سید علی گیلانی تیری جرات کو سلام
حریت کانفرنس کے چیئرمین سیدعلی گیلانی کی طبیعت پچھلے 6 ماہ سے خراب ہے اور انہیں حال ہی میں ایس کے آئی ایم ایس اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ سید علی گیلانی کو گزشتہ روز سینے میں انفکشن کی وجہ سے تکلیف تھی اور ان کی صحت کافی خراب تھی۔ پاکستانیوں سے اس مرد مجاھد کی صحت یابی کے لئے دعا کی اپیل ہے۔ سید علی گیلانی کی ساری زندگی جدوجہد سے تعبیر ہے۔ آزادی اور حق خود ارادیت کی جدوجہد میں عمر کا زیادہ حصہ بھارتی جیلوں میں گزارا ہے۔ بھارت نے حریت قائد کی آزادی کی آواز دبانے کے لیے ظلم و جبر کے تمام ہتھکنڈے آزمائے لیکن وہ حریت قائدین کے عزم و حوصلے کو توڑنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ ماضی میں پاکستان کے حکمرانوں نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے مختلف آپشنز پیش کیے۔ اگر ان آپشنز اور فارمولوں کے سامنے کوئی ڈٹا رہا تو وہ سید علی گیلانی تھے جنہوں نے جنرل مشرف کو دو ٹوک جواب دیا تھا کہ کشمیر کے لاکھوں شہداء نے اپنا خون بھارت کے غاصبانہ قبضہ سے آزادی کے لیے پیش کیا ہے۔
مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو نظر انداز کر کے کوئی دوسرا فارمولا تحریک آزادی کشمیر کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے۔ جنرل مشرف کے دور میں سید علی گیلانی کے اس موقف کو بعض دانشوروں نے ہٹ دھرمی قرار دیا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ثابت ہوا کہ سید علی گیلانی کا موقف بالکل درست تھا آج حکومت پاکستان اسی موقف کو لے کر چل رہی ہے جو سید علی گیلانی کا موقف تھا۔ سید علی گیلانی ہمیشہ سے یہ کہتے چلے آ رہے ہیں کہ بھارت مکر و فریب کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہے اور اول روز سے بھارت مسئلہ کشمیر کے حوالے سے تضادات اور دو عملی کی پالیسی پر چل رہا ہے۔ سید علی گیلانی کا موقف تھا کہ جب تک بھارت کشمیر کو متنازعہ علاقہ تسلیم نہیں کرتا اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے آمادہ نہیں ہوتا اس وقت تک بھارت سے کسی طرح کے مذاکرات کار لاحاصل مشق ہے۔ محض پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارتی و ثقافتی وفود کے تبادلے آلو، پیاز کی تجارت اور امن کی آشا سے کشمیریوں کے دکھوں کا مداوا نہیں ہو سکتا۔ تاریخ نے سید علی گیلانی کے موقف کو درست ثابت کر دیا ہے۔
سید علی گیلانی 1929 میں پیدا ہوئے۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ایک سیاسی رہنما ہیں۔ آپ کا تعلق ضلع بارہ مولہ کے قصبے سوپور سے ہے۔ آپ کشمیر کے پاکستان سے الحاق کے حامی ہیں۔ آپ جماعت اسلامی جموں و کشمیر کے رکن رہے ہیں جبکہ انہوں نے جدوجہد آزادی کے لیے ایک الگ جماعت "تحریک حریت" بھی بنارکھی ہے جو کل جماعتی حریت کانفرنس کا حصہ ہے۔ وہ معروف عالمی مسلم فورم "رابطہ عالم اسلامی" کے رکن ہیں۔ یہ رکنیت حاصل کرنے والے وہ پہلے کشمیری ہیں۔ ان سے قبل سید ابو الاعلی مودودی اور سید ابو الحسن علی ندوی جیسی شخصیات برصغیرسے اس فورم کی رکن رہ چکی ہیں۔ مجاہد آزادی ہونے کے ساتھ ساتھ وہ علم و ادب سے شغف رکھنے والی شخصیت بھی ہیں اور علامہ اقبال کے بہت بڑے مداح ہیں۔ وہ اپنے دور اسیری کی یادداشتیں ایک کتاب کی صورت میں تحریر کرچکے ہیں جس کا نام "روداد قفس" ہے۔ اسی وجہ سے انہوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ بھارتی جیلوں میں گزارا ہے۔۔۔۔ ! مقبوضہ وادی کے "حریت رہنما" سید علی گیلانی نے پاکستانی وزیر اعظم عمرن خاں کو اپنے آخری خط میں دردمندانہ اپیل کی ہے کہ کشمیر کے لیے جب کچھ کرو گے جب ہم مٹ جائیں گے۔ مگر افسوس صد افسوس اس درد مند خط نے بھی کسی کے دل میں کوئی تڑپ پیدا نہیں کی۔
دوسری طرف بھارتی جنتا پارٹی کے رہنما اور (ر) بھارتی فوج کے جنرل ایس پی سنہا نے مقبوضہ کشمیر میں تعینات 8 لاکھ بھارتی فوجیوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ کشمیری خواتین کی عصمت دری کو بطورِ ہتھیار استعمال کریں۔ جب ہندو شدت پسند اس کمینگی کی انتہا کو پہنچ جائیں تو ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ اب کچھ کرنے کا وقت آگیا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جنرل ایس پی سنہا کے شرمناک مشورے اور سید علی گیلانی کے خط کے بعد حکومت نے کشمیر کی عفت مآب مائوں بہنوں بیٹیوں کی دفاع کے لیے کیا اقدامات کئے ہیں؟ افسوسناک امر تو یہ ہے کہ جب سے ہم نے صدر ٹرمپ کو کشمیر پر ثالثی کا کہا ہے کشمیر میں ظلم و ستم انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں۔ 6 ماہ سے زائد کا عرصہ ہو گیا کشمیر سے کرفیو اٹھائے جانے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔ وہ کونسی رکاوٹ ہے جو کشمیریوں کو مودی کے پنجہ ظلم ستم سے آزاد ہونے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ سید علی گیلانی کا خط میں کہنا تھاکہ کشمیریوں کی جدوجہد اور پاکستان کی بقا کے لیے یہ اہم موڑ ہے، پاکستان کو کل جماعتی پارلیمانی اجلاس طلب کرناچاہیے، حکومتی سطح پر کچھ کارروائی عمل میں لانے کی ضرورت ہے۔ خط میں مطالبہ کیا گیاہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کو ختم کرنے کا اعلان کرے، پاکستان دوطرفہ معاہدوں شملہ، تاشقند اور لاہور معاہدے سے دست بردار ہونے کا اعلان کرے، ایل او سی پرمعاہدے کے تحت باڑ لگانے کے معاہدے کو بھی ازسرنو دیکھنے کی ضرورت ہے، حکومت پاکستان ان سارے فیصلوں کو لے کر اقوام متحدہ بھی جائے۔
اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو سید علی گیلانی اس سے زیادہ کھل کر بات نہیں کرسکتے تھے کیونکہ اگر انہیں یہ یقین ہوتا کہ ان کے کہنے پر پاکستان اپنی فوجوں کو مقبوضہ کشمیر میں اتار کر بھارت کے غیرقانونی اور مجرمانہ اقدامات کے خلاف کارروائی کرے گا تو وہ کھل کر کہہ دیتے لیکن وہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان 1949ء سے خاص طور پر 5 جون کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے قرارداد کی منظوری کے بعد سے مسلسل ایک ہی تقاضا کر رہا ہے کہ تنازعہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرو? پاکستانی قوم اس بزرگ کشمیری رہنما کی انتھک جدوجہد اور ولولہ و جوش کو سیلوٹ پیش کرتی ہے اور ان کی صحت یابی کے لئے دعا گو ہے۔