بھی عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لئے کھڑا ہے ہم اسکے پیچھے کھڑے ہوں پھر چاہے وہ مولانا اللہ وسایا صاحب ہوں یا پرنٹ میڈیا پر لکھنے والے رائٹرز یا سوشل میڈیا پر ختم نبوت کا دفاع کرنے والے مسلم جوان ہمہر لحاظ سے اس مسلئے پر ایک ہوں ہم سب کا عقیدہ ختم نبوت پر ایک ہونا بہت ضروری ہے ہم ایک ہوں گے تو عالمی طاقتوں کو للکار سکیں گے، تاجدار ختم نبوت زندہ باد۔

Check Also

Neela Thotha

By Amer Farooq