چند خط امریکا کے نام
29 اپریل 2021 کو امریکی صدر جوبائیڈن کے نام ایک خط شایع ہوا۔ انھیں یہ خط سی آئی اے کے ایک سابق انٹیلی جنس افسرگیل ہیلٹ Gail Helt نے لکھا اور پھر اسے اشاعت کے لیے بھیج دیا۔
اس نے لکھا کہ جناب صدر مجھے یہ پڑھ کر سکون ہوا کہ آپ گوانتانا موبے کے قید خانے کو بند کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ میں نے سابق صدر اوباما کے دور میں دو برس تک اس پروگرام کے تحت کام کیا جس میں میری ذمے داری تھی کہ میں اس افسوسناک جگہ سے وہاں قید لوگوں کو دوسری جگہ منتقل کروں۔ یہ کام میں نے رضاکارانہ طور پر کیا۔
مجھے یقین تھا کہ امریکا جہاں میں پیدا ہوا وہاں کسی پر تشدد نہیں کیا جائے گا لیکن اپنے کام کے دوران میں نے دیکھا کہ ہم ایسا کر رہے تھے۔ امریکا ایک تاریک سرنگ میں اتر گیا تھا۔ میں نے وہ ناقابل یقین چیزیں دیکھیں اور پڑھیں جنھوں نے مجھے زار زار رونے پر مجبورکیا۔
اس نے لکھا کہ معاملہ صرف اتنا سا ہے کہ آپ کہاں پیدا ہوئے ہیں اور کسی غلط لمحے میں کسی غلط جگہ پر ہیں۔ یہ میں، میرا باپ، میرا چچا یا میرا ماموں بھی ہو سکتا تھا۔ جناب صدر ان قیدیوں میں سے کوئی آپ کا بیٹا بھی ہوسکتا تھا۔ اس نے غلط شناخت کا معاملہ بھی اٹھایا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ آپ کوئی ہوں اور کوئی اور سمجھے جائیں۔ آپ کی زندگی کے 19 برس اس لیے ایک بدترین قید میں گزر جائیں کہ آپ کو کسی اورکے شبہے میں گرفتارکیا گیا ہو اور جب یہ بات معلوم ہوگئی ہو تب بھی آپ کو اس عذاب سے رہائی نہ ملی ہو۔ وہ اپنے صدر سے اپیل کرتا ہے کہ امریکی تاریخ کے اس سیاہ باب کو بند کردیں۔ میں ان دو برسوں میں بھی رویا اور اب بھی آنسو بہاتا ہوں۔
یہ ایک طویل خط ہے جس میں اس نے بار بار یہ کہا ہے کہ یہ وہ امریکا نہیں ہے، میں جس میں پیدا ہوا تھا۔ میں جس امریکا میں یقین رکھتا تھا، یہ وہ امریکا نہیں ہے۔ یہ امریکا کی پیشانی پر سیاہ داغ ہے۔ گیل نے یہ بات نہیں لکھی لیکن اس کے ذہن میں وہ بیل اور دوسرے جانور ہوں جنھیں دہکتی ہوئی سلاخوں سے داغ دیا جاتا ہو تاکہ ان کی ملکیت یقینی بنائی جاسکے۔
یہ ایک تاریخی حوالہ ہے کہ کرسٹوفرکولمبس نے 1494 میں اس زمین پر اپنے قدم رکھے اور پھر یہ امریکا اور ہسپانیہ کی 1898 کی جنگ تھی جس میں امریکا نے کیوبا کے اس حصے پر قبضہ کیا اور 1903 میں امریکا اور کیوبا کے درمیان ایک معاہدے پر دستخط ہوئے جس کے تحت امریکا کو اس علاقے پر بحری اڈہ قائم کرنے اور یہاں سے کوئلہ نکالنے کی اجازت مل گئی اور اس کے ساتھ ہی یہ طے پایا کہ کیوبا کی آزادی اور خود مختاری کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچے گا۔
گوانتاناموبے امریکا کی پیشانی پرکلنک کا ٹیکہ بن چکا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ 2009 میں اس وقت کے امریکی صدر اوباما نے حکم دیا کہ اس حراستی مرکزکو 22 جنوری 2010 تک بند کر دیا جائے لیکن گیارہ برس گزر جانے کے بعد بھی یہ مرکز کھلا ہوا ہے، کیوں کہ کانگریس نے اس کی بندش کے لیے فنڈ دینے سے انکارکردیا تھا۔
جوبائیڈن بھی اس حراستی مرکزکو بند کرنا چاہتے ہیں، کانگریس اس مرتبہ ان کی اس خواہش کا احترام کرتے ہوئے فنڈ جاری کرتی ہے یا ایک طویل بحث و مباحثہ شروع ہوجاتا ہے، اس بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن یہ بات یقینی ہے کہ جو بائیڈن اس مسئلے پر ڈٹے رہیں گے۔ انھوں نے افغانستان سے امریکی فوجوں کا انخلا شروع کردیا ہے اور بہت سے امریکیوں کی ان خواہشات کو سمجھتے ہیں اور ان کا احترام کرتے ہیں جو اس بدنامِ زمانہ امریکی حراستی مرکزکی بندش کی شدت سے خواہش رکھتے ہیں۔
ایسا ہی ایک شخص لی ولوسکی ہے۔ وہ جارج بش اور بل کلنٹن کے دور حکومت میں نیشنل سیکیورٹی کونسل کا رکن تھا اور صدر اوباما کی طرف سے گوانتانا موبے کی بندش کے لیے ان کا خصوصی نمایندہ تھا۔ اس نے بھی 29 اپریل کو امریکی حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ گوانتانا موبے کو بند کیا جائے اور اس سیاہ دورکا خاتمہ کیا جائے۔ وہ برسوں اس حراستی مرکز سے وابستہ رہا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ہم اپنے خزانے سے اس قید خانے پر اربوں ڈالر سالانہ خرچ کر رہے ہیں۔ یہاں اب گنتی کے چند قیدی رہ گئے ہیں۔ ان میں سب سے بوڑھا 73 برس کا ہے۔
لی کا کہنا ہے کہ صدر بائیڈن کو ہر قیمت پر یہ حراستی مرکز بند کر دینا چاہیے کیوں کہ ہمارے عوام کے ٹیکس کی رقم کروڑوں ڈالرکی شکل میں ہر سال اس مرکز پر خرچ ہورہی ہے۔ اس نے یہ حساب بھی دیا کہ ہر قیدی پر سالانہ کتنے کروڑ ڈالر خرچ ہورہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اس نے اس کی یاد دہانی بھی کرائی کہ ہم یہ خطیر رقم خرچ کرکے اپنے چہرے پر سیاہی مل رہے ہیں۔
یہ سب کچھ لکھتے ہوئے مجھے مارگریٹ ایٹ ووڈ کا ایک خط یاد آیا جو اس نے اکیسویں صدی کے ابتدائی برسوں میں امریکا کے نام لکھا تھا۔
"پیارے امریکا: تمہیں یہ خط لکھنا مشکل ہورہا ہے اس لیے کہ اب مجھے یقین نہیں رہا ہے کہ تم کون ہو۔
ہم میں سے بعض دوسرے لوگوں کو بھی اسی مشکل کا سامنا ہوگا۔ میں سمجھتی تھی کہ میں تمہیں جانتی ہوں: ہم پچھلے 55 برس میں ایک دوسرے سے مانوس ہوچکے تھے۔ تم مکی ماؤس اور ڈونلڈ ڈک کی وہ کامک بکس تھے جو میں نے 1940ء کی دہائی کے اواخر میں پڑھیں۔ تم میرے پسندیدہ ریڈیو پروگرام تھے۔ تم وہ موسیقی تھے جس کے ساتھ میں گاتی اور رقص کرتی تھی۔ تم میرے لیے بے پناہ خوشی اور لطف کا سبب تھے۔
تم نے میری چند پسندیدہ کتابیں لکھیں۔ تم نے ہکل بری فن اور ہاک آئی، اور " لٹل وومن" کی بیتھ اور جو کو تخلیق کیا۔ اس کے بعد تم میرے چہیتے تھورو تھے، بابائے ماحولیات، انفرادی ضمیر کا گواہ؛ اور والٹ وہٹمن، عظیم جمہوریہ کا مغنی، اور ایملی ڈکنسن، تنہائی کی روح کی پاسبان۔ تم ہیمٹ اور شینڈلر تھے، اندھیری گلیوں سے گزرنے والے بہادر، اس کے علاوہ تم ہیمنگ وے، فٹز جیرلڈ اور فاکنر جیسے تین حیرت انگیز شاعر اور ادیب تھے جنھوں نے تمہارے دل کی پوشیدہ اور اندھیری بھول بھلیاں کے نقشے ابھار کر واضح کیے۔ تم سنکلیر لیوس اور آرتھر ملر تھے جو اپنے اپنے امریکی آدرش لے کر تمہارے اندر موجود تصنع اور ریا کاری کے پیچھے پڑے رہے، اس لیے کہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ تم اس سے بہتر ہوسکتے ہو۔
تم " ان دی وار فرنٹ" کے مارلن برانڈو تھے، تم " کی لارگو " کے ہمفرے بوگارٹ تھے، تم " نائٹ آف دی ہنٹر " کی للین گِش تھے۔ تم آزادی، ایمان داری اور انصاف کے مبلغ تھے۔ تم معصوموں کے محافظ تھے۔ میں ان سب باتوں پر یقین رکھتی تھی۔ میرے خیال میں تم بھی رکھتے تھے۔ اس وقت یہی سچ لگتا تھا۔
تم امریکی آئین کی جڑ کاٹ رہے ہو۔ نئی آئینی ترمیم کے بعد اب یہ ممکن ہے کہ آپ کے گھر میں آپ کی مرضی یا اجازت کے بغیر داخل ہوا جاسکے، آپ کو کسی سبب کے بغیر پکڑا اور نظر بند کیا جاسکتا ہے، آپ کی ڈاک کھول کر پڑھی جاسکتی ہے، آپ کی نجی دستاویزات کی جانچ پڑتال ہوسکتی ہے۔ یہ وسیع پیمانے کی کاروباری چوری، سیاسی دھمکی اور جعل سازی کی ترکیب کے سوا اور کیا ہے؟ مجھے معلوم ہے کہ تم کو بتایا گیا ہے کہ یہ تمہاری اپنی حفاظت کے لیے ہے مگر لمحے بھر کے لیے ذرا سوچو۔ تم اتنی آسانی سے تو ڈرنے والے نہیں تھے۔
تم پر قرض کا بوجھ بڑھتا جارہا ہے جو ایک ریکارڈ ہے۔ تم اسی طرح خرچ کرتے رہے تو پھر بہت جلد وہ وقت آجائے گا جب تم اتنے بڑے فوجی ایڈونچر کا بوجھ برداشت نہیں کرسکوگے۔ تم اپنی معیشت میں آگ لگا رہے ہو۔ پھرکچھ ہی عرصے بعد تمہارے پاس اپنے مسائل کا ایک یہی حل ہوگا کہ خود کوئی چیز پیدا نہ کرو بلکہ دوسرے لوگوں کی صنعت وحرفت پر چھین جھپٹ کر اور " گن ڈپلومیسی" کی قیمت پر سب کچھ حاصل کرلو۔
اگر تم اس پھسلواں ڈھلان پر یوں ہی آگے بڑھتے رہے تو پھر ساری دنیا کے لوگ فیصلہ کرلیں گے کہ پہاڑ پر بسا ہوا تمہارا شہر ایک گندی بستی ہے اور تمہاری جمہوریت ایک دھوکا۔ وہ سمجھیں گے کہ تم نے قانون کا احترام چھوڑ دیا ہے۔ وہ سمجھیں گے کہ تم نے اپنا آشیانہ خود ہی برباد کر ڈالا ہے۔
آج مارگریٹ ایٹ ووڈ کے اس خط پر دنیا بھر کے لوگوں، دانشوروں، ادیبوں، شاعروں حد تو یہ ہے کہ سابق امریکی فوجیوں کے خطوط کے ڈھیر لگ چکے ہیں۔ ان خطوط نے امریکی ضمیر کی کمر دہری کردی ہے۔ صدر بائیڈن اس بوجھ سے کب اورکیسے نجات حاصل کریں گے؟