ہماری معیشت اور عوام
پی ٹی آئی حکومت کی 3 سال میں لیا گیا قرضہ مسلم لیگ اور پی پی پی کے 10 سال میں لیے گئے قرض کا 82 فیصد ہے۔ اسی عرصے میں 149 کھرب روپے بڑھ گیا۔
یعنی سرکاری قرضے 399 کھرب روپے تک پہنچ گئے جوکہ حکومت نے یومیہ کے حساب سے 13.6 ارب قرض لیا۔ پاکستان ایک دہائی سے قبل بلکہ موجودہ حکومت کے شروعات میں بھی چینی اور گندم برآمد کرتا تھا مگر اب درآمد کرتا ہے۔
حال ہی میں حکومت نے 2 لاکھ میٹرک ٹن چینی اور 4 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کرنے کی منظوری دے دی ہے، ایل این جی کی بروقت خریداری نہ ہونے سے 25 ارب روپے کا نقصان ہوا جب کہ حکومت کہتی ہے کہ افراط زر میں کمی آگئی ہے، عوام کی قوت خرید میں اضافہ ہوا ہے۔
بہت جلد پاکستان ترقی کی تیز رفتاری کی جانب پیش قدمی کرنے لگے گا وغیرہ وغیرہ۔ ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ ایسا ہو تو سونے پر سہاگہ۔ جہاں تک قرض نہ لینے کا وعدہ اور عوام سے عہد کرنے کے باوجود گزشتہ حکومتوں سے زیادہ قرض لینا نہ صرف وعدہ کی خلاف ورزی ہے بلکہ پہلے کے مقابلے میں زیادہ سامراجی مالیاتی اداروں کی غلامی ہے۔
ہم دس دس لاکھ میٹرک ٹن گندم، چاول، چینی اور کپاس برآمد کرتے تھے۔ اب درآمد کرنے کی کیا وجوہات ہیں؟ کیا یہ پاکستان کی پالیسی ہے یا سامراج اور آئی ایم ایف کے احکامات پر عمل درآمد ہے۔ جینے کے لیے گندم، چاول اور دال ضروری ہے۔ ہمارا ملک زرعی ہے۔
اگر ہم عوام کو سستی گندم، خوردنی تیل، چاول اور سبزی بھی فراہم نہیں کرپاتے تو پھر کس کی خدمت کر رہے ہیں؟ ہم اپنے بجٹ کا دو تہائی آئی ایم ایف اور دفاعی بجٹ پر مختص کرتے ہیں۔ ہر سال گندم، چاول، خوردنی تیل، دودھ اور سبزیوں یعنی زراعت کا بجٹ بڑھانے کے بجائے آئی ایم ایف کے قرضوں اور اس کے سود میں مسلسل اضافہ کرتے جا رہے ہیں۔ جب ہم زرعی پیداوار پر بجٹ ہی زیادہ مختص نہیں کریں گے تو عوام کو سستی خوراک کیونکر فراہم کرسکتے ہیں۔
ایل این جی کی بروقت خریداری نہ ہونے سے 25 ارب روپے کا نقصان ہوا، اگر یہ خریداری بروقت کی جاتی تو ان 25 ارب روپے کے 25 کارخانے قائم کیے جاسکتے تھے اور لاکھ مزدوروں کو روزگار فراہم کیا جاسکتا تھا۔ افراط زر میں کمی ہوتی تو ڈالر 168 روپے کا نہ ہوتا اور قوت خرید بڑھتی تو لوگ ایک پاؤ دال، آدھا کلو دودھ، ایک پاؤ تیل اور آدھا پاؤ ادرک لہسن، یا آدھا کلو پھل نہ خریدتے۔ قوت خرید گھٹنے سے لوگ کم اشیا خریدتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ اکثر نیم فاقہ کشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
قوت مزاحمت کم ہونے سے وہ بیمار پڑتے ہیں اور پھر ڈاکٹروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں، جو اپنی فیس اور پسندیدہ میڈیکل اسٹور سے دوا لینے سے مریضوں کو مجبور کرتے ہیں۔ ادھر وزیر اعظم عمران خان کراچی کا دورہ کرنے کو ہیں، یہاں وہ کراچی سرکلر ریلوے منصوبے کا سنگ بنیاد رکھیں گے، اگر ایسا ہوگیا اور واقعی کراچی میں سرکلر ٹرین بحال ہوگئی تو یہ ایک مثبت قدم ہوگا، مگر دیکھنا یہ ہے کہ منصوبہ اور اعلانات 2002 سے سنتے آ رہے ہیں۔
پہلے تو جاپان سے معاہدہ ہوا تھا اور جاپان کا موقف تھا کہ جنھوں نے ریلوے ٹریک پر مکانات بنا لیے ہیں انھیں حکومت پاکستان زمین دے اور جاپان انھیں مکان بنا کر دے گا، مگر پاکستان کا موقف یہ تھا کہ ہمیں متبادل مکانات بنوانے کے لیے رقوم فراہم کی جائیں۔ جس پر جاپان راضی نہیں ہوا اور اب چین سے معاہدہ کیا گیا ہے مگر جاپان اب بھی مصر ہے کہ ہمارا معاہدہ قائم ہے اور ہم اس پر عمل درآمد کرنے کو تیار ہیں۔ بہرحال کوئی بھی کام کرے اگر سرکلر ٹرین چلنے لگے تو عوام کو فائدہ تو ہوگا ہی ساتھ ساتھ حکومت کو بھی فائدہ ہوگا۔
حال ہی میں ضلع صوابی میں معروف گلوکار کفایت شاہ کو کسی نے مسجد میں نماز کے لیے داخل ہونے کے وقت گولی مار کر ہلاک کردیا۔ اس سے قبل افغانستان میں ساقہ زوان نامی ایک معروف افغان گلوکار کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔
ایسا لگتا ہے کہ افغانستان کے اثرات یہاں بھی شروع ہوگئے ہیں۔ سندھ کی حکومت کی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے بلدیہ ٹاؤن اور مہران ٹاؤن میں سیکڑوں مزدور جھلس کر اور دم گھٹ کر شہید ہوئے، حیران کن بات ہے کہ مہران ٹاؤن کے فیکٹری کے مالک کو ضمانت پر رہائی مل گئی ہے، مگر سندھ حکومت نے ایک اچھا کام یہ کیا ہے کہ کسانوں کے لیے 3 شہروں میں ریڈیو نشریات کا آغاز کردیا ہے جن میں حیدرآباد، لاڑکانہ اور خیرپور شامل ہیں۔
کمشنر کراچی کی جانب سے کراچی میں کسی قسم کی وال چاکنگ و دیواروں پر لکھنے پر پابندی لگا کر شہریوں اور محنت کش عوام کی اظہار رائے پر پابندی عائد کی گئی ہے، یہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ محنت کشوں اور شہریوں کے لیے دیواروں پر اظہار رائے کرنے کے علاوہ اور کوئی آسان راستہ نہیں رہ جاتا۔ اس پر بھی قدغن لگا کر آزادی رائے کا گلا گھوٹنا ایک جبر ہے۔ 2013 میں لیاری سے طاہر نامی 19 سالہ نوجوان کے لاپتہ ہونے پر سندھ ہائی کورٹ نے ریمارکس میں بتایا کہ اگر اس پر کسی جرم کا مقدمہ ہے تو عدالت میں پیش کرکے بتایا جائے۔
طاہر کے والد نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس کا بیٹا زندہ ہے بھی یا نہیں ہمیں بتایا جائے۔ سندھ ہائی کورٹ میں ندیم ایڈوکیٹ اور مائیکل ایڈووکیٹ نے مہران ٹاؤن کی فیکٹری میں 16 مزدور جھلس کر ہلاک ہونے پر جو درخواست دائر کی ہے۔
اس کی سماعت پر جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سے پوچھا کہ اس آتش زدگی کا ذمے دار کون ہے، جس پر مزدوروں کے وکلا نے کہا کہ مزدور چھت پر جانے کے لیے دوڑے تو دروازے پر تالا لگا ہوا تھا، جس پر مسٹر جسٹس نے متعلقہ فریقین کو آیندہ پیشی پر پوری تیاری کرکے آنے کا حکم صادر کیا، اگر چوکیدار چابی دے دیتا اور فائر بریگیڈ شروع میں ہی دیوار توڑ دیتی تو شاید مزدور بچ نکلتے۔
رواں سال خواتین سے زیادتی کے 369 مقدمات میں کسی کو اب تک سزا نہیں ہوئی۔ ناقص تفتیش، ڈی این اے کے عمل میں سستی اور میڈیکل میں تاخیر کی وجہ سے ملزمان کو سزا نہ ہوسکی۔ ان میں صرف 12 مقدمات چلے جس میں ساہیوال موٹر وے کے مقدمے میں مجرم کو سزا ہوئی۔ ویسے تو ہر روز پاکستان میں 3/4 خواتین اور لڑکیوں سے زیادتی، اغوا، تیزاب گردی اور قتل کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بے شمار ایسے واقعات ہیں جس کی رپورٹنگ ہی نہیں ہوتی یہ ساری برائی طبقاتی نظام کی دین ہے۔ اس طبقاتی نظام کو اکھاڑ پھینکے بغیر امن قائم نہیں ہو سکتا ہے۔