Apne Rishte
اپنے رشتے
مرزا اسلم بیگ پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف رہے ان کی سوانح حیات اقتدار کی مجبوریاں ایک بہترین کتاب ہے کتاب پڑھتے ہوئے انسان میں جوش و ولولہ پیدا پیدا ہوتا ہے یہ کتاب بہت سے انکشاف کرتی ہے جس میں جنرل ضیاء الحق کا دور اوران کے طیارے کا حادثہ پھر مرزا اسلم بیگ کا چیف آف آرمی سٹاف بننا اور ملک کو مارشل لاء کے دور سے ایک بار پھر عوام کی امانت ان کو سونپ کر جمہوری حکومت قائم کروانا جنرل صاحب کی خود نوشت ایک تاریخی حثیت رکھتی ہے۔
مرزا اسلم بیگ 17 اگست 1949ء کو اپنے ماں باپ اور باقی رشتے داروں کو بھارت چھوڑ کر پاکستان آگئے اور یہاں سے پاک فوج میں کمیشن کے لیے درخواست دی ابتدائی ٹیسٹ میں کامیابی کے بعد مختلف میڈیکل کے مرحلوں سے گزرنا پڑا جس کے اختتام پر انہیں طبی وجوہات کی بنا پر مسترد کر دیا، انہوں نے جب وجہ پوچھی تو علم ہوا کہ سسٹالک ہارٹ کےمرض میں مبتلا ہیں اس مرض میں آٹھ، دس دھڑکنوں کے بعد ایک دھڑکن مِس ہو جاتی ہے اور اسی وجہ سےاسی وجہ سے انہیں مسترد کیا گیا۔
مرزا صاحب نے کراچی کے ماہرین امراضِ قلب کو معائنہ کروایا تو انہوں نے کہا کہ یہ کوئی معذوری نہیں ہے آپ دوبارہ درخواست دیں مرزا صاحب نے ان ماہرین کی آراء منسلک کر کے دوبارہ درخواست بھیجی دو ہفتے بعد ملٹری ہسپتال راولپنڈی انہیں رپورٹ کرنے کو کہا گیا، ملٹری ہسپتال نے ایک میڈیکل بورڈ تشکیل دیا جس میں ایک کرنل اور کچھ اور افسران شامل تھے، انہوں نے مرزا اسلم بیگ سے پوچھا کہ آپ کی دھڑکن مِس ہو جاتی ہے آپ کو یہ تکلیف کب سے ہے۔
جنرل صاحب نے کہا کہ پانچ چھ مہینوں سے ہے، وہ کیسے؟ انہوں نے سوال کیا، مرزا اسلم بیگ کہتے ہیں کہ پانچ مہینے پہلے جب میں بھارت سے پاکستان کے لیے روانہ ہوا تو مجھے ماں باپ، رشتہ دار اور بہت قریبی دوستوں کو چھوڑنا پڑا اور ایسے ساتھی جن کے ساتھ مل کر تحریک پاکستان کی جدو جہد میں حصہ لیا تھا میں جن کے دلوں میں رہتا تھا میرا خیال ہے کہ ان سب کو چھوڑتے ہوئے میری کچھ دھڑکنیں ان ہی کے ساتھ رہ گئی ہیں، یہ سن کر کرنل صاحب کھڑے ہوئے اور اسلم بیگ کو گلے لگایا اور میڈیکلی کلیئر قرار دے دیا۔
مرزا اسلم بیگ صاحب کی یہ بات جب میں نے پڑھی تو مجھے واقعی لگا کہ ہماری دھڑکنیں بھی اپنوں کے ساتھ رہتی ہیں اور جب کوئی بہت قریبی رشتہ ہم سے دور ہوتا ہے تو ہم کمزور پڑ جاتے ہیں ہماری سانسیں کم ہو جاتی ہیں رنگ زرد پڑ جاتا ہے آنکھیں کسی کے انتظار میں کھوئی رہتی ہیں بانہیں کسی کو سینے سے لگانے کے لیے بے چین رہتی ہیں دل میں کسک پیدا ہوتی کہ کاش وہ شخص وہ رشتہ وہ اپنا ہمارے قریب ہو تو اسے سینے سے لگا لیا جائے لیکن ایسا عموماً ہوتا نہیں ہے ہم اپنی غلطیوں کوتاہیوں اور سب سے بڑھ کر انا کی تسکین کے لیے کئی رشتے پیروں تلے روند کر نکل جاتے ہیں ہمیں احساس نہیں ہوتا کہ یہی رشتے یہی اپنے ہی ہمارا اصل اثاثہ ہیں ان کے بغیر ہم نامکمل رہتے ہیں۔
یہ باتیں ہمیں کافی عرصہ بعد سمجھ آتی ہیں اور تب تک ہم بہت کچھ کھو چکے ہوتے ہیں، انسان ایک درخت کی مانند ہوتا ہو اسکی شاخیں اس کے رشتے ہوتے ہیں اور جب درخت کی شاخیں کٹ جاتی ہیں تو درخت درخت نہیں رہتا اور ہم بہت سے فضول بحث و مباحثوں میں اپنے رشتے خود سے دور کرتے ہیں ہم اپنوں کو چھوڑ کر غیروں میں اپنایت ڈھونڈنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں ہم برسوں کے بچھڑے جنازوں پر اکھٹے ہوتے ہیں اور جنازہ بھی بے دلی سے پڑھ کر فوراً گھروں کو واپس، یہ سب افراتفری یہ دنیا کی رونقوں میں ڈوبے دولت کے نشے میں مست اپنے کئی رشتوں کے گلے گھونٹ دیتے ہیں۔
یہ رشتے یہ خلوص کسی کسی کو نصیب ہوتے ہیں کچھ ان کو پا لیتے ہیں اور کچھ ٹھکرا کر ساری زندگی درد اور بے چینی میں گزار دیتے ہیں، یہ رشتے بڑے قیمتی ہوتے ہیں ان کے ساتھ زندگی جینے کا مزہ آتا ہے یہ رشتے اگر انسان کے پاس ہوں تو اسے لگتا ہے وہ کبھی پریشان نہیں ہو گا یہی آس کہ اگر کوئی پریشانی ہوئی تو سب میرے پاس ہیں یہ خلوص و محبت سے بھرے لوگ میری پریشانی ختم کر دیں گے، وہ ختم نہ بھی کریں تو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ دل کے قریب ہیں کوئی نہ کوئی حل ضرور بتا دیں گے، اور جس شخص کے پاس رشتے نہ ہوں وہ بھٹکے ہوئے مسافر کی طرح ہوتا ہے اسے کوئی راستہ سمجھ نہیں آتا وہ بے چین رہتا ہے۔
انسان جس جگہ رہتا ہے اسے وہاں سے انسیت ہو جاتی ہے اس کی گلیوں کی خوشبو اس جگہ کی تاریک راتوں کی راحت اداس شاموں کی لالگی اپنے اندر تک سرایت کر جاتی ہے کچھ جگہیں انسان کو بے وجہ اچھی لگنے لگتی ہیں میرا بچپن جہاں گزرا میں آج بھی ان جگہوں ان کھیلوں کے میدانوں کو دیکھتا ہوں آج میری جگہ وہاں کئی اور بچے کھیلتے ہوئے گھروں کو جاتے ہیں انہی گلیوں میں جب کوئی بچہ اپنے والد کی انگلی پکڑ کر چلتا ہے تو میرا ذہن کئی سال پیچھے چلا جاتا ہے دن مہینے سال گزرتے چلے جاتے ہیں ہمیں وہ جگہیں وہ لوگ جن سے محبت اور خلوص ملا ہو یاد رہتے ہیں ہماری کئی دھڑکنیں ان کے دلوں میں بستی ہیں اور ان کی سانسوں کی مہک ہمیں محسوس ہوتی ہے کچھ رشتے بے لوث محبت کے ہوتے ہیں بظاہر ہمارا ان سے کوئی رشتہ نہیں ہوتا لیکن وہ رشتہ سب سے مضبوط ہوتا ہے وہ احساس کا رشتہ انمول ہوتا ہے اور ہم آج ایسے ہی کئی رشتوں کو کھو کر سکون کی تلاش میں نکل پڑے ہیں یقین جانیے ان رشتوں کو ان اپنوں کو تلاش کیجئے وہ مل جائیں تو ان کی قدر کیجئے انہیں سینے سے لگا کر رکھ لیں آپ کو سکون مل جائے گا۔
میں نے ایک بار اپنے دادا جان سے پوچھا تھا کہ آپ امرتسر میں پیدا ہوئے آپ کو امرتسر اور وہاں کے لوگ یاد آتے ہیں تو ان کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی انہوں نے کہا پتر جب میں ان کو چھوڑ کر آیا تھا تو میرا آدھا وجود امرتسر رہ گیا تھا میری روح وہیں رہ گئی میرا جسم پاکستان آگیا لیکن پھر میرے وطن کی مٹی نے مجھ میں روح ڈال دی اور ان رشتوں نے مجھ میں جینے کی امنگ۔