Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aasim Irshad
  4. Aakhri Din

Aakhri Din

آخری دن

تاریخ میں آج تک اقتدار کے لئے لڑائیاں ہوتی آئی ہیں پھر وہ چاہے مسلمان ہوں یا غیر مسلم ہر جگہ اقتدار کے لئے لوگ لڑتے ہیں کچھ لڑ کر اقتدار پا لیتے ہیں اور کچھ صرف لڑتے رہتے ہیں حتیٰ کہ موت انکے سرہانے آ پہنچتی ہے۔ جو اقتدار پاتے ہیں ان میں سے بھی تاریخ کچھ لوگوں کو یاد رکھتی ہے ایسے ہی چند لوگوں میں ایک نام سکندر اعظم ہے، باپ کی موت کے وقت سکندر کی عمر بیس سال تھی۔ لیکن وہ اس لحاظ سے خوش قسمت تھا کہ کسی مشکل کے بغیر ہی اسے مقدونیہ کی حکمرانی مل گئی تھی۔ ورنہ زمانے کا قاعدہ تو یہی تھا کہ بادشاہ کا انتقال ہوتے ہی تخت کے حصول کے لیے لڑائیاں شروع ہو جاتیں اور اس لڑائی میں ہر وہ شخص حصہ لیتا جس کے پاس تخت تک پہنچنے کا ذرا سا بھی موقع ہوتا۔ سکندر ایک تو اپنے باپ کا اکلوتا بیٹا تھا، دوسرا اس وقت مقدونیہ کی حکمرانی کا کوئی اور خاص دعوے دار نہیں تھا۔ لیکن احتیاط کے طور پر سکندر نے ایسے تمام افراد کو قتل کرا دیا جو کسی بھی طرح اسے نقصان پہنچا سکتے تھے۔ یہاں تک کہ اپنی ماں کے اکسانے پر اس نے اپنی دودھ پیتی سوتیلی بہن کو بھی قتل کر دیا۔

سکندر کی ایک اور خوش قسمتی یہ بھی تھی کہ اسے ارسطو جیسا استاد ملا تھا جو اپنے زمانے کا قابل اور ذہین ترین انسان سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے باپ "فلپس" نے اپنے بیٹے کی جسمانی تربیت پر بھی خصوصی توجہ دی تھی اور اس کے لیے اسے شاہی محل سے دور ایک پر فضا مقام پر بھیج دیا تھا تاکہ عیش و عشرت کی زندگی سے وہ سست نہ ہو جائے۔ یہاں سکندر نے جسمانی مشقیں بھی سیکھیں اور گھڑ سواری، نیزہ اور تلوار بازی میں مہارت بھی حاصل کی۔ ساتھ ہی ساتھ ارسطو اس کی ذہنی تربیت بھی کرتا رہا۔

بیس سال کی عمر میں کسی دشواری کے بغیر سکندر مقدونیہ کے تخت پر براجمان ہو گیا۔ سکندر نے ایک ایسی سلطنت تشکیل دی جس کی مثال تاریخ میں بہت کم ملتی ہے۔ اس وقت کی زیادہ تر معلوم دنیا اس کے زیر نگیں ہوئی اور تیس سال کی چھوٹی سی عمر میں وہ ایک زبردست لیڈر بن کر سامنے آیا۔ اسے قدیم دنیا کا "سپرمین" سمجھا جاتا ہے۔ کہنے والے اسے غیر معمولی دانش رکھنے والا سیاستدان بھی کہتے ہیں اور ایک جابر حکمران بھی قرار دیتے ہیں۔ فلپ نے اپنے بیٹے کی تربیت بڑی احتیاط اور بڑی کامیابی سے کی۔ سکندر غیر معمولی اہلیت کے حامل فوجی سالار کے طور پر سامنے آیا، شاید تاریخ کا ایک عظیم جرنیل بے حد حوصلہ مند شخص بھی تھا، یہ مقدونیہ سے نکلا مصر فتح کیا پھر ہندوستان کو زیر کیا ملتان تک آیا آدھی دنیا فتح کر لی، سکندر بیمار ہوا اور واپس لوٹا وہ چاہتا تو یہی تھا کہ اپنے سر پر آدھی دنیا کی فتح کا تاج سجائے اپنے آبائی شہر مقدونیہ میں داخل ہو لیکن ابھی وہ "بابل" ہی میں تھا کہ ایسا بیمار ہوا کہ دوبارہ صحت یاب نہ ہوسکا اور وہیں اس نے موت کو گلے لگا لیا، سکندر اعظم نے مرتے وقت یہ خواہش ظاہر کی کہ اگر مجھے چند منٹ اور زندہ رہنے کی مہلت مل جائے تو اس کے بدلے میں تمام سلطنت قربان کرنے کو تیار ہوں۔ مگر دنیا کی کوئی طاقت اس کی خواہش کو پورا نہ کرسکی۔ فلسفی حیران تھے وزیر دم بخود رہ گئے۔ امیر بے بس تھے۔ مشیروں کو کوئی چارہ نہ سوجھا۔ وقت کے سامنے کسی کی پیش نہ گئی اور دنیا کا ایک عظیم جرنیل آدھی دنیا کا فاتح مر گیا۔

آج 2020 رخصت ہو رہا ہے نیا سال آنے کو ہے ہم نیو ائیر نائٹ فنکشن کی تیاریوں میں لگے ہوئے ہیں اگلے دس سال تک کی پلاننگ کر لی ہے لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ ہماری موت کب کہاں اور کیسے آجائے اور ہماری سارے پلان ادھورے رہ جائیں، جن سارے کاموں کے لئے ہم سر دھڑ کی بازی لگا رہے ہیں وہ سب چھوٹ جائیں گے اور ہم مر جائیں گے یہ ایک ایسی اٹل حقیقت ہے جسے ہم کبھی جھٹلا نہیں سکتے، ہم دنیا میں کیوں آئے ہیں ہمارا مقصد کیا ہے اور ہم کر کیا رہے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارا مقصد کیا ہے لیکن پھر بھی انجان بنے ہوئے ہیں ہماری زندگی کا ایک سال کم ہو گیا ہے ہم احتساب کریں کہ اس گزرے سال میں ہم نے کیا کیا، ہم نے کتنے لوگوں کا دکھایا کتنی نافرمانیاں کیں کتنے گناہ کیے، اپنی زندگی کے کتنے ٹارگٹ کو حاصل کیا کتنے باقی رہ گئے؟

جناب ہم سب دنیامیں آتے ہیں رزق سب کو ملتا ہے، لیکن کچھ ایسا نیا کر جائیں کہ تاریخ میں یاد رکھا جائے کچھ نہ کر کے دیکھانے میں سب سے بڑا کردار ہمارے والدین کا بھی ہوتا ہے کیسے؟ چھوڑو ابھی 18 سال ہی کا تو ہے بچہ ہے زندگی کو انجوائے کرنے دوابھی تو اسکے کھیلنے کودنے کے دن ہیں، آدھی رات کو گھر سے غائب ہو تو کہتے ہیں بہو تو کہتے ہیں فارغ گھر میں بور ہوجاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

آئیے تاریخ کی نظر سے دیکھتے ہیں، بچوں نے کتنی عمر میں کیا کارنامے سر انجام دیئے تا کہ ہم اس دھوکے سے نکل جائیں۔

مسلمانوں کے اس لشکر کا سپہ سالار جس میں ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما جیسی شخصیات موجود تھے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ عمر 18 سال، جس نے اسلام میں پہلا تیر چلایا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ عمر 17 سال، جس نے اپنے گھر کو حضور اکرم ﷺکیلئے مکہ معظمہ میں وقف کیا الارقم بن الارقم عمر 16 سال، اسلام میں سب سے زیادہ اکرم شخصیت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ عمر 16 سال، حضور ﷺ کے حواری جنہوں نے سب سے پہلے اسلام میں تلوار چلائی صحابی زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ عمر 15 سال، اس امت کے فرعون کو واصل جہنم کرنے والے معاذ بن الجموح عمر 13 سال، وحی کو لکھنے والے اور جس نے 17 دن میں یہود کی زبان کو سیکھ لیا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ عمر 13 سال، جس کو حضور ﷺ نے مکہ کا والی بنا کر غزوہ کیلئے تشریف لے گئے عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ عمر 18 سال، اندلس (اسپین) کا فاتح عبدالرحمن الداخل رحمہ اللہ عمر 21 سال قسطنطنیہ کا فاتح محمد الفاتح رحمہ اللہ عمر 22 سال، سندھ کا فاتح محمد بن قاسم رحمہ اللہ عمر 17 سال، جس نے کچھ کرنا ہوتا ہے وہ نہ عمر دیکھتے ہیں نہ حالات دیکھتے ہیں بس کر جاتے ہیں۔ آپ بھی کریں کچھ اسلام کے لئے کچھ اپنے وطن عزیز کے ایسا کر جائیں کہ ہمیں یاد رکھا جائے کہ ہاں فلاں شخص تھا اس نے یہ کارنامہ سر انجام دیا تھا، باقیوں کو دیکھ کر زندگی نہ گزاریں بلکہ دنیا کو جینے کا سلیقہ دے جائیں اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے کچھ کرنے کے لئے بنایا ہے، اپنی مکمل زندگی کو اللہ کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کرنے میں گزار دیں اور زندگی میں نام پیدا کر جائیں تاریخ یاد رکھے گی آپکو، ہزاروں لوگ آتے ہیں آ کر نارمل زندگی گزار کر مر جاتے ہیں تاریخ کیا انکی آنے والی دوسری نسل انکا نام تک بھول جاتی ہے، تو ہر سال ہم نارمل زندگی گزارتے ہیں سال کا آخری دن آجاتا ہے ہم سوچتے ہیں کہ اس سال کچھ کریں گے لیکن کچھ نہیں کر پاتے اور آخرکار ہماری زندگی کا آخری دن آجاتا ہے آخری لمحہ آجاتا ہے اور ہم مر جاتے ہیں،

تاریخ نے سکندر اعظم کو کیوں یاد رکھا کیونکہ اس نے کچھ نیا کیا زندگی میں کچھ کر کے دیکھایا اور صدیوں بعد بھی اسے یاد رکھا گیا ہے تو جب تک ہم کچھ اچھا نہیں کریں گے تب تک نہ ہمارا ضمیر مطمئن ہوگا نہ مرتے وقت ہمارے چہرے پر اطمینان ہوگا، اگر اللہ کے بتائے ہوئے طریقے پر زندگی گزاریں اور زندگی میں کچھ کر جائیں تو میں یقین سے کہتا ہوں ہم مرتے وقت بھی سکون محسوس کریں گے اور تاریخ میں بھی نام یاد رکھا جائے گا، ورنہ ہمارا دن ہر لمحہ ہر ہفتہ ہر مہینہ ہر سال گزر جائے گا اور آخرکار آج سال کے آخری دن کی طرح ہماری زندگی کا آخری دن آجائے گا اور ہم نہ چاہتے ہوئے بھی مر جائیں گے لیکن کوشش کریں آخری دن سے پہلے بہتری کی طرف لوٹ آئیں۔

Check Also

Time Magazine Aur Ilyas Qadri Sahab

By Muhammad Saeed Arshad