Monday, 21 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aamir Mehmood
  4. Pareshan Zehan Aur Husn e Khayal

Pareshan Zehan Aur Husn e Khayal

پریشان ذہن اور حسن خیال

لاکھوں کروڑوں درود و سلام سرکار ﷺ کی ذاتِ اقدس پر۔

وہ بہت ہی خوش قسمت انسان ہوتے ہیں جنہیں رب کریم کی طرف سفر کرنے کا شوق ہو جاتا ہے اور کچھ ایسے انسان مل جاتے ہیں جو کہ اِس شوق کو بڑھانے میں اور حقیقتوں کی طرف سفر کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں، یہ سفر تنہا ممکن نہیں، اِس کے لیے کوئی مرشد کوئی رہنما ہونا بہت ضروری ہے۔

اِس راستے میں خیال کی بڑی اہمیت ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ خیال ہی کی اہمیت ہے تو یہ غلط نہیں ہوگا، رب کریم کی معرفتوں کی طرف سفر کرنے والے کو حُسنِ خیال عطا ہوتا ہے، یہ خالصتاً عطا ہے رب کریم کی، رب ذوالجلال کی، یہ کوششوں سے حاصل نہیں ہوتا۔

کچھ خوش قسمت انسان چن لیے جاتے ہیں مبارک مسافتوں کے لیے، عبادتیں بھی آپ کو اِس مقام تک پہنچا سکتی ہیں، لیکن بنیادی چیز محبت ہے، باطن کا تزکیہ صرف محبت ہی کر سکتی ہے، اِس میں سچائی اور اخلاص بنیادی چیز ہے۔

اپنی نیت کو اپنے خیال کو پرکھتے رہنا چاہیے اور اپنے باطن کو تیار کرنا چاہیے تاکہ ظاہر اور باطن کا فرق مٹ جائے، اگر باطن اِس قابل ہوگیا ہے کہ ظاہر کے ساتھ آ کے بیٹھ سکے تو پھر سمجھیے کہ آپ کا سفر شروع ہوگیا۔

اِس راہ کے مسافروں میں سب سے پہلے ذہنی پریشانی دور کی جاتی ہے، ذہن کو پاک کر دیا جاتا ہے دنیاوی پریشانیوں سے، پھر ہی حُسنِ خیال اُتر سکتا ہے، اگر آپ کا ذہن آلودہ ہے دنیاوی پریشانیوں سے، تو پھر حُسنِ خیال کا ہونا محال ہے۔

حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں کہ پریشان ذہن میں حُسنِ خیال نہیں آ سکتا۔

اِس راہ کا مسافر اپنے باطن پر کام شروع کر دیتا ہے، اپنے اندر کی الائشوں اور غلاظتوں کو پاک کرنے اور دور کرنے کی کوششوں میں مصروف ہو جاتا ہے اور انہی کوششوں میں ایک مقام ایسا آ جاتا ہے جب وہ اِس بات کو سمجھ لیتا ہے کہ یہ دنیا ایک خواب ہے اور اِس میں گزرنے والی زندگی چند روزہ ہے، فانی ہے، جب یہ بات سمجھ آ جاتی ہے تو پھر ذہن کی پریشانی دور ہو جاتی ہے، کیونکہ اِس سفر کو سمجھ لیا جاتا ہے کہ یہ ایک ختم ہو جانے والا سفر ہے۔

یہ جو پچاس، ساٹھ سال کی زندگی عطا کی گئی ہے، اِس کو ختم ہو جانا ہے، جب یہ بات ذہن میں اُتر جاتی ہے تو پھر اگلا مرحلہ آتا ہے کہ کیا لافانی ہے، کیوں نہ اِس کی طرف سفر کیا جائے جو کہ ہمیشہ رہنے والی ہے تابد ہے۔

ایسا مسافر دنیاوی معاملات کو ثانوی حیثیت دینے لگ جاتا ہے، دنیا تو ضرور کرتا ہے لیکن اِس میں گم ہونا پسند نہیں کرتا، دنیا دار کی زندگی اور ہوتی ہے اور دنیا ترک کرنے والے کی زندگی اور ہو جاتی ہے، بظاہر معاملات ویسے ہی چلتے نظر آتے ہیں لیکن اُس کا باطن روشن ہو جاتا ہے۔

کچھ لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں شاید تصوف یا روحانیت میں دنیا چھوڑنے کا ذکر ہو رہا ہے حالانکہ ایسی بات بالکل بھی نہیں ہے دنیا میں رہ کر دنیا چھوڑنا بہت بڑا عمل ہے، میلے میں خود کو اکیلا کر لینا کسی کسی کا نصیب ہے، پھر ہی آپ کی وابستگی حقیقتوں کے خیال کے ساتھ ہو سکتی ہے، حُسنِ خیال عطا ہو سکتا ہے۔

ایسے مسافر کے اندر کی آنکھ کھل جاتی ہے وہ دنیا کو کسی اور زاویے اور نظریے سے دیکھنا شروع ہو جاتا ہے، اسی کو نظر کرم کہتے ہیں، جوش کا ایک شعر ہے۔

سوز غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا
جا تجھے کشمکشِ دہر سے آزاد کیا

تو کشمکشِ دہر سے آزادی پہلے عطا کی جاتی ہے اور پھر حُسنِ خیال عطا ہوتا ہے، حُسنِ خیال عطا کیا ہوا شخص ہر عمل میں رب کریم کی مشیت ڈھونڈ لیتا ہے، تکلیف و راحت سے بے نیاز محبتوں کے سفر کا مسافر ٹھہرتا ہے، ایسے مسافر کا مسئلہ اذیت یا راحت نہیں رہتا یہ دونوں ربِ کریم کی عطا سمجھتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ محبوب کی طرف سے اذیت بھی کرم ہی ہے۔

حُسنِ خیال عطا کیے ہوئے شخص کو دنیا کرنی بہت مشکل ہو جاتی ہے، دنیا دار اس کی بات نہیں سمجھتے اور دنیا کرنے میں اِس کو اذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ایسے مسافر کو اذیت ہی داد ہے۔

اللہ کریم آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔

Check Also

Jaulian Ki Khanqah, Budh, Wajra Pani

By Nasir Abbas Nayyar