وائرس کی سرحد نہیں ہوتی
کورونا وائرس سے بچاؤکے لیے ہنگامی اقدامات لینے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ کوئی بہتر قدم جب بھی اٹھایا جائے اس کی تعریف کی جانی چاہیے۔ یہ کام وفاقی حکومت کو اس وقت کر لینا چاہیے تھا جب چین سے کورونا وائرس کے پھیلنے کی خبر آئی تھی یا پھر اس وقت تو یہ اقدامات ہر صورت میں کرلیے جانے چاہیے تھے جب پاکستان میں اس وائرس میں مبتلا پہلے مریض کی نشاندہی ہوئی تھی۔
اس ضمن میں سندھ حکومت اور اس کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کی تعریف کرنی ہوگی جس نے شروع سے ہی ہنگامی اقدامات شروع کردیے تھے لیکن یہ وبا چونکہ پوری دنیا میں پھیل رہی تھی لہٰذا ہمارے ملک میں بھی قومی سطح پر فوری نوعیت کی ہنگامی کارروائیوں کی شدید ضرورت تھی۔
تاہم، 13 مارچ کو قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں چند اہم فیصلوں کا اعلان کیا گیا، جس کے مطابق مغربی سرحدیں، شادی ہالز، سینما گھر، ملک کے اسکول اور تعلیمی ادارے بند کردیے گئے ہیں، اجتماعات پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں یا انھیں محدود کیا جا رہا ہے۔
اس وقت مناسب نہیں کہ حکومت پر اس حوالے سے کوئی تنقید کی جائے لیکن اس امر کی جانب اشارہ ضرورکیا جانا چاہیے کہ موجودہ وفاقی حکومت، حزب اختلاف کے خلاف کارروائی کرنے میں غیر معمولی تیزی کا مظاہرہ کرتی ہے لیکن معاشی اور انتظامی معاملات میں وہ کوئی فیصلہ صرف اس وقت کرتی ہے جب پانی سر سے گزرنے لگتا ہے۔ بہرحال امید کی جانی چاہیے کہ مستقبل میں اس نوعیت کے انتظامی اور ہنگامی اقدامات کے لیے قومی سلامتی کے مزید اجلاس طلب نہیں کرنے پڑیں گے۔
21 ویں صدی سے پہلے دنیا میں ہیضے، طاعون اور چیچک سے کروڑوں افراد ہلاک ہوئے تھے بالخصوص چیچک کی وبا سے صرف گزشتہ صدی میں 30 کروڑ انسان ہلاک ہوئے تھے، بعد ازاں، یہ بیماریاں تو ختم ہوگئیں لیکن اس کی جگہ ایڈز اورفلو جیسی بیماریاں سامنے آگئیں۔ ایڈز سے 2005سے 2012کے درمیان 3کروڑ 60 لاکھ لوگ ہلاک ہوئے جب کہ 1968 میں فلوکی وبا نے 50 کروڑ لوگوں کو متاثر اور 10 لاکھ کو موت کی نیند سلا دیا تھا، اس وقت دنیا کی آبادی 2 ارب سے کم تھی۔ اب ان وباؤں پر بڑی حد تک قابو پایا جا چکا ہے لیکن 21 ویں صدی میں، کورونا نامی وائرس سے دنیا کو پھر ایک نئی وبا کا سامنا ہے جس کا آغاز چین سے ہوا ہے۔
چین میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کوکسی حد تک روکنے میں کامیابی ضرور حاصل ہوئی لیکن اب یہ وبا چین سے نکل کر دنیا کے 150 سے زیادہ ملکوں میں پھیل چکی ہے جس میں آج کی تاریخ تک 6500 لوگ زندگی سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ دنیا میں اس مہلک وبا کو روکنے کے لیے جو اقدامات کیے جا رہے ہیں، ان کی تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس حوالے سے پل پل کی خبریں آپ تک پہنچ رہی ہیں۔
اس وبائی مرض پر جلد یا بدیر یقینا قابو پا لیا جائے گا لیکن اس وائرس سے دنیا کو جو معاشی نقصان پہنچا ہے اس کی تلافی میں خاصا وقت لگے گا۔ مزید برآں، اس وائرس نے جانی مالی نقصان پہنچانے کے علاوہ دنیا کو چند اہم پیغامات بھی دیے ہیں جن کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ سب سے پہلے کورونا وائرس کی وجہ سے عالمی سطح پر ہونے والے معاشی نقصان کا ایک سرسری جائزہ لیناضروری ہے۔ فوربزکی تازہ ترین رپورٹ یہ ہے کہ صرف ایک دن کے اندر دنیا کے 20 ارب پتی لوگوں کو 78 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ 1987 میں بلیک سنڈے کے نقصانات کے بعد اسٹاک مارکیٹس میں کسی ایک دن میں آنے والی یہ بد ترین مندی ہے اور خطرہ یہ ہے کہ دنیا 2008 کے مالیاتی کریش جیسی صورت حال سے دوبارہ دوچار ہو سکتی ہے۔
عالمی معیشت میں ترقی کی شرح اس سال 2009 کے بعد سب سے کم رہے گی، جس کا مطلب یہ ہے کہ معیشت کے ہر شعبے کی ترقی متاثر ہوگی۔ سفری اور ذرایع نقل وحمل کی پابندیوں سے ہر ملک کی معیشت پر منفی اثر پڑے گا۔ چین اس وقت دنیا میں مصنوعات تیار کرنے والا تیسرا اور مصنوعات برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور عالمی جی ڈی پی میں اس کا حصہ 19% ہے۔ دنیا کی بڑی کمپنیوں کی مصنوعات چین میں تیار ہوتی ہیں، معاشی تعطل کی وجہ سے ان کمپنیوں کوغیر معمولی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔
پاکستان اور چین کے درمیان کافی گہرے تجارتی تعلقات قائم ہیں۔ 2012 کے بعد سے چین، امریکا کو پیچھے چھوڑکر پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر بن چکا ہے۔ اس وقت پاکستان چین کو 1.9 ارب ڈالر کی اشیاء برآمد کرتا ہے جب کہ چین سے درآمدات کی مالیت 10.2 ارب ڈالر ہے۔ پاکستان، چین سے معدنیات، کیمیکل فرٹالائزر، الیکٹرانک مصنوعات، سیمی کنڈکٹر، موبائل فون اور بڑی مقدار میں صنعتی خام مال، مشنری اور کیمیکلز درآمد کرتا ہے۔
ان اشیاء کی درآمدات میں کمی واقع ہونے سے پاکستان کا صنعتی اور کاروباری شعبہ متاثر ہو گا۔ عالمی سطح پر بین الاقوامی تجارت میں گراوٹ کا نقصان بھی پاکستان کو اٹھانا پڑے گا۔ پاکستان کی برآمدات کا انحصارکاٹن اور ٹیکسٹائل مصنوعات پر ہے جب کہ وہ پیٹرولیم مصنوعات، کیمیکلز، کھاد، صنعتی مشینری، صنعتی خام مال اور عام صارف کے استعمال کی اشیاء درآمد کرتا ہے۔ ملک اس وقت مشکل معاشی صورتحال سے دوچار ہے، روپے کی قدر میں 33% کمی کے باوجود اس سال برآمدات میں صرف 354 ملین ڈالرکا اضافہ ہو سکا ہے۔ اس پس منظر میں خدشہ یہی ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے عالمی سطح پر معاشی سست روی پاکستان پر بھی اثر انداز ہوگی اور آیندہ آنے والا وقت معیشت، عوام اور حکومت تینوں کے لیے زیادہ مشکل ثابت ہوگا۔
کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا کو بڑا معاشی نقصان اٹھانا پڑا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اس وبا سے دنیا کے ملکوں کو یہ پیغام بھی ملا ہے کہ وہ اپنے محدود مفادات سے بالاتر ہو کر سوچنا اور عمل کرنا شروع کریں۔ وہ اس حقیقت کو جان لیں کہ اب کرۂ ارض ایک عالمی گاؤں بن چکا ہے لہٰذا اگر دنیا کے کسی بھی کونے میں کوئی نیا وبائی مرض یا وائرس پیدا ہوگا تو پوری دنیا اس کی لپیٹ میں آجائے گی جیسا کہ اس وقت کورونا وائرس کے باعث ہورہا ہے۔ آج کوئی بھی ملک دنیا سے الگ تھلگ رہ کر نہ ترقی کر سکتا ہے اور نہ کسی بحران پر قابو پاسکتا ہے۔ ایک اچھی خبر بھی آئی ہے کہ سارک ممالک نے اس مہلک وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے باہمی تعاون کا آغازکر دیا ہے۔
کورونا نے دنیا کو آج بڑی شدت سے یہ احساس دلایا ہے کہ وائرس کی کوئی سرحد نہیں ہوتی لہٰذا یہ نہ سوچا جائے کہ یہ یا اس نوعیت کی کوئی بھی وبا کسی ایک ملک تک محدود رہے گی۔ اگر سب ملکوں کو محفوظ رہنا ہے تو انھیں آپس کی دشمنیاں اور تلخیاں بھلا کر ایک دوسرے سے تعاون کرنا پڑے گا۔ ایک خوش آیند خبر یہ ہے کہ ایران کے حکام کورونا وائرس کی اس ویکسین کو استعمال کرنے لیے تیار ہیں جو امکانی طور پر جلد ہی اسرائیل کی جانب سے متعارف کرائی جا سکتی ہے۔
گویا کورونا دائمی دشمن کے پرانے تصور کو بھی ختم کررہا ہے۔ اب کوئی ملک کسی دوسرے ملک کو تباہ کرنے کا تصور تک نہیں کرسکتا کیونکہ 21 ویں صدی ایک دوسرے پر انحصار اور بقائے باہمی کی صدی ہے۔ سازشی مفروضوں کا وقت گزر چکا۔ اب امریکا اور چین ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں، دونوں ایک دوسرے کے سب سے بڑے تجارتی پارٹنر ہیں اور دونوں ملکوں نے آپس میں کھربوں ڈالرکی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ ایک کی تباہی دوسری کی تباہی اور دنیا کی ان دو سب سے بڑی معیشتوں کی تباہی عالمی معیشت کی تباہی ثابت ہو گی۔ لہٰذا نہ ایسا ہو گا، نہ کوئی ایسا ہونے دے گا۔
کورونا سے دنیا کو یہ پیغام ملا ہے کہ وائرس کی کوئی سرحد نہیں ہوتی، انسان آپس میں مل کر ہی اس کو ختم کر سکتے ہیں۔