مزاحمت کی درخشاں تاریخ
نوآبادیاتی طاقتوں نے سترہویں صدی سے رفتہ رفتہ برصغیر پر قبضہ کرنا شروع کیا۔ وہ کام جو پہلے تجارت کے پردے میں شروع ہوا تھا، آخرکار سقوط مملکت پر اختتام پذیر ہوا۔
1757 سے ہی ہندوستانی قوم پرستوں نے پرتگیزیوں، ولندیزیوں، فرانسیسیوں اور آخر کار برطانوی قابضین سے جم جم کر لڑائی لڑی، ان کی مزاحمت کی تاریخ پڑھیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ آج اگر ہم آزادی کی فضا میں سانس لے رہے ہیں تو اس کا سبب وہ ان گنت گم نام شہید ہیں جو اس راہ میں قربان ہو گئے۔ چند دن پہلے ایک سیمینار میں جانے کا اتفاق ہوا جس کا موضوع تھا "مزاحمت کا سماج کو آگے بڑھانے میں کیا کردار ہے؟"
سچ پوچھیے تو کسی بھی سماج کو آگے بڑھانے میں اصل کردار اس کے لوگوں کی مزاحمت کا ہوتا ہے۔ مزاحم ہونے والے جس قدر مقاومت کا مظاہرہ کرتے ہیں، اسی قدر کوئی سماج آگے بڑھتا ہے اور لوگوں کو اپنے حالات بدلنے کی ترغیب دیتا ہے۔
اگر ہم مزاحمت کی تاریخ پر ایک نگاہ ڈالیں تو ایک بالکل سامنے کا نام یونانی ڈراما نویس سوفو کلینر کا ہے۔ جس نے کئی صدی قبل مسیح " اینٹی گنی" کا کردار تخلیق کیا۔ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی وہ لڑکی جو نازونعم میں پلی بڑھی، اس کا رشتہ بادشاہ وقت کے بیٹے یعنی ولی عہد سے طے ہے۔ تقدیر اسے ایک ایسے موڑ پر لے آتی ہے جہاں اس کے دونوں سگے بھائی آپس میں لڑتے ہوئے مارے جاتے ہیں۔
بادشاہ کے حکم پر ایک بھائی کو سرکاری اعزاز کے ساتھ دفن کیا جاتا ہے اور دوسرے بھائی کے لیے بادشاہ وقت کا حکم ہے کہ اس کی خاک بہ سر لاش میدان جنگ سے اٹھائی نہ جائے۔ اسے گدھ نوچیں اورگیدڑ کھائیں۔ اس لیے کہ یہ ایک غدار کی لاش ہے۔ اسے دفن کرنے کی کوشش کرنیوالا بھی غدار سمجھا جائے گا اور اس کی سزا بھی موت ہو گی۔ اینٹی گنی اپنے بھائیوں کے انجام سے بہت آزردہ اور دل گرفتہ ہے لیکن جب اسے دونوں بھائیوں کی لاشوں کے ساتھ ہونے و الے برتائوکا علم ہوتا ہے تو وہ بے قرار ہو جاتی ہے۔
تہیہ کرتی ہے کہ وہ اپنے بھائی کی لاش کی بے حرمتی نہیں ہونے دے گی۔ وہ تن تنہا بھائی کو دفن کرتی ہے اور بادشاہ کا عتاب اس پر نازل ہوتا ہے۔ وہ موت کی حقدار ٹھہرتی ہے، اس کا منگیتر اور بادشاہ کا اکلوتا بیٹا اینٹی گنی کی ہلاکت کا صدمہ برداشت نہیں کر سکتا اور خود کشی کر لیتا ہے۔
المیہ نگاری کا ایک بے مثال قصہ، اس ڈرامے کو لکھتے ہوئے ہو سکتا ہے کہ سوفوکلینر کے ذہن میں پرومی تھیسس کا اساطیری کردار رہا ہو جس نے رب الارباب زیوس کی حکم عدولی کی تھی، کمزور اور مجبور انسان کو آگ جلانا، لکھنا پڑھنا سکھایا اور دنیا کے کئی علوم سے آگاہ کیا تھا، اسی جرم کی سزا میں وہ 30 ہزار برس تک دو چٹانوں کے درمیان زنجیروں سے باندھ دیا گیا۔ دن بھر ایک گدھ اس کا کلیجہ نوچتا اور چباتا، رات میں شبنم اس کے زخموں پر مرہم بن کر برستی اور یوں حکم عدولی کی سزا پرومی تھیسس نے تیس ہزار برس بھگتی۔
یہی کہانیاں تھیں جنہوں نے 400 صدی میں اسکندریہ کی نو فلاطونی فلسفی ایک بے دین، ذہین اور حسین ہائی پاشیا کو آزادانہ سوچنے پر مجبور کیا اور نتیجے میں وہ اپنے مسیحی شاگردوں کے ہاتھوں سنگسار کی گئی۔ لاش اس کی گلیوں میں گھسیٹی گئی، وہ جو ریاضی دان اور سائنسدان تھی، جس نے اصطرلاب اور ہائیڈرو میٹر ایجاد کیا تھا۔ جس کے دور کے نامی گرامی فلسفی اس کے سامنے زانوئے ادب تہہ کرتے تھے وہ اپنے جوشیلے شاگردوں کے ہاتھوں خاک میں ملا دی گئی۔
یہ وہی تھی جس نے کچھ اور دیوانوں کو سماج کے نئے اور مشکل راستوں پر چلنے کی توفیق دی۔ یہ چین کا لائی سیون تھا جس نے عیسوی دور کے ابتدائی برسوں میں کاغذ ایجاد کیا، اسے انعام و اکرام سے نوازا گیا۔ لیکن پھر شہنشاہ مکرم کسی بات پر ناراض ہوئے تو لائی سیون نے نہایت اہتمام سے خود کشی کر لی۔ اس کے خیال میں یہی عزت کا راستہ تھا۔ یہ سب وہ لوگ تھے جو سماج کی ترقی میں روڑے اٹکانے والوں کی راہ میں سینہ سپر ہو رہے تھے اور اپنے اپنے طور پر انسانوں کو ایک بہتر سماج کی طرف لے جا رہے تھے۔
ہم لکھنے والے قلم سے مزاحمت کرتے ہیں اور سماج کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ اس سے کہیں زیادہ اہم یہ بات ہے کہ لکھی ہوئی بات لوگوں تک پہنچ سکے اور انھیں سوچنے پر مجبور کر سکے۔ اس حوالے سے ایک بڑا نام جون ٹوین کا ہے۔
سوچیں تو سہی کہ اگر جون ٹوین نہ ہوتا۔ جان ہتھیلی پر رکھ کر اس نے شاندار مزاحمت نہ کی ہوتی تو آج ہماری آزادی تحریرکہاں ہوتی۔ گھر بار اس کا بھی تھا۔ بچے اس کے بھی تھے، غربت اس کے دروازے پر بھی کنڈلی مارے بیٹھی تھی لیکن اس نے آزادی تحریرکی راہ میں اپنی جان سے مزاحمت کی اس کا سر نشان عبرت بنا رہا، اس کے بدن کے چار ٹکڑوں نے لندن کے پرندوں کی بھوک مٹائی لیکن ٹوین کے لبوں پر بادشاہ کی ناپسندیدہ کتاب لکھنے والے کا نام نہ آیا تھا۔
اس حوالے سے دیکھیے تو مسلم سماج بہت سست رفتاری سے آگے بڑھا ہے۔ اس کے راستے میں شہنشاہوں کی خواہشوں کے جنگل اور فقہیوں کے فتوئوں کے پہاڑ کھڑے رہے۔ حسینؓ ابن علیؓ، امام ابو حنفیہؒ، امام حنبلؒ، امام مالکؒ، منصور حلاج، رازی اور ابن رشد، شیخ مقتول، حضرت شہاب الدین سہروردی، کون تھا جو اپنے افکار و خیالات کی وجہ سے جا ن سے نہیں گیا یا اس نے سالہاسال کی قید وبند نہ کاٹی۔
یہ مغربی سماج کی خوش بختی ہے کہ وہاں مزاحمت کرنے والے صف در صف تھے۔ اسی مزاحمت نے انھیں مستقل جدوجہد اور مقاومت میں رکھا۔ سب سے اہم بات یہ ہوئی کہ ان کے سماج نے بادشاہت کو لپیٹ کر ایک طرف رکھتے ہوئے، جمہوریت، مارکسزم، سوشل ازم اور جانے کون کون سے معاملات اٹھا لیے۔ نتیجہ اس کا یہ ہے کہ وہ ٹرمپ جیسے رجعت پسندوں کو بھگتنے کے باوجود آگے بڑھ رہے ہیں۔ مریخ پر اپنا خلائی جہاز اتار رہے ہیں اور ہم مفتی منیب اور مفتی پوپلزئی کے سامنے سر جھکائے کھڑے ہیں۔
مزاحمت کا معاملہ ہمارے خیالات، رویوں اور رجحانات سے جڑا ہوا ہے اور اس سے بھی کہ ہم مزاحمت کی راہ میں کتنی قربانیاں دے سکتے ہیں۔ آج کے دور میں ہم میں سے کتنے ولی بابر، سلیم شہزاد، مشال خان، شکیل اوج اور ظفر عارف بن سکتے ہیں یا نہیں۔ ہم خاموشی کو راہ نجات خیال کرتے ہیں جب کہ سماج کے ارتقا کی راہ میں چپ رہنا سب سے بڑا گناہ ہے۔
اس حوالے سے دیکھیے تو اپنے سندھ کی وہ تاریخ یاد آتی ہے جو بہت پرانی نہیں ہے لیکن ہم میں سے بہت لوگ اسے فراموش کر چکے ہیں۔ اس بات پر سندھ اسمبلی داد کی حقدار ہے کہ اس نے متفقہ طور پر 1983 کی بحالی جمہوریت، یعنی ایم آر ڈی کی تحریک میں جان سے جانے والے گمنام دیہاتیوں کو خراج عقیدت ادا کیا۔ یہ وہ 16 لوگ تھے جنہوں نے ضیاء الحق کی فاشسٹ حکومت کے خلاف چلنے والے گیارہ سیاسی جماعتوں کے اتحاد کا ساتھ دیا تھا۔ یہ تحریک جو 14 اگست 1983 سے چل رہی تھی اور جس کا انجام یکم اکتوبر 1983 کو نواب شاہ کے دیہات پنھل خان چانڈیو (آج کا ضلع بے نظیر آباد) میں 14 افراد کے قتل کے طور پر سامنے آیا۔
یہ ان جیالے اور جیوٹ افراد کا سیاسی شعور تھا جس نے انھیں جمہوریت کی بحالی کے لیے جان سے گزر جانے کی ترغیب دی۔ ایم آر ڈی کی تحریک چاروں صوبوں میں چلی تھی اور اس میں سب سے شاندار نذرانہ سندھ میں پنھل خان چانڈیو کے دیہاتیوں نے دیا تھا۔ تاریخ کے مطالعے سے یہ بات طے ہے کہ ظلم و جبر کے خلاف جس سماج نے جتنی زیادہ مزاحمت کی وہ ملک اور سماج آج دنیا کے سب سے زیادہ جمہوری اور روشن خیال ملک ہیں۔