Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aasim Irshad
  4. Amma Aur Abba Ji

Amma Aur Abba Ji

اماں اور ابا جی

کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ کچھ چیزیں دیکھ کر سن کر یا پھرپڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ کنپٹیوں کے قریب سے خون کی رفتار ایک دم تیز ہو گئی غصّے سے ناک کے نتھنے پھولنے لگے آنکھوں میں لالی سی اتر آئی ہاتھوں کی مٹھیاں زور سے بند کر لی اور یوں لگتا ہے کہ اگر یہ کیفیت چند لمحے اور رہی تو دماغ کی رگ پھٹ جائے گی، ایسے موقع پر یا تو غصے کا اظہار کر دیا جائے یا بہتر ہے اس جگہ سے دور چلے جائیں گہرے سانس لیں اور پانی پی لیں، میرے ساتھ بھی اکثر یہ کیفیت ہو جاتی ہے مجھے غصہ جلدی آتا ہے لیکن میں بہت جلد خود پر قابو پا لیتا ہوں، اور ایسا زیادہ تر تب سے ہوا ہے جب سے لکھنا شروع کیا ہے بہت سی چیزیں دیکھنی پڑتی ہیں کچھ خبریں نا چاہتے ہوئے بھی مکمل پڑھنی پڑتی ہیں اورکئی لوگ خود بتا جاتے ہیں ہم سن لیتے ہیں بعض اوقات عام روز مرہ کے واقعات ہوتے ہیں اور کبھی کچھ واقعات دل دہلا دینے والے ہوتے ہیں۔

اس وقت میرے سامنے 25 اپریل کا ایک قومی اخبار پڑا ہے ساری خبریں تقریباً معمول لے مطابق ہیں وہی سیاست، وہی کرونا کی تباہ کاریاں لیکن ایک یہ خبر جس میں ایک بد بخت بیٹے نے اپنی ماں کو ڈنڈے مار مار کر قتل کر دیا، میں یہ خبر پڑھتا ہوں میرا سر پھٹنے لگتا ہے دل کرتا ہے ساری حدیں پار کر کے اس ظالم کو سزا دوں لیکن کچھ تقاضے ہیں میں چپ کر جاتا ہوں آنکھیں بند کر لیتا ہوں اور کئی گھنٹے یونہی اپنے دل اور دماغ کے درمیان جاری جنگ کو روکنے کی کوشش کرتا ہوں، اور پگر سوچتا ہوں کی اس ماں نے بیٹے کو پیدا کیا اس بیٹے کے لیے وہ ماں کئی راتوں کو جاگی بھی ہو گی، جب یہ بیمار ہوتا ہو گا اس کی ماں اسے لے کر کسی حکیم یا پیر کے پاس تعویذ کے لیے بھی لے کر جاتی ہو گی، یہ رات سوتا نہیں ہو گا ماں اسے سلانے کے لیے لوری بھی سناتی ہو گی، یہ سردیوں کی ٹھٹھرتی راتوں میں بستر بھی گیلا کرتا ہو گا ماں وہ بستر بھی دھوتی ہو گی، یہ کسی سے لڑ کر آتا ہو گا تو ماں اسے پیار سے یا تھوڑا مار کر سمجھاتی بھی ہو گی، ماں نے اسے تیار کر کے سکول بھی بھیجا ہو گا، اور سارا دن ماں پریشان بھی رہی ہو گی کہ میرے بچے نے کچھ کھایا بھی ہے یا نہیں جب واپس آیا ہو گا تو ماں نے زور سے گلے بھی لگایا ہو گا، پھر بڑی دھوم دھام سے اس کی شادی بھی کی ہو گی اس کی دلہن کو گھر لائی ہو گی، ماں نے ساری زندگی اس بیٹے کے لیے پریشانیاں بھی دیکھی ہوں گی، بیٹے کے لیے مصلیٰ بچھا کر دعائیں بھی مانگی ہوں گی۔

لیکن ہائے یہ بد بخت بیٹا اس ظالم نے کیسے یہ ظلم کر دیا اس ہستی پر ہاتھ اٹھایا جس کے قدموں تلے جنت ہے، جو ماں ہے جس کو پکارتے ہی منہ میں مٹھاس آجاتی ہے، پتا نہیں لوگ کیسے نافرمان ہوجاتے ہیں میں کبھی یہ فلسفہ سمجھ نہیں پایا اکثر بیٹے شادی کے بعد والدین کے نافرمان ہو جاتے ہیں کہا جاتا ہے کہ بیوی کی باتوں میں آگیا ہے میں کہتا ہوں کہ یہ مرد کیوں بیوی کے پیچھے ماں باپ کا نافرمان ہو جاتا ہے کبھی دیکھا ہے کسی عورت نے شوہر کے پیچھے اپنے ماں باپ کو ذلیل کیا ہو؟ نہیں، یہ نہیں ہوتا کیونکہ عورت اپنے ماں باپ کے خلاف کچھ نہیں برداشت کرتی تو میں مردوں سے سوال کرتا ہوں کہ پھر آپ کیوں اپنے والدین کے نافرمان ہو جاتے ہیں جنہوں نے آپ کو پیدا کیا بڑا کیا آپ کی شادی کی آپ کل کو ان کو ہی غلط کہ رہے ہوتے ہیں، ٹھیک ہے بیوی کو اس کے حقوق دیں ان کو سو فیصد پورا کریں لیکن اپنے والدین کو نہ بھول جائیں ان کا آپ سہارا ہوتے ہیں اگر آپ ہی چھوڑ جائیں گے تو والدین جیتے جی مر جاتے ہیں ان کا سب کچھ اولاد ہی ہوتی ہے لیکن اگر اولاد نافرمان بن جائے تو ماں باپ بھی بات کرتے وقت اولاد کا موڈ دیکھنے لگتے ہیں، ساری زندگی جس ماں نے آپ کے لیے سب کچھ کیا ہوتا ہے جس باپ نے آپ کی راحت کے لیے دھوپ چھاؤں کی پرواہ نہیں کی ہوتی آپ شادی کے بعد ان ہی کو سمجھانے لگتے ہیں، قرآن کریم میں ارشاد ہے: "اور تمہارے رب کا قطعی حکم ہے کہ صرف اسی کی عبادت کر و اور ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤاور ان کی خدمت کرو"۔۔۔ (سورہ بنی اسرائیل)۔

آپ ﷺنے ارشاد فرمایا وہ شخص ذلیل وخوار ہو۔ عرض کیا یا رسول اللہ! کون ذلیل و خوار ہو؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا وہ شخص جو اپنے ماں باپ میں سے کسی ایک یا دونوں کو بڑھاپے کی حالت میں پائے پھر(ان کی خدمت کے ذریعہ) جنت میں داخل نہ ہو۔ (صحیح مسلم)

حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید کے ساتھ آپؐ کے ساتھ ہجرت اور جہاد کرنے کیلئے بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا تمہارے ماں باپ میں سے کوئی زندہ ہے؟ تو اس شخص نے کہا: دونوں حیات ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے اس شخص سے پوچھا: کیا تو واقعی اللہ تعالیٰ سے اجر عظیم کا طالب ہے؟ اس نے کہا ہاں۔ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اپنے والدین کے پاس جا اور ان کی خدمت کر۔ (صحیح مسلم)

یہ اسلام ہمیں درس دیتا ہے کہ ماں باپ کی اطاعت کے بغیر کچھ بھی حاصل نہیں یہ لازم ہے، ماں کے بغیر گھر قبرستان ہے جس گھر میں ماں نہیں اس گھر سے خوف آنے لگتا ہے، کچھ عرصہ قبل میری اماں جی کو کسی رشتہ دار کے گھر دوسرے شہر میں شادی پر جانا پڑا اماں جی کو تین دن لگ جانے تھے میں کسی وجہ سے ساتھ نہ جا سکا، اماں جی خیریت سے چلی گئیں میں گھر واپس آیا تو گھر ویران لگنے لگا ایسے لگے جیسے میں کسی ویراں بستی میں آگیا ہوں میرا دل نہ لگا میں تین دن کے لیے گھر سے باہر چلا گیا تین دن بعد جب اماں جی آئیں تو میں پھر گھر میں داخل ہوا، مجھے تب محسوس ہوا تھا کہ ماں کے بغیر واقعی ہی گھر قبرستان بن جاتا ہے ماں کے بغیر تو زندگی میں کوئی سکون ہی نہیں ہوتا، لیکن میں بڑے دکھ کے ساتھ یہ کہ رہا ہوں کہ میں نے بڑے تعلیم یافتہ لوگوں کو دیکھا بڑے معززین کو دیکھا ہے بہت امراء کو دیکھا ہے ہر جگہ بہت عزت، پیسہ، جائیداد بھی بہت زیادہ لیکن والدین کے ساتھ سلوک بہتر نہیں ان کی اطاعت نہیں ماں باپ کی بات کی کوئی اہمیت نہیں بس اپنی زندگی میں مگن بیوی بچوں کے ساتھ خوش اور والدین کی کوئی پرواہ نہیں۔ دیکھیں ایسا نہ کریں والدین سے بڑھ کر کچھ نہیں ان کے بغیر تو ہمارا کوئی وجود نہیں ماں باپ کو دو وقت کی روٹی نہیں چاہیے ہوتی ان کو محبت اور خلوص چاہیے ہوتا ہے وہ چاہتے ہیں کہ اولاد ہمارے پاس بیٹھے ہم سے مشورہ کرے ہماری باتوں کو ترجیح دے لیکن ترقی یافتہ دور میں تعلیم یافتہ اولاد کہاں یہ سمجھتی ہے۔

میرا تعلق ایک گاؤں سے تھا وہاں ہمارے ایک جاننے والے ہیں تو اس لڑکے کی شادی اس کے ماں باپ نے لڑکے سے بنا پوچھے کسی جگہ طے کر دی ہمیں اس بات کا پتا چلا تو مجھے بہت عجیب سا لگا کہ والدین کو پوچھنا چاہیے تھا یا لڑکے نے اس جگہ شادی سے انکار کر دیا ہو گا، کچھ دنوں بعد میری اس لڑکے سے ملاقات ہوئی باتوں باتوں میں نے اس سے شادی کے بارے میں ذکر کیا تو کہنے لگا الحمدللہ بات پکی ہو گئی ہے میں بڑا حیران ہوا میں نے اس سے کہا کہ تم نہ لڑکی کو جانتے ہو نہ دیکھا ہے پھر بھی ہاں کر دی تو اس لڑکے کا جو جواب تھا وہ مجھے لاجواب کر گیا میں نے بہت سی کتابیں پڑھی بڑے ذہین ترین لوگوں سے ملا بڑے معزز لوگوں سے ملا لیکن جو والدین کی اطاعت اور ان سے محبت کا درس مجھے اس دیہاتی لڑکے کے فلسفے نے سمجھایا مجھے کہیں سمجھ نہیں آیا اس نے بڑی آسان سی بات کہی اس نے کہا کہ جناب والدین کی باتوں سے بھلا کب اختلاف ہوتے ہیں وہ جیسے کہیں جو کہیں چپ کر کے آمین کہ دیں۔

Check Also

Adab

By Idrees Azad