Monday, 14 July 2025
  1.  Home
  2. Wusat Ullah Khan
  3. Pas Sabit Hua Jhoot Ke Bhi Paun Hote Hain

Pas Sabit Hua Jhoot Ke Bhi Paun Hote Hain

پس ثابت ہوا جھوٹ کے بھی پاؤں ہوتے ہیں

ایران کے معاملے پر انقرہ میں اسلامی کانفرنس تنظیم (او آئی سی) کے ہنگامی وزراِ خارجہ اجلاس نے وہی کیا جس کے لیے وہ چھپن برس سے مشہور ہے۔ یعنی ایران کے خلاف جارحیت رکوانے کے لیے ایک رابطہ گروپ کا قیام جو بین الاقوامی برادری سے رابطہ کرکے کوئی حل نکالے۔ کانفرنس نے ایرانی جوہری تنصیبات پر امریکی حملے پر بھی "شدید تشویش" ظاہر کرتے ہوئے " خبردار " کیا کہ اس مہم جوئی سے علاقے میں تناؤ اور بڑھے گا۔

میں کئی برس سے سوچ رہا ہوں کہ اگر اردو میں "شدید تشویش" کی اصطلاح نہ ہوتی تو مسلمان دنیا کس اصطلاح کو بطور تکیہ استعمال کرتی؟

وہ یورپی ممالک جنھوں نے یوکرین کے ایک جوہری بجلی گھر پر روسی میزائل حملہ ہوتے ہی آسمان سر پے اٹھا کر روس کو ایک خطرناک کھیل شروع کرنے کا مجرم ٹھہرایا۔ وہی یورپ ایرانی جوہری تنصیبات کو مسلسل اور مشترکہ نشانہ بنانے پر نہ صرف مطمئن بلکہ ایران سے مسلسل مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ یقین دلائے کہ کبھی ایٹم بم نہیں بنائے گا۔ حالانکہ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) اور امریکی انٹیلی جینس اداروں کی نگراں تلسی گیبارڈ کی گواہی کے بعد ایران کو یہ حلف دینے کی ضرورت نہیں کہ اس کا ایٹمی ہتھیار بنانے کا نہ پہلے ارادہ تھا نہ اب ہے۔

ایران اور امریکا اومان میں اس دن (چودہ جون) اسی مسئلے پر چھٹی بار مذاکرات کرنے والے تھے جس سے ایک دن پہلے اسرائیل کے لگ بھگ دو سو طیاروں نے ہلہ بولا۔ جب کہ جنیوا میں یورپی وزراِ خارجہ سے ایرانی وزیرِ خارجہ کی پہلی ملاقات کے ایک روز بعد (بائیس جون) ہی امریکا نے ایران پر حملہ کرکے بقول ٹرمپ ایرانی ایٹمی پروگرام کو " تہس نہس " کر دیا۔

جو یورپی ممالک (برطانیہ، فرانس، جرمنی) ایران کو دوبارہ مذاکرات کی میز پر آنے کا کہہ رہے ہیں۔ انھی ممالک میں سے ایک جرمنی کے چانسلر فریڈرک مرز کے منہ سے نکل گیا کہ اسرائیل دراصل ہمارا " ڈرٹی ورک " کر رہا ہے۔

صدر ٹرمپ نے کسی بھی ممکنہ امریکی کاروائی دو ہفتے تک نہ کرنے کی یقین دہانی کروائی تھی۔ تاکہ یورپی سفارت کار ایران کے ساتھ بیٹھ کے کوئی حل نکال سکیں۔ جب امریکا نے اپنی ہی ڈیڈ لائن توڑتے ہوئے چلتی بات چیت کے دوسرے ہی روز حملہ کر دیا تو ایران کو گفتگو میں مصروف کرنے والے جرمنی، فرانس اور برطانیہ نے ٹرمپ سے اپنی سفارتی توہین پر باقاعدہ احتجاج کرنے کے بجائے امریکی کارروائی کا پرجوش خیرمقدم کیا۔

اگر اسرائیل اور امریکا نے مل کے ایرانی جوہری پروگرام " تہس نہس " کر ہی دیا ہے تو اس کے بعد بھی حملے کیوں نہیں رکے؟ یورپ اب بھی ایران سے بات چیت کا مطالبہ کیوں کر رہا ہے۔ بقول ایرانی وزیرِ خارجہ عباس عراقچی " اب اگر ایران کی ایٹمی تنصیبات واقعی تباہ ہوگئی ہیں تو اس کے بعد یورپ اور امریکا ایران سے آخر کس مسئلے پر بات کرنا چاہتے ہیں "؟ کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے؟

حالانکہ ایران کا کوئی میزائل یورپ اور امریکا تک مار نہیں کر سکتا۔ مگر یورپ اس لیے خوش ہے کیونکہ رائے عامہ کے بوجھ سے مجبور ہو کر برطانیہ اور فرانس جیسے ممالک کی اسٹیبلشمنٹ نے فلسطینیوں کے بارے میں جو ہمدردانہ زبانی جمع خرچ شروع کر دیا تھا اور نسل کشی بند کرنے کے لیے ممکنہ اقتصادی پابندیاں حرکت میں لانے کی اسرائیل کو جو نیم دلانہ دھمکیاں دی جا رہی تھیں۔ اب ایران کی صورت میں نیا ولن مل جانے کے بعد یورپ کو " ضمیر " کے بوجھ سے نجات مل گئی ہے اور وہ پہلے کی طرح آنکھ بند کرکے اسرائیل کی حمائیت کر سکتا ہے۔ کہاں دو ہفتے پہلے تک فرانس اسرائیل کو فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کی دھمکیاں دے رہا تھا اور کہاں اب صدر میخواں ایرانی خطرے کے سدِباب کے لیے اسرائیل کے " پیشگی حقِ دفاع " کے وکیل بن چکے ہیں۔

اسرائیل کو فوری فائدہ تو یہ ہوا کہ بین الاقوامی میڈیا کی توجہ ایران سے جنگ پر مرکوز ہوگئی اور غزہ فی الحال پس منظر میں چلا گیا۔ وہاں اسرائیل امداد کے متلاشی بھوکے فلسطینیوں کو روزانہ سو دو سو کے حساب سے اطمینان سے ختم کر رہا ہے۔

طویل المعیاد فائدہ یہ ہوا کہ لبنان میں حزب اللہ کے خاتمے، شام میں حکومت کی تبدیلی اور عراق کے معلق ہونے کے نتیجے میں لبنان تا ایران جو اسرائیل دشمن ہلال (کریسنٹ) قائم تھی اس کے ٹکڑے ہو گئے۔ اب اگر اسرائیلی خواہش کے مطابق ایرانی حکومت بھی معزول ہوجاتی ہے تو خطے میں اسرائیل کو زک پہنچانے والا ایک بھی قابلِ ذکر ملک باقی نہیں بچے گا۔

یوں اسرائیلی اثر و نفوذ زاہدان کی سرحد تک آ جائے گا۔ اگلی منزل پاکستان ہے جو اسرائیل سے خوفزدہ مشرقِ وسطی اور بھارت کے درمیان سینڈوچ کے کباب میں آخری ہڈی ہے۔

گزشتہ ماہ جب صدر ٹرمپ نے تین خلیجی ممالک (سعودی عرب، امارات، قطر) کا دورہ کیا اور لگ بھگ ساڑھے چار ٹریلین ڈالر کے تجارتی اور اسلحہ سجھوتے اور ایک بوئنگ جہاز کا تحفہ وصول کیا۔ تب انھوں نے اپنے میزبانوں کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ ایران اور امریکا کے مابین بات چیت اچھے سے آگے بڑھ رہی ہے اور کوئی نہ کوئی راستہ نکل آئے گا۔

صدر ٹرمپ نے بس یہ بات میزبانوں کو نہیں بتائی کہ امریکا نے جو شرائط ایران کے سامنے رکھی ہیں انھیں یقین ہے کہ وہ کبھی بھی قبول نہیں کرے گا۔

(ایران پر امریکی حملے کے چند گھنٹے بعد امریکا کی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے چیئرمین جنرل ڈان کین نے پنٹاگون میں ایک پریس بریفنگ میں بتایا کہ ایران پر حملے کی تیاری کئی ماہ سے جاری تھی۔ " آپریشن مڈ نائٹ ہیمر " میں بی ٹو بمبار طیاروں سمیت ایک سو پچیس لڑاکا اور امدادی طیاروں نے حصہ لیا اور تین جوہری ٹھکانوں پر تیس تیس ہزار پاؤنڈ وزن کے چودہ بنکر توڑ بم گرائے گئے)۔

صدر ٹرمپ کے خلیجی ممالک میں قیام کے دوران اس حسنِ اتفاق پر بھی بہت سے علاقائی تبصرے بازوں نے بغلیں بجائیں کہ ٹرمپ نے اس دورے میں اسرائیل کو نظرانداز کیا ہے۔ ورنہ ہر امریکی صدر مشرقِ وسطی کے دورے میں تل ابیب میں ضرور رکتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ٹرمپ نیتن یاہو سے بیزار ہے۔

تیرہ جون کو اسرائیل کی ایران پر یلغار اور بائیس جون کو براہِ راست امریکی حملے کے بعد جس طرح ٹرمپ اور نیتن یاہونے ایک دوسرے کی فراست کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ اس کے بعد آپ کو " دو طرفہ بیزاری " کے امریکی معنی شاید سمجھ میں آ ر ہے ہوں۔

About Wusat Ullah Khan

Wusat Ullah Khan is associated with the BBC Urdu. His columns are published on BBC Urdu, Daily Express and Daily Dunya. He is regarded amongst senior Journalists.

Check Also

Ye Jahan Ke Engine Kyun Band Kiye?

By Saqib Ali