ایک بڑا جنگدشمن
یہ اب سے پچاس برس پہلے کی بات ہے، جب کراچی یونیورسٹی میں ایک تعزیتی جلسہ فلاسفیکل سوسائٹی کے تحت ہوا۔ صدارت ڈاکٹر منظور احمد کر رہے تھے۔ یہ جلسہ بیسویں صدی کے عظیم فلسفی، دانشور اور امن دوست شخصیت برٹرینڈرسل کی وفات کے موقع پر ہوا۔
ڈاکٹر منظور نے اپنے تعزیتی خطاب میں اس شخص کو خراج عقیدت پیش کیا جس کی زندگی کا مقصد نوجوانوں میں علم کی رسد تقسیم کرنا اور دنیا کے انسانوں کے لیے امن اور آشتی کے لیے عملی طور پر جدوجہد کرنا تھا۔
رسل انیسویں صدی میں پیدا ہوا اور بیسویں صدی کے 70 ویں برس جان سے گزرا۔ ایک امیر اور بارسوخ خاندان کا بیٹا رسل ریاضی کو اپنی زندگی کا بنیادی شوق اور مسرت کا سرچشمہ کہتا تھا۔ اس کے بڑے بھائی نے اسے اقلیدس کے Elements پڑھنے کے لیے دیے۔ وہ چار برس کی عمر میں یتیم و یسیر ہوا اور اپنے دادا، دادی کے سایہ عاطفت میں آیا۔ اس کے والدین کی وصیت تھی کہ اسے دو آزاد خیال افراد کی سر پرستی میں دیا جائے لیکن اس کے دادا اور دادی کا خیال کچھ اور تھا۔
دادا کے گزرنے کے بعد رسل کی داد ی جو اپنے خیالات میں سخت گیر تھیں اور نہایت کڑے اخلاقی اصول رکھتی تھیں۔ انھوں نے رسل کی تربیت کی۔ اسے ابتدائی طور پر تعلیم گھر پر اساتذہ کے ذریعے دی گئی۔ 18 برس کی عمر میں ٹرینٹی کالج، کیمبرج میں داخل ہوا۔ جہاں الفریڈ وہائٹ ہیڈ نے اس کی پوشیدہ صلاحیتیوں کو پہچانا اور اسے کیمبرج کے علمی اور ادبی حلقے میں متعارف کرایا۔ رسل نے اپنی خود نوشت میں لکھا ہے کہ "ہم دوستوں کا یہ چھوٹا سا گروہ سمجھتا تھا کہ سیاست اور آزادانہ اظہار رائے کے ذریعے انسان ترقی کرسکتاہے۔"
گریجویشن کے بعد رسل کو ٹرینٹی کالج میں ہی لیکچرر کی ملازمت مل گئی او ر وہ وہاں فلسفہ پڑھانے لگا، لیکن 1916میں اسے برطرف کردیا گیا کیونکہ وہ پہلی جنگ عظیم کا مخالف تھا۔ یہ برطرفی اس کے لیے بہت تکلیف دہ تھی۔ اس نے اپنی دادی اور بعض دوسرے قریبی رشتہ داروں کی مخالفت کے باوجود ایک امریکی لڑکی سے شادی کرلی۔ شادی کے ابتدائی برسوں میں دونوں یورپ اور امریکا کی سیر کرتے رہے اور علمی اور ادبی حلقے میں ہم خیال لوگوں سے ملاقاتیں کرتے رہے۔ اسی سفر کے دوران اس کی ملاقات ان لوگوں سے ہوئی جنھوں نے اسے وایٹ ہیڈ کے ساتھ مل کر " ریاضی کے اصول" لکھنے پر راغب کیا۔ وہ اسے اپنی علمی زندگی کا سب سے دل کش اور بلند مرتبت واقعہ کہتا ہے۔
جنگ عظیم اول کے خاتمے پر رسل کو برطانوی حکومت اور امریکی فوجوں کے خلاف مضمون لکھنے پر 6ماہ کی قید کاٹنی پڑی۔ دنیا میں جو کچھ ہورہا تھا، رسل اس سے بہت مضطرب تھا۔ ریاضی سے عشق کے باوجود، انسانوں سے اس کی گہری محبت بہت بڑھی ہوئی تھی۔ پہلی جنگ عظیم نے آدھی دنیا سے زیادہ پر جو ستم کیے تھے، وہ اس کے لیے ناقابل یقین اور ناقابل برداشت تھے۔
وہ ایک فلسفی تھا اور جانتا تھا کہ شہرت اس کا انتظارکر رہی ہے، لیکن انسان دکھ، درد اور محرومیوں کی جس دلدل میں اترے ہوئے تھے، وہ بھی اس کا دامن دل کھینچتے تھے۔ زار کے روس میں انقلاب آچکا تھا، زار شاہی کی جگہ سوویت یونین نے لے لی تھی، وہ سوویت یونین سے بہت متاثر تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جنگ کے خاتمے کے بعد اس نے سوویت یونین کی راہ لی۔ وہ اس نئی مملکت کے قصیدے پڑھتا ہوا گیا تھا، لیکن وہاں سے واپس ہوا تو اس کے خواب چکنا چور ہوچکے تھے۔ یہ ایک بڑی دانشورانہ اور جذباتی ہزیمت تھی جو اسے پہنچی۔
وہاں سے واپسی کے بعد وہ اپنے ادق علمی کاموں میں مصروف رہا اور اس کے ساتھ ہی اس وقت کی سیاست پر بھی اس کی گہری نظر رہی۔ دوسری جنگ عظیم اور جاپان کے دو شہروں پر امریکا کی سفاکانہ بمباری اس کے لیے سوہان روح بن گئی۔ اس دوران رسل نے متعدد اعلیٰ فلسفیانہ کتابیں لکھیں، چند کا اردو میں ترجمہ بھی ہوا، لیکن ہمارے یہاں اس کی شہرت علم وادب سے زیادہ اس کی مزاحمتی سیاست سے ہوئی۔
رسل کی زندگی کا سب سے اہم واقعہ ویت نام کی جنگ تھی۔ جبری بھرتی کے تحت امریکی نوجوان ایک ایسی جنگ کا چارہ بن رہے تھے جو ان کی نہیں ان کے حکمرانوں کی ہوس اقتدار کے لیے لڑی جا رہی تھی۔
رسل بوڑھا ہوچکا تھا، اس کا علمی اور ادبی کام ہزاروں صفحات پر پھیلا ہوا تھا۔ بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ سیاست اور انسانوں کی محرومیوں میں اس کی دلچسپی زیادہ ہوتی گئی۔ ویت نام کی جنگ وہاں کے نہتے اور غریب کسانوں پر تھوپی گئی تھی، جس کا مقصد اس علاقے کے وسائل پر قبضہ تھا۔
رسل اس جنگ کے خلاف مظاہرے کرتا رہا۔ وہ لندن کے کسی پر رونق شاہراہ پر یا چوک پرکھڑا ہوجاتا اور لوگوں سے اس ظالمانہ جنگ کے بارے حقائق بیان کرتا۔ بات یہاں تک پہنچی کہ اس نے بکنی آئی لینڈ میں امریکیوں کے کیے جانے والے ہائیڈروجن بم کے تجربات کے خلاف تقریریں کیں۔ وہ جنگ مخالف مظاہروں اور سیمیناروں میں شرکت کرتا۔ اس کے اس موقف پر سڑک سے گزرنے والے اس کی تواضع گندے انڈوں اور سڑے ہوئے ٹماٹروں سے کرتے لیکن رسل پر ان باتوں کا کوئی اثر نہ ہوتا اور دوسرے دن وہ پھر جنگ مخالف نعروں کے ساتھ سڑک پر کھڑا ہوتا۔ اس نے ویتنام میں امریکی جنگی جرائم کے نام سے ایک ٹریبیونل قائم کیا جس میں دنیا بھرکے دانشوروں، ادیبوں اور قانون دان افراد کو شریک کیا۔ ہمارے یہاں سے محمود علی قصوری بھی اس ٹریبیونل میں حصہ لینے کے لیے منتخب کیے گئے۔
اس ٹریبیونل میں سارتر، سیمون دی بووا اور دوسرے بڑے نام تھے۔ اس ٹریبیونل کی کارروائیاں اسٹاک ہوم اور ڈنمارک کے شہر روسکائیلڈ میں ہوئیں۔ ویتنام میں امریکا نے جس طرح نہتے کسانوں کا قتل عام کیا اور دوسرے غیر انسانی اقدامات کے ثبوت اکٹھے کرکے رسل کے ساتھیوں نے جیوری کے سامنے رکھے۔ یکم دسمبر 1967 وہ دن تھا جب جیوری نے تمام ثبوت وشواہد کو دیکھنے اور سننے کے بعد متفقہ طورپر یہ اعلان کیا کہ " امریکا قتل عام کا مرتکب ہوا، قیدیوں پر بہیمانہ تشدد اور قیدیوں کو زبردستی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتا رہا جس میں ویتنام سے متصل لاؤس اورکمبوڈیا شامل تھے۔
رسل کے ٹریبیونل کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی لیکن اس ٹریبیونل کے ذریعے رسل نے یورپ، امریکا اور دوسرے براعظموں کے لوگوں کو سوتے سے جگا دیا۔
اس مقدمے کی صدارت ژاں پال سارتر نے کی اور 23 دوسرے عالمی شہرت یافتہ دانشوروں، سائنسدانوں، قانون دانوں، سابق سربراہان مملکت اور امن کے سرگرم کارکنوں کو اس مقدمے کی کارروائی میں شریک کیا۔ ان لوگوں میں مزدور رہنما لارنس ڈیلے، صحافی طارق علی (مظہر علی خاں اور طاہرہ مظہر علی خان کا بیٹا) اور ادیب کارل برایٹ مین بھی شامل تھے۔ ان لوگوں کی ذمے داری تھی کہ وہ امریکی جنگی کارروائیوں کا ثبوت لے کر آئیں۔
2 مئی 1967 سے اور 20 نومبر 1967 سے یکم دسمبر 1967 تک اس مقدمے کے دو سیشن ہوئے جس میں یہ ثبوت پیش کیے گئے کہ امریکی فضائیہ نے جان بوجھ کر شہری سہولتوں، اسپتالوں، اسکولوں، چرچ اور دیہاتوں کو نشانہ بنایا جس میں عورت، مرد اور بچے ہلاک ہوئے۔
ویت نام سے کچھ ایسے لوگ بھی آئے جو امریکی دہشت گردی کا نشانہ بنے تھے۔ ان میں سے ایک ویتنامی کسان تھا جس نے جیوری کو اپنا جلا ہوا جسم دکھایا۔ وہ اس وقت نپام بم کا نشانہ بنا تھا جب وہ کھیت میں ہل چلا رہا تھا۔ جیوری کے سامنے ایک امریکی بھی پیش ہوا جس کا "کام" ویتنامیوں سے " پوچھ گچھ" کرنا تھا۔ اس نوعیت کی متعدد شہادتیں سامنے آئیں جنھوں نے امریکا کے جنگی جرائم کو آشکار کیا۔
اس ٹریبیونل نے امریکا اور یورپ میں جنگ مخالف مظاہروں کی ایک لہرکو جنم دیا جس نے آخر کار امریکی صدر کو گھٹنے ٹیکنے اور ویتنام کی جنگ کو ختم کرنے کے اعلان پر مجبورکیا۔ یہ رسل، سارتر، سیموں اور دوسروں دانشوروں کی بڑی جیت تھی۔
مجھے نہیں معلوم کہ پچاس برس پہلے جو تعزیتی اجلاس کراچی یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف فلاسفی میں منعقد ہوا۔ اس میں رسل کے اس جنگ مخالف پہلو پر گفتگو ہوئی یا نہیں لیکن یہ سچ ہے کہ وہ بیسویں صدی کا ایک بڑا فلسفی ہونے کے ساتھ ہی ایک بڑا جنگ دشمن تھا جس کی کوششیں ویت نام کی خوفناک جنگ کے خاتمے کا ایک سبب بنیں۔