Kamiyabian Aur Mehroomiyan
کامیابیاں یا محرومیاں

لاکھوں کروڑوں درود و سلام سرکار ﷺ کی ذاتِ اقدس پر۔
اگر میں یہ عرض کروں کہ کامیابی نام کی چیز دنیا میں نہیں ہے، سب ایک خیال ہے ایک وہم ہے جو کہ انسان نے اپنے اپنے شعبوں کے متعلق بنائے ہوئے ہیں تو شاید یہ بات فوراً قبول کرنا آپ کے لیے مشکل ہو، لیکن حقیقت یہی ہے کامیابی نام کی چیز دنیا میں نہیں ہے۔
کسی ایک شعبے کا کامیاب ترین انسان دوسرے شعبے کا ناکام ترین انسان تصور ہوگا، کسی طور بھی کامل کامیاب و کامران انسان اِس دنیا میں نہیں مل سکتا۔ مثال کے طور پر ایک طبیب اپنے شعبے میں کامیاب کہا جا سکتا ہے، اپنی تحقیق اور کوششوں کی بدولت، لیکن وہ دوسرے شعبے میں ناکام ترین انسان ہوگا اور شاید اپنے علاوہ کسی اور شعبے میں لاعلمی کے سب سے نچلے درجے پر فائز ہو۔
تو کامیابی ایک خود ساختہ خیال ہے ایک وہم ہے، انسان یہ سمجھتا ہے کہ میں نے بہت کچھ حاصل کر لیا ہے اور اپنے شعبے میں ایک مقام پا لیا ہے، لیکن اِس کی حقیقت قدرت کے آگے کچھ بھی نہیں، بلکہ بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ دنیاوی کامیابیاں آپ کو محدود کر دیتی ہیں، آپ یوں سمجھ لیں جیسے ایک پنجرہ ہے اور آپ ایک پرندے کی طرح صرف اِس پنجرے میں ہی قید ہو کے رہ جاتے ہیں۔
آپ کی ایک حدود متعین کر دی جاتی ہے، اِس سے آگے آپ نہیں جا سکتے نہیں سوچ سکتے، کامیاب انسان معاشرے میں عزت اور مقام کے لیے سرگرداں رہتا ہے اور اسی عزت اور مقام کی آڑ میں سکون ڈھونڈتا ہے لیکن اگر سکون نہ ملے تو پھر، اسی لیے کہتے ہیں کہ کامیابیوں نے بہت سی محرومیاں پیدا کی ہیں۔
بعض اوقات ایسے ہوتا ہے کہ کامیاب کہلوانے کی دھن میں آپ ایک شعبے میں بہت آگے تک نکل جاتے ہیں اور آپ کو احساس تک نہیں ہوتا کہ احکام الہی سے آپ کتنے دور ہو گئے ہیں، پیسہ کمانے کی دوڑ میں حرام اور حلال کی تمیز ختم ہو جاتی ہے اور پھر اِس کی منفی تاثیریں آپ کا پیچھا کرتی ہیں، بلکہ صرف آپ کا ہی نہیں آپ کی آنے والی نسلوں تک تاثیریں سرایت کر جاتی ہیں اور پھر نتیجہ وہی اِضطراب بے چینی، بے ادبی اور بات خود کشی تک بھی جا سکتی ہے۔
تو کوششوں نے بہت سی محرومیاں پیدا کی ہیں، اگر آپ کی کوشش مقصد کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے تو اِس میں بھی اللہ تبارک و تعالی کا شکر ادا کرنا چاہیے، کہ اللہ کو کچھ اور ہی منظور ہے، کچھ بہتر ہے جو کہ آپ کے راستے میں ہے، ایک جھوٹ لالچ اور تکبر سے لبریز معاشرے میں کامیابی کی کیا حیثیت ہو سکتی ہے، آپ اندازہ کر سکتے ہیں، جھوٹے اور لالچی معاشرے میں کامیاب ترین کون شخص ہوگا جو کہ سب سے بڑا جھوٹا اور لالچی ہو۔
تو عرض یہ ہے کہ اِس دوڑ کو ترک کرنے کی ضرورت ہے اور زندگی کو پرسکون اور نارمل کرنے کی ضرورت ہے، کامیابی نام کی کوئی چڑیا نہیں ہوتی، آج کل کے دور میں یہ صرف ایک دوڑ ہے، عام طور پہ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ کامیاب ترین شخص دین سے بہت دور ہو جاتا ہے اور خود اپنی عاقبت گنوا بیٹھتا ہے، جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ وہ پرندہ جو کہ اپنے پنجرے میں ہی قید ہے اِسی میں ہی اڑ سکتا ہے، دنیاوی لالچ نمود و نمائش، باطن کے راستے بند کر دیتی ہیں، آپ کوئی بات کریں یا سمجھانے کی کوشش کریں تو اُس کی سمجھ میں نہیں آتی، ایسا انسان تکبر کے اعلی تخت پر فائز ہوتا ہے، وہ ہر بات پہ تکرار کرتا ہے، اپنے آپ کو منوانے کی کوشش کرتا ہے، کسی کو تسلیم کرنے کے قابل نہیں رہتا، نسبتِ قلب تو دور کی بات ہے۔
کامیاب انسان کا سفر خود غرضی کا سفر ہو جاتا ہے، اگر خود غرضی نہ ہو تو وہ کیسے اپنے آپ کو کامیاب کہلوائے، آپ کو اپنے ارد گرد ایسے لوگ کثیر تعداد میں مل جائیں گے جو کہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے شعبے میں کامیاب ہیں اور یہ حق بھی رکھتے ہیں کہ تمام دوسرے شعبوں پر رائے زنی کریں یہ خود غرضی تکبر اور انا پرستی کے علاوہ اور کیا ہے، وہ یہ سننے کو تیار ہی نہیں ہوتے کہ ہم دوسرے شعبوں میں ناکام ہیں۔
آج کا دور دولت کا دور ہے پیسے کا دور ہے تو کامیاب انسان وہی سمجھا جاتا ہے جس پر دولت کی دیوی مہربان ہو رہی ہو اور اس کے بینک بھرے ہوئے ہوں، دراصل یہی ناکامی ہے آج کا کامیاب انسان گدازی دل، اشک ندامت سے خالی ہے، کیا فائدہ ایسی کامیابی کا جس میں عاقبت کے راستے مخدوش ہو جائیں اور وہ راستہ جو ہمارے دین نے ہمیں دکھایا ہے اُس کی راہیں مصدور ہو جائیں۔
آپ اللہ کی راہ پر چلیے اپنی کامیابی جو کہ آپ کی اپنی تعریف ہے اُس کو اللہ کی دی ہوئی تعریف میں ڈھال لیجیے۔ حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں کہ اللہ والا کامیاب نہیں ہوتا، کیونکہ وہ ناکام بھی نہیں ہوتا۔
اللہ تعالی آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔