Monday, 21 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aamir Mehmood
  4. Islami Tareekh Ko Dobara Likhne Ki Zaroorat Hai

Islami Tareekh Ko Dobara Likhne Ki Zaroorat Hai

اسلامی تاریخ کو دوبارہ لکھنے کی ضرورت ہے

بے شمار درود و سلام سرکار ﷺ کی ذاتِ اقدس پر۔

یوں تو اِس عہدِ کربلا میں ہر چیز ہی سطحی اور مکینیکل کر دی گئی ہے، یہی حال ہم لوگوں نے دین کے ساتھ بھی کیا ہے، اِس کو بہت ہی سطحی سا کر دیا گیا ہے، ظاہری معاملات پر زیادہ زور ہے، باطنی معاملات پر توجہ کچھ کم ہے۔

یوں تو تاریخ میں بہت جید اور بڑے بڑے تاریخ دان ملتے ہیں، لیکن ابھی تک وہ سوز و گداز اور درد و غم کی کیفیات جو کہ ہمارے دین کی بنیاد ہیں ان کو عام عوام تک نہیں پہنچا سکے، ماضی میں لکھی گئی تحریروں میں شاید اتنی تاثیر نہیں ہے۔

اسلامی تاریخ کا ماخذ بھی محض ظاہری اور سطحی واقعات ہی ٹھہرے ہیں، میں یہ بات سب تاریخ دانوں کے لیے نہیں کر رہا لیکن عمومی ہسٹری جو ہم تک پہنچتی ہے اِس سے فیض ملنا بہت مشکل ہے، کیونکہ وہ ہمارے اندر کے اندر یعنی باطن تک آکر اس کو روشن کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔

میرے خیال میں دین کا بنیادی ماخذ محبت اور درد و غم ہے، اگر کسی میں محبت، درد اور تڑپ حقیقتوں کے لیے پیدا نہیں ہوئی تو وہ دین کی بنیاد تک نہیں پہنچ سکتا اور دین اپنی اصل صورت میں اُس کے وجود پر وارد نہیں ہو سکتا اور اُس کے باطن کو تبدیل نہیں کر سکتا، اس میں کوئی شک نہیں کہ بزرگانِ دین نے اِس پر بہت کام کیا ہے اور اب بھی لوگ موجود ہیں جو کہ محبتیں عطا کر سکتے ہیں اور آپ کے باطن کو روشن کر سکتے ہیں، لیکن یہ صرف ایک مکتبہ فکر تک ہی محدود ہے، عام عوام اِس سے فی الحال بہرہ مند نہیں ہیں۔

محبت عطا ہونا اور دردِ دل عطا ہونا خالصتاً رب کریم کی طرف سے ہے، یہ صرف عطا ہے، اِس میں کوشش کا عمل دخل صرف اتنا ہے کہ کسی کی دعا لگ سکتی ہے، خاص کر ماں کی دعا کا بڑا اثر ہے اور اُن لوگوں کی دعا جن کے ساتھ آپ نے حُسنِ سلوک کیا ہے، اُن لوگوں کی دعا بھی آپ کو اِس مقام تک پہنچا سکتی ہے، اگر ہم یہ کہیں کہ تاریخ کے واقعات جیسے کہ یہ ہم تک پہنچے ہیں یہ آپ پر وہ کیفیات وارد کر سکتے ہیں تو اِس کا جواب نفی میں ہوگا، جو تاریخ ہم تک پہنچی ہے اِس میں محبت اور دردِ دل کا ذکر محض سطحی طور پر ہی کیا گیا ہے یہ کیفیات تاریخی واقعات کی بنیاد نہیں بتائی گئیں۔

اسی لیے یہ واقعات اتنے پُر اثر نہیں ہیں کہ ذہن و وجود میں اُتر کر اندر کا اندر تبدیل کر سکیں، وہ صرف ایک سطحی علم کے طور پر تو ٹھیک ہیں لیکن اِن کے باطنی اثرات نہ ہونے کے برابر ہیں، ویسے تو کتاب پڑھ کر آپ اس عمل تک نہیں پہنچ سکتے بہت زیادہ کتابیں پڑھنے کے لیے تصوف میں نہیں کہا گیا ہے، انسان کے انسان کے ساتھ تعلق پر زور دیا گیا ہے، لیکن پھر بھی تاریخی حوالے اور واقعات ایسے ہونے چاہیے جو کم از کم آپ کو وہ سوز و گداز اور درد و غم سے کم از کم آشنا تو کروائیں اور اِس کی اہمیت کے بارے میں بتائیں اور دین میں اِس کا کیا مقام ہے اِس بارے میں بتائیں۔

ان بے اثر اور سطحی واقعات اور حوالوں کو پڑھ کر اور سن کر صاحبِ شعور اور صاحبِ محبت لوگوں میں یہ بات ضرور ابھرتی ہے کہ تاریخ کو ری رائٹ کرنے کی ضرورت ہے، اب یہ کام کون کرے گا، اس کے لیے کسی صاحبِ نظر کی ضرورت ہے، صاحبِ فیض کی ضرورت ہے، یہ بے فیض اور بے علم لوگوں کا کام نہیں ہے۔ وہی لوگ اِس کام کو کر سکتے ہیں جن یہ محبت، درد و غم، سوز و گداز، یہ کیفیات وارد ہو چکی ہوں اور وہ اِس کے راز آشنا ہوں۔

حضرت واصف علی واصفؒ نے اپنے وصال سے کچھ دن پہلے واضح طور پر یوں فرمایا تھا کہ ہم نے واپس آ کر اسلامک ہسٹری کو ری رائٹ کرنا ہے اور وہ اپنے نئے اور پرانے عقیدت مندوں کو آج بھی خود ڈیل کر رہے ہیں۔

ایک محفل میں آپ سے کسی نے سوال کیا کہ سر ابھی تو آپ ہمارے سوالوں کے جوابات دے رہے ہیں لیکن آپ کے بعد اِن سوالوں کے جواب کون دے گا لوگ کس کے پاس جائیں گے، تو آپ نے فرمایا کہ اُن کی فکر نہ کریں اُن کو میں خود ڈیل کر لوں گا، تو یہ اسلامی تاریخ کو ری رائٹ کرنے کا عمل ہم نے اور آپ نے کرنا ہے، درویشوں فقیروں کے فیضانِ نظر کے تحت۔

اللہ تعالی آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔

Check Also

Heat Stroke Ya Garmi Ka Hamla

By Muhammad Zeashan Butt