شوہر سے یاشہر سے شادی؟
اس مسئلہ نے بھی مردوں کی زندگی تنگ کر رکھی ہے۔ لڑکی اور اس کے والدین اپنی لاڈو کو شہر سے باہربیاہنے پر راضی نہیں ہوتے۔ اس خواہش نے رشتوں کے مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ بیرون ملک لڑکی نہ بیاہنے کا سبب تو سمجھ میں آتا ہے کہ لڑکی والے اندیشوں کا شکار ہوتے ہیں لیکن ان والدین اور لڑکیوں کی عقل پر ماتم کیا جائے جو صرف اس بنیاد پر گھر آئے رشتے مسترد کر دیتے ہیں کہ انہیں بیٹی کو دوسرے شہر نہیں بیاہنا۔ علاقوں کی بھی بندش لگائی جا تی ہے کہ لڑکی کو پوش علاقے میں بیاہنا ہے۔ عجیب زمانہ آگیا ہے کہ لڑکیاں شوہروں سے نہیں شہروں سے بیاہی جاتی ہیں۔ جس شہر میں ان کا مائیکہ رہتا ہے انہیں اسی شہر میں رہنا ہے۔ لڑکے پر دبائو ڈالا جاتا ہے کہ وہ شادی کے بعد بیوی کے مائیکے والے شہر حتی کہ علاقہ میں تبادلہ کرالے۔ شادی کے معاملہ میں لڑکیاں ویسے ہی موڈی واقع ہو رہی ہیں، عمریں گزر رہی ہیں لیکن ان کے مطالبات میں سنجیدگی نہیں آرہی۔ خواہشات اور مطالبات میں نظر ثانی تیس سال کی ہونے کے بعد ہوتی ہے۔ تیس سے اوپر لڑکی کا رشتہ سن کر پچاس سال کا مرد بھی برا سا منہ بنا کر پوچھتا ہے اس کی ابھی تک شادی کیوں نہیں ہوئی؟
ایک لڑکی نے بتایا کہ اسے لاہور سے باہر شادی نہیں کرانی، وہ لاہور میں پلی بڑھی ہے اس کا کسی دوسرے شہر میں دل نہیں لگے گا۔ ایک لڑکی کی ماں نے کہا کہ بیٹی کی شادی پنجاب سے باہر نہیں کرنی، لڑکے نے جواب دیا کیوں پنجاب کی اگلی وزیر اعلیٰ آپ کی بیٹی ہوگی۔ ماں نے برہم ہوتے ہوئے فون بند کر دیا۔ ایک ماں نے کہا بیٹی کوکراچی سے باہر نہیں بھیج سکتے، لڑکے نے کہا وہ سرکاری ملازم ہے، شہروں میں تبادلے اس کے اختیار میں نہیں۔ لڑکی کی ماں نے کہا کہ ٹھیک ہے اگر کراچی سے باہر تبادلہ ہوا تو ہماری بیٹی ہمارے پاس رہے گی، آپ چھٹیوں میں آکر مل جایا کرنا۔ لڑکے نے ہونے والی ساس کو کھرّا سا جواب دیا کہ اتنا کرایہ خرچ کرکے آپ کی بیٹی کو ملنے آنا ہے تو دوسری شادی اپنے شہر سے کر لوں؟ میں جہاں رہتا ہوں کیا اس شہر کی لڑکیاں مر گئی ہیں؟ شہروں سے اور علاقوں سے آگے ملکوں کا مسئلہ بھی گھمبیر ہے۔ بیرون ملک بیاہی گئی لڑکی پردیس میں دل نہیں لگاتی، شوہر پر وطن واپس شفٹ ہونے پر دبائو ڈالتی ہے۔ شوہر بیرون ملک سیٹ ہوتا ہے لیکن بیوی کی "ہوم سک نیس" تنہائی و اداسی اس کا سکون غارت کر دیتی ہے۔ کام سے گھر لوٹے تو بیوی کا منہ بنا ہوتاہے۔ اپنے والدین کو مس کرتی ہے۔ اس کے برعکس واقعات بھی ہیں کہ بیوی کا پردیس میں دل لگ جاتا ہے لیکن شوہر کا کاروبار یا جاب کا مسئلہ بن جائے اور وہ پاکستان واپس منتقل ہونا چاہے تو اس کی بیوی وطن لوٹنے پر راضی نہیں ہوتی۔ اس صورتحال میں شوہر نہ ادھر کا رہتا ہے اور نہ ادھر کا۔
ایسے شوہر بھی ہیں جن کی بیوی کے گھر والے باہر سیٹل ہیں اور لڑکی کی شادی پاکستان آکر کرنے پر مجبور ہیں۔ شادی کے بعد لڑکی والدین کے پاس بیرون ملک شفٹ ہو نے کی ضد میں طلاق کو شوہر پر ترجیح دیتی ہے۔ شوہر کا پاکستان میں جاب ہے کاروبار ہے والدین بہن بھائیوں کی ذمہ داریاں ہیں وہ بیرون ملک شفٹ نہیں ہو سکتا لیکن بیوی اور اس کے ماں باپ بیٹی کو شوہر کے ساتھ زندگی گزارنے کی تلقین کی بجائے اس کا گھر توڑ نے میں شیطان کا کردار ادا کرتے ہیں۔ شہروں کو شوہروں پر ترجیح دینے والے رشتوں میں ہمیشہ علیحدگی کا امکان رہتا ہے۔ پردیس میں دیسی لڑکیوں کے پر پرزے نکل آتے ہیں۔ خواتین کے حقوق سمجھ آجاتے ہیں۔ بندہ خواہ پردیس رہے یا وطن لوٹ جائے، قانونی و شرعی طور پر بیوی بچوں کے نان و نفقہ کا پابند ہے۔ بیٹی کو مائیکہ کے قریب رکھنے سے میاں بیوی میں قربت کی بجائے دوریاں پیدا ہوتی ہیں۔ مغرب میں بیاہی جانے والی لڑکیاں مستقل وطن واپسی کی خواہش کم ہی رکھتی ہیں۔ بچے ہو جائیں تو انگریزی زبان بولتے ہوئے ماں کو پیارے لگتے ہیں لیکن ایسے میں شوہر وطن لوٹنا چاہے تو بیوی بچے ساتھ جانے سے انکار کر دیتے ہیں۔ شوہروں کا دل چاہتا ہے کہ ان کی اولاد گوروں کے ملک میں پرورش پائے لیکن بعض شوہروطن میں اپنے والدین کی وجہ سے جانا چاہتے ہیں۔ وہ لڑکیاں اور ان کی مائیں جوشہرکو شوہر پر ترجیح دیتی ہیں، انہیں شادی کی شرعی وجوہات کا علم ہونا چاہئے۔
مرد اور عورت کو رشتہ ازدواج میں منسلک کرنے کی بنیادی وجہ مرد و عورت کے فطری تقاضوں کی تکمیل ہے۔ ورنہ مقصد کھانا پکوانا یا کپڑے دھلوانا ہوتا تو اس کے لیئے ماں یا ماسی موجود ہیں۔ ماں نے ہی تمام عمر اپنے بیٹے کو کھلایا پلایا اور زندگی کی بہترین نعمتیں عطا کیں۔ جس مقصد کی خاطر شادی کی جاتی ہے اگر بیوی اس کے تقاضوں کو پورا نہ کرے تو ایسی شادی یا بیوی سے دوسری شادی بہتر ہے۔ ویسے بھی امام کعبہ نے فتویٰ دے دیا ہے کہ بیوائوں کی موجودگی میں ایک شادی پر اکتفا کرنے والا مرد روز حشر خدا کو جوابدہ ہے۔ شہر کو شوہر پر فوقیت دینے والی "لاڈو"سے شادی سے پہلے مرد کو ہزار بار سوچ لینا چاہیے۔ اب تو لڑکے سے شرائط اور مطالبات منوانے کا زمانہ ہے۔ شادی میں سودابازی شادی کو برباد کر دیتی ہے۔ شوہر کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی خواہش رکھنے والی شادی کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ بیوی کو شوہر کے ساتھ ہی رہنا ہے، جہاں بھی رکھے۔ یہ فیصلہ کرنا شوہر کا حق ہے۔ روزی کمانا اور والدین کی خدمت کرنا مرد کے اولین فرائض ہیں۔ بیوی اپنے شوہر کے ان فرائض میں من مانی کرنے کی مجاز نہیں۔ بیوی کے من پسند شہر یا ملک کو والدین پر فوقیت دینا عقلمندی نہیں۔ خواہشات کو شوہر کی مجبوریوں پر فوقیت دینے والی بیوی شوہر کی سگی نہیں ہو سکتی۔ ایسی بیوی صرف اپنی خواہشات کی غلام ہوتی ہے۔ اپنے والدین کو شوہر کے والدین پر فضیلت دینے والی خود غرض بیوی ہوتی ہے۔ اپنے شہر کو شوہر کے شہر پر محبوب رکھنے والی بیوی کم ظرف ہوتی ہے۔ میاں بیوی ایک دوسرے کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا نام ہے۔ شادی کے بعد میری ماں تیری ماں، میرا گھر تیرا گھر، کی تکرار شروع ہو جائے تو یہ حسین رشتہ اپنی افادیت کھو دیتا ہے۔ بد مزگی کی زندگی سے کسی سعادتمند بیوہ سے شادی یقینََا نیکی اور سکون کا باعث ہوگی۔