ڈیڑھ صدی کا قصہ (1)
ناول کیا ہے؟
کسی تنہا انسان سے پوچھیے تو دل لگانے اور بہلانے کا سب سے خوبصورت ذریعہ۔ ناول کا پہلا صفحہ کھولیے اور انسانوں کی زندگی میں اترتے چلے جایے۔ کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں، کوئی نہ جھڑکے گا، نہ آنکھیں دکھائے گا کہ میاں درانہ کس کی خوابگاہ میں یا بالا خانے کی کس محفل میں منہ اٹھائے چلے آتے ہو۔
نہ کسی گھر کا کرایہ دینا اور نہ کسی امراؤ جان کے رقص کی جھلک دیکھنے کے لیے خانم جان کو چاندی کے سکے یا سونے کی اشرافیاں نذر کرنا۔ کسی کا قتل ہوجائے تو شرلک ہومز یا مس مارپل بڑے سی بڑی گتھی سلجھانے کو موجود، نپولین کی فوجیں ماسکو شہر میں فاتحانہ داخل ہورہی ہیں تو لیوٹالسٹائی کے قلم کو تھامے آپ بھی اوپچی توپچی بنے کسی مشکی رہوار پرسوار انیسویں صدی کے شہرہ آفاق شہر میں داخل ہوئے جاتے ہیں۔ عبدالحلیم شرر کی لکھت کے آپ عاشق ہیں تو صلیبی جنگوں میں حصہ لیجیے اور کسی خراش کے بغیر رچرڈ شیردل سے مبارزت کی حسرت دل سے نکالیے۔
کیا کہیے کی ناول ایک ایسا طلسماتی راستہ ہے جس پر نکل چلیے اور تنہائی کا نام و نشان نہیں۔ نامی گرامی شہر، قلعے اور پری چہرہ شہزادیاں آپ کی فتوحات کا قصہ۔
ہم ہندوستان والے کتھا سرت ساگر اور جاتک کہانیوں سے مالا مال تھے۔ پنچ تنتر کتھا کی دور دور تک دھوم تھی، مسلمان آئے تو اپنے ساتھ فارسی کی داستانیں لائے۔ زمانہ بدلا۔ پہلے فاتحین درہ خیبر سے آئے تھے، پھر سات سمندر پار سے آنے لگے۔ مدراس، کلکتہ اور ہندوستان کے دوسرے ساحلی شہر جہاں تجارتی کوٹھیاں قائم ہورہی تھیں۔ نئی ایجادات اور نئے خیالات پہنچ رہے تھے جنھیں دیکھ کر ہمارے مرزا غالب عش عش کر اٹھے۔ ناول کی صنف بھی اٹھارہویں، انیسویں صدی میں اسی راستے ہمارے یہاں پہنچی۔ ہمارے یہاں ناول کا چلن کس طرح آغاز ہوا اور گزشتہ ڈیڑھ سو برس میں اردو ناول کی تاریخ کن مراحل سے گزری۔ یہ ہمارے ادب کا نہایت اہم واقعہ ہے۔
اولڈ راوینز، کے ممتاز احمد شیخ نے جس طرح "لوح" نکالنے کا ادبی بیڑا اٹھایا، وہ ان کا حوصلہ اور ہمت ہے۔ کورونا نے دنیا کے تمام معاملات کو تلپٹ کیا لیکن وہ بھی ان کے عزائم کو شکست نہ دے سکا۔ انھوں نے 2020 کو ناول کا سال قرار دیتے ہوئے اردو ناول کی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ مرتب کی اور ہمارے سامنے رکھ دی۔ انھوں نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ:
2020 چونکہ ناول کا سال قرار پایا تو شعوری طور پر کوشش کی کہ ناول کی تاریخ، آغاز و ارتقا اور اس کے امکانات پر کام کیا جائے اور قارئین کے علاوہ ادب کے طلبہ کو ایک مسابقتی بنیاد فراہم کی جائے کہ 1862 سے 2020 تک ناول کا سفر کیسے طے ہوا۔
ڈیڑھ سو سال میں ناول کی زبان، بنت اور مضامین کن مدارج سے گزرے۔ کیا کیا اور کیسے کیسے تبدیلیاں آئیں، کیسے یادگار اور معرکتہ الارا ناول لکھے گئے۔ یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے، آج ناول کس مقام پر ہے اور کیسے لکھا جارہا ہے۔ اس ضمن میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ ڈیڑھ صدی میں لکھے جانے والے کم و بیش چار ہزار ناولوں میں پچاس، پچپن ناول بطور سند پیش کردیے جائیں تاکہ آپ ناول کے مزاج، طور اطوار اور چال چلن کو "لوح" کی وساطت سے ماضی، حال اور مستقبل کے آئینے میں پرکھ سکیں۔
ممتاز شیخ نے بہت خوب کیا کہ "لوح" میں اردو کے 50 اہم ناولوں کا انتخاب پیش کرنے کے ساتھ ہی اردو کے دو اہم ناقدین ڈاکٹر مرزا حامد بیگ اور ڈاکٹر رشید امجد کے دو وقیع مضامین اس انتخاب کی ابتدا میں پیش کیے ہیں۔ ڈاکٹر مرزا حامد بیگ "اردو میں ناول کی پیش رفت" کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں۔
تمثیلی قصے "خط تقدیر" میں کریم الدین پانی پتی نے 1857 کی ناکام جنگ آزادی کے بعد روزگار (روزی روٹی) کے حوالے سے ہندوستانیوں کو حقیقت پسندانہ سوچ کی طرف راغب کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ وہ انگریز کی زندگی کا چلن سیکھیں اور روایتی و معاندانہ سوچ کو ترک کردیں۔ توکل کے بجائے عمل کی طرف آئیں۔
اس حوالے سے کریم الدین نے قصہ رقم کرنے کے لیے تمثیلی Allegoricalانداز اختیار کرکے اسم بہ مسمیٰ کردار تراشے۔ قصے کا مرکزی کردار مستان شاہ، طالب تقدیر ہے جو اپنی محبوبہ ملکہ تقدیرسے مدد کا خواہاں ہے۔ گھر سے نکلتا ہے تو رشتے میں اس کی ملاقات "عقل" کی خادمہ چترائی سے ہوتی ہے۔ چترائی نے طالب تقدیر مستان شاہ کے پرصعوبت سفر کا احوال سنا تو اس نے ملکہ تقدیر تک رہنمائی کی اور ملکہ تقدیر نے کوتوال جہاں، عقل سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا، جب طالب تقدیر مستان شاہ نے ایسا کیا تو ملکہ تقدیر مہربان ہوگئی۔
اس اصلاحی قصے کے تمام کردار اسم بہ مسمیٰ ہیں۔ جو انسانی زندگی میں جمود کی جگہ حرکت اور بے عقلی کو شعور میں بدلنے کے لیے وضع کیے گئے ہیں۔ نیز اس تمثیلی قصے میں موقع بے موقع اشعار کی بھرمار دیکھنے کو ملتی ہے۔ کریم الدین پانی پتی کے بیان میں نہ وہ چاشنی ہے نہ قدرت بیان ہے جو نذیر احمد دہلوی کے نیم تمثیلی قصوں کا خاصہ ہے۔
ڈاکٹر رشید امجد اپنے مضمون "آغاز و ارتقا ناول" میں ڈاکٹر سید معین الرحمان کے حوالے سے ہمیں بتاتے ہیں کہ میر منشی شیو پرشاد نے ایک انگریزی ناول کا ترجمہ 1855میں "دنالنی اور تشرینہ" کے نام سے کیا لیکن وہ بھی اردو کا پہلا طبع زاد ناول "خط تقدیر" کو ہی قرار دیتے ہیں جسے مولوی کریم الدین نے 1862 میں لکھا تھا۔ وہ فسانہ آزاد کو برصغیر کے مسلمانوں کے تہذیبی ارتفاع کی علامت قرار دیتے ہیں۔ فسانہ آزاد جسے پنڈت رتن سرشار نے لکھا اسے تبسم کاشمیری کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اس کی حمیت میں جو توانائی ہے وہ بدلتے ہوئے معاشرے اور جدید رویوں کی نمایندگی کرتی ہے۔
جو 1857 کے بعد ہندوستانی معاشرے میں پیدا ہورہے تھے۔ خصوصاً سرسید تحریک کے نتیجے میں مسلمان جن فرسودہ اور پرانی روایات کے چنگل سے آزاد ہورہے تھے اور مسلم معاشرے میں جو نیا شعور جنم لے رہا تھا۔ آزاد کا کردار اس کی ایک مجسم صورت ہے۔ آزاد پرانی روایات کا مذاق اڑاتے ہوئے نئے پنپتے معاشرے میں مسلمانوں کے حال اور پھر ان کے مستقبل کی نوید ہے۔ آزاد کی شخصیت میں جدید علوم و فنون، کئی تہذیب و افاقیت اور زندگی کے مختلف تجربے یکجا ہوگئے ہیں۔ پرانی قدروں پر اس کی تنقید اور تبصرے نئے بنتے معاشرے کی راہ ہموار کررہے ہیں۔
مرزا حامد بیگ کی طرح ڈاکٹر رشید امجد بھی ناول کے آغاز و ارتقا میں منشی کریم الدین، مولوی نذیر احمد، مرزا ہادی رسوا اور پنڈت رتن ناتھ سرشار کا ذکر کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں ناول جن مراحل سے گزرا اور اس نے مغرب سے کیا کچھ لیا یا کچھ بھی نہیں، یہ وہ تمام معاملات ہیں جن پر رشید امجد نے کھل کر روشنی ڈالی ہے۔
ناول کے دور ثانی میں ہمیں مشرف عالم ذوقی اور ڈاکٹر امجد طفیل نظر آتے ہیں۔ جنھوں نے تاریخی تسلسل کے ساتھ ناولوں پر تبصرہ کیا ہے۔ مشرف عالم ذوقی نے کیا خوب لکھا ہے کہ ناول ایک دور کا نام ہے، ایک تہذیب کا نام ہے۔ اس لیے تخلیق کار کا ذہن اتنا وسیع ضرور ہو کہ وہ ایک مکمل عہد کا نچوڑ پیش کرسکے۔ اب چاہے ٹالسٹائی ہوں، ترگنیف ہوں، دوستو فسکی ہوں، پشکن یا گوگول ہوں یا الگزینڈر سولنسٹین ہوں۔ ان کے ناول اٹھایے اور پڑھیے۔ وہاں کے سیاسی، سماجی ہر طرح کے حالات کا اندازہ آپ کو ہوجائے گا۔
انقلاب اور عام رجحان کی تفصیل آپ کو معلوم ہوجائے گی۔ پشکن نے کپتان کی بیٹی لکھا۔ ٹالسٹائی نے جنگ اور امن لکھا۔ دوستو فسکی نے بڑھتے ہوئے جرائم کو محسوس کیا تو اس کا حل (Punishment and Crime) میں ڈھونڈا۔ یہی نہیں اس نے اپنے ملک کے اخلاق، جرائم اور سیاسی و سماجی تبدیلیوں کو محسوس کیا تو ایک سے بڑھ کر ایک ناول لکھ ڈالے۔ ایڈیٹ، برادر کرامازوف، پوزیزڈ، سیاسی و سماجی حالات پر طنز کے لیے دوستوفسکی نے احمق کے کردار کو سامنے رکھا۔ یہ احمق ان کے طویل افسانے داسٹوری آف اے ریڈیو کلس مین میں بھی موجود تھا۔ دوستوفسکی نے ایک احمق کردار کا سہارا لیا۔ یہ احمق جو ہوش مندوں اور عقلمندوں کی دنیا میں سب سے بہتر ہے۔ محض اس احمق کردار کے لیے دوستو فسکی اپنے موضوع اور اپنے کینوس کووسعت عطا کرتا ہے اور پھر اس دائرے کو وسعت عطا کرتے ہوئے وہ مذہب، سیاست اور سماج کے تمام مسائل پر جامع تبصرہ کرتا ہے۔ (جاری ہے)