Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Zahida Hina/
  3. Insan Bhooka Reh Sakta Hai Ghulam Nahi

Insan Bhooka Reh Sakta Hai Ghulam Nahi

انسان بھوکا رہ سکتا ہے غلام نہیں !

ایک زمانہ تھا جب یہ کہا جاتا تھا کہ مشکلیں بہت زیادہ پڑیں تو آسان ہو جاتی ہیں، اس کا مفہوم یہ ہوتا تھا کہ انسان مشکلوں کا اس قدر عادی ہو جاتا ہے کہ وہ اس کے لیے بے اثر ہوجاتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہیں کہ وہ اسے اپنی قسمت کا لکھا سمجھ کر صبرکر لیتا ہے۔

انفرادی طور پر یہ بات شاید کسی حد تک درست ہوسکتی ہے لیکن اجتماعی سطح پر ایسا نہیں ہوتا۔ جب قومیں، ملک یا گروہ شدید مسائل کا شکار ہوتے ہیں اور لوگوں کو بحران سے باہر نکلنے کی کوئی راہ نظر نہیں آتی تو وہ پریشان ہوکر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اورگھروں سے باہر نکل کر اپنا رد عمل ظاہر کرنا شروع کردیتے ہیں۔ انسانی تاریخ بالخصوص جدید تاریخ میں غیر معمولی عوامی رد عمل کی ایک دو نہیں بلکہ سیکڑوں مثالیں ملتی ہیں۔

یہ بات انسان کی جبلت میں شامل ہے کہ وہ غلام نہیں رہ سکتا، اس کے جسم اور ذہن کو جبر، طاقت اور تشدد کے ذریعے اپنا تابع نہیں بنایا جاسکتا۔ اسی تناظر میں یہ کہا گیا ہے کہ انسان بھوکا رہ سکتا ہے غلام نہیں۔ بھوک اور غربت کے ستائے لوگوں نے انقلاب برپا کیے، ان کا اصل مقصد جبر اور غلامی سے نجات حاصل کرنا تھا کیونکہ انھیں یہ معلوم تھا کہ اگر انھیں آزادی مل جائے اور ایک بار اختیار ان کے ہاتھوں میں آجائے تو وہ جلد یا بتدریج، اپنی سماجی و معاشی پسماندگی سے بھی نجات حاصل کرلیں گے۔

صنعتی انقلاب کے بعد جب یورپ کے صنعتی ملکوں نے ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا کے ملکوں کو اپنا غلام بنایا اور ان کا استحصال شروع کیا تو ابتدا میں انھیں بہت زیادہ مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اس کی کئی وجوہ تھیں ایک تو یہ کہ استعماری طاقتیں فوجی اور معاشی طور پر بہت زیادہ طاقتور تھیں اور ان کا مقابلہ کرنا آسان نہیں تھا۔

دوسری اہم وجہ یہ تھی کہ مغرب کے استعماری ملکوں نے دنیا کے جن ملکوں کو اپنا غلام بنایا تھا وہاں کے لوگ پہلے سے ہی غلاموں جیسی زندگی گزار رہے تھے، لہٰذا آقاؤں کی تبدیلی پر ان کی طرف سے کوئی فوری مزاحمت نہیں کی گئی، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ لوگوں کو یہ احساس ہونے لگا کہ پرانے آقا ان کے نئے آقاؤں سے بہتر تھے کیونکہ وہ خود ان میں ہی سے تھے اور اتنی ہی لوٹ مار کرتے تھے جتنی ان کی ضرورت ہوا کرتی تھی، وہ اپنی رعایا کی زندگی میں کم دخل دیا کرتے تھے یعنی انھیں اپنے رسم و رواج اور طور طریقوں کے مطابق زندگی بسر کرنے کی آزادی ہوتی تھی۔ نوآبادیاتی نظام نے یہ صورتحال ختم کردی۔ استعماری ملکوں نے غلام ملکوں کا بدترین استحصال کیا اور اپنی نوآبادیوں کی دولت پر قبضہ کرکے خود کو معاشی طور پر مزید طاقتور بنا لیا۔

غلام ملکوں کے عوام استعماری لوٹ مار کے نتیجے میں بد ترین افلاس کا شکارہوئے اور بھوک، قحط اور بیماریوں سے لاکھوں نہیں کروڑوں انسان لقمہ اجل بن گئے بالآخر وہ لمحہ آگیا جب انھوں نے غلامی کے خلاف بغاوت کا علم بلند کردیا۔ لوگوں نے بلاشبہ یہ بغاوت بھوک، قحط اور بیماریوں سے تنگ آکر کی تھی لیکن ان کا پہلا ہدف نوآبادیاتی آقاؤں کی غلامی سے نجات حاصل کرنا تھا۔ انھیں اچھی طرح علم تھا کہ غیر ملکی تسلط سے آزادی اور اپنے بنیادی انسانی و جمہوری حقوق حاصل کیے بغیر وہ کسی بھی طرح غربت، جہالت، پسماندگی سے نجات حاصل نہیں کرسکیں گے۔ اس صورتحال کے پس منظر میں ہم 20 ویں صدی کو آزادی اور انقلاب کی صدی کہتے ہیں۔

اس صدی کے دوران قومی آزادی کی تحریکوں نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ سیاسی کارکنوں، آزادی کے متوالوں، انقلابیوں، دانش وروں، مزدوروں، کسانوں، تاجروں اور چھوٹے کاروبار کرنے والوں نے آزادی کی تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں شاندار ادب تخلیق ہوا، عزم، جرات اور قربانیوں کی لازوال داستانیں رقم ہوئیں اور پھر ایک کے بعد دوسرا ملک غلامی کی زنجیروں سے آزاد ہونے لگا۔ یورپ کے چند ملک جنھوں نے تقریباً پوری دنیا کو اپنا غلام بنایا ہوا تھا، لوگ ان کے خوف سے کانپا کرتے تھے اور دنیا پر ان کی دہشت راج کرتی تھی۔ کوئی یہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ وہ وقت بھی کبھی آئے گا جب نہتے اور بے بس عوام آزادی کی ایک ایسی تحریک شروع کریں گے جس کے سامنے یہ خوفناک استعماری ملک بھی ڈھیر ہوجائیں گے۔

صدیوں سے مسلط بادشاہتوں اور اس کے بعد سامراجی ملکوں کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کے بعد نو آزاد ملکوں پر ایک نیا عذاب مسلط ہوگیا، یہ آمریت اور شخصی حکومتوں کا عذاب تھا۔ ان آمریتوں نے اپنے عوام کے خلاف بادشاہوں اور سامراجی ملکوں سے بھی کہیں زیادہ ظلم اور بربریت کا ارتکاب کیا۔ نو آبادیاتی ملکوں کے محکوم عوام نے اس امید پر غیر ملکی آقاؤں سے نجات حاصل کی تھی کہ آزادی کے بعد انھیں اس کے ثمرات میسر آئیں گے۔ انھیں بولنے، لکھنے اور رائے کے اظہارکی آزادی اور جمہوری حقوق ملیں گے وہ اپنی مرضی کی حکومت کا انتخاب کرسکیں گے، اپنے نمایندے چنیں گے جو ان کے سامنے جوابدہ ہوں گے، پارلیمنٹ بالادست ہوگی، عدالتیں آزاد ہوں گی، ان کے بنیادی انسانی حقوق کی حفاظت کریں گی اور غیر جمہوری عناصرکو موقع نہیں دیں گی کہ وہ شہریوں کو آزادی کے ثمرات سے محروم کر سکیں۔

انھیں امید تھی کہ ریاست ان کے ساتھ ماں جیسا سلوک کرے گی، انھیں ظلم و بربریت کا نشانہ بنانے کے بجائے صبر وتحمل کا رویہ اپنائے گی، ایک فلاحی جمہوری معاشرہ ان کا منتظر ہوگا جہاں ہر شہری کے ساتھ یکساں سلوک روا رکھا جائے گا۔ رنگ، نسل، مذہب یا قومیت کی بنیاد پر کسی سے امتیاز نہیں ہو گا، قانون کی نظر میں ہر شہری یکساں ہوگا، انصاف سستا اور فوری ملے گا اور وہ ایک آزاد ملک میں سکون سے زندگی گزار سکیں گے۔

استعمار سے آزادی کے بعد زیادہ تر نو آزاد ملکوں کے عوام کی یہ امیدیں اور امنگیں پوری نہ ہوسکیں۔ ان پر ایسی آمریتیں مسلط ہوگئیں جنھوں نے ان کے تمام خواب چکنا چورکر دیے۔ قومی آزادی کی جنگ میں آگ اور خون کا دریا پارکرنے کے بعد انھیں ایک اور بھیانک دریا کا سامنا تھا۔ 20 ویں صدی جسے ہم غلامی سے آزادی اور خوابوں کی صدی کہتے ہیں آخری نصف دہائیوں کے دوران لوگوں کو اپنے ملکوں کے سفاک آمروں کے ہاتھوں بے پناہ مظالم برداشت کرنے پڑے۔

ان ہی آمر اور فاشسٹ حکمرانوں کی وجہ سے دنیا میں دوسری عالمی جنگ شروع ہوئی، جس میں کم ازکم چھ کروڑ فوجی اور شہری براہ راست طور پر ہلاک ہوئے جب کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس جنگ کے باعث ہونے والی بیماریوں اور قحط کی وجہ سے 2 کروڑ انسان مزید ہلاک ہوئے۔ اگریہ آمر اور فاشسٹ حکومتیں نہ ہوتیں تو اتنے زیادہ لوگوں کو اپنی جانوں سے محروم نہ ہونا پڑتا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جس کا علم شاید زیادہ لوگوں کو نہیں کہ تاریخ میں آج تک دو جمہوری ریاستوں کے درمیان کبھی جنگ نہیں ہوئی۔ دوسری عالمی جنگ کے 40 سال بعد تک ترقی پذیر دنیا کے ملکوں میں قائم آمرانہ حکومتوں نے لاکھوں انسانوں کو محض اس مطالبے اور خواہش پر موت کے گھاٹ اتار دیا کہ جس آزادی کے لیے بیرونی آقاؤں سے نجات حاصل کی تھی وہ آزادی انھیں حاصل ہونی چاہیے۔

سرد جنگ ختم ہوئی اور اس کے ساتھ آمرانہ حکومتوں کے خاتمے کا بھی آغاز ہوگیا، دنیا میں جگہ جگہ جمہوری انقلاب برپا ہونے لگے اور لوگ طویل مدت سے قائم آمر حکومتوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ حقوق اور آزادی کی جدوجہد دوبارہ شروع ہوگئی اور عوام بالآخر فتح یاب ہونے لگے۔

آج دنیا کے زیادہ تر ملک جمہوری تجربے کے عمل سے گزررہے ہیں۔ 20 ویں صدی کے اختتام تک یہ امر اب طے ہوگیا ہے کہ 21 ویں صدی غلامی کی نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں آزادی اور جمہوریت کی صدی ہوگی۔ مشکل یہ ہے کہ ایشیا کے بہت سے ملکوں کی آمرانہ حکومتوں نے اس تاریخی صداقت کو سمجھنے میں دیر کردی جس کے نتیجے میں کئی ملکوں کو خانہ جنگیوں کا شکار ہونا پڑا۔ مشرق وسطیٰ کے کئی آمروں نے پیچھے ہٹنے اور جمہوریت کو راستہ دینے سے انکار کیا اور ان ملکوں میں ہولناک خانہ جنگی برپا ہوئی جس میں 15 سال کے دوران 20 لاکھ افراد ہلاک ہوگئے۔

تیسری دنیا کے جن ملکوں میں آج بھی آمرانہ نظام کسی نہ کسی شکل یا انداز میں موجود ہے وہ اپنی معاشی تباہی اور عوام کوجمہوری حقوق نہ دینے اور اس کے نتیجے میں ابھرنے والے سیاسی بحران کے باعث کسی بھی وقت خانہ جنگی کا شکار ہوسکتے ہیں۔ اس کی تازہ مثالیں ہم سب کے سامنے ہیں، لہٰذا یہ کلیہ کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ انسان بھوکا تو رہ سکتا ہے لیکن وہ غلام رہنے کے لیے تیار نہیں ہو سکتا۔ اس لیے اگر کسی بڑے بحران سے بچنا ہے تو جمہوریت کو راستہ دینا ہوگا۔

About Zahida Hina

Zahida Hina is a noted Urdu columnist, essayist, short story writer, novelist and dramatist from Pakistan.

Zahida was born in the Sasaram town of Bihar, India. After the partition of India, her father, Muhammad Abul Khair, emigrated to Pakistan and settled in Karachi, where Zahida was brought up and educated. She wrote her first story when she was nine years old. She graduated from University of Karachi, and her first essay was published in the monthly Insha in 1962. She chose journalism as a career in mid 60s. In 1970, she married the well-known poet Jon Elia. Zahida Hina was associated with the daily Jang from 1988 until 2005, when she moved to the Daily Express, Pakistan. She now lives in Karachi. Hina has also worked for Radio Pakistan, BBC Urdu and Voice of America.

Since 2006, she has written a weekly column, Pakistan Diary in Rasrang, the Sunday magazine of India's largest read Hindi newspaper, Dainik Bhaskar.

Check Also

Balay

By Mubashir Ali Zaidi