پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خَمیر تھا

بھارت نے 2021ء میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد کابل میں اپنا سفارتخانہ بند کر دیا تھا۔ بھارت نے اعلان کیا ہے کہ وہ چار سال بعد افغانستان کے دارالحکومت کابل میں اپنا سفارتخانہ دوبارہ کھولے گا۔ بھارتی وزیرِ خارجہ سبرامنیم جے شنکرنے یہ اعلان جمعے کو افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کے ساتھ نئی دہلی میں ملاقات کے دوران کیا۔
جے شنکرنے ملاقات کے دوران کہا کہ "بھارت افغانستان کی خودمختاری، سالمیت اور آزادی کا مکمل احترام کرتا ہے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان قریبی تعاون علاقائی استحکام اور ترقی میں مددگار ثابت ہوگا۔ ان کے مطابق بھارتی تکنیکی مشن کو اب مکمل سفارتخانے کی حیثیت دی جا رہی ہے۔ افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے کہا کہ "افغانستان بھارت کو قریبی دوست سمجھتا ہے" اور حالیہ زلزلے کے بعد بھارت سب سے پہلے امداد فراہم کرنے والا ملک تھا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان بھارت کے ساتھ تعلقات کو باہمی احترام، تجارت اور عوامی روابط کی بنیاد پر آگے بڑھانا چاہتا ہے۔ فی الحال بھارت نے طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا، تاہم دونوں ملکوں کے اعلیٰ حکام کے درمیان ملاقاتوں اور بات چیت کے ذریعے تعلقات میں نرمی کے آثار ظاہر ہو رہے ہیں۔
دوسری طرف پاک افغان تعلقات سے متعلق وضاحت پیش کرتے ہوئے دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان افغانستان کی خودمختاری کا احترام کرتا ہے اور اپنے ہمسایہ ملک کے ساتھ دہشت گردی کے مشترکہ چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مسلسل مکالمے اور تعاون پر یقین رکھتا ہے۔ ترجمان نے واضح کیا کہ پاکستان نے ہمیشہ سفارتی ذرائع کو ترجیح دی ہے، چاہے اسے افغانستان کے اندر موجود دہشت گردوں کی پناہ گاہوں اور حملوں کے خطرات کا سامنا ہی کیوں نہ ہو۔
ترجمان نے کہا کہ یہ آپریشنز صرف دہشت گرد گروہوں کے خلاف کیے جاتے ہیں بالخصوص ان گروہوں کے جن سے پاکستان کی سلامتی کو براہِ راست خطرہ لاحق ہے، جیسے "فتنہ الخوارج" اور ٹی ٹی پی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنی خودمختاری اور سلامتی کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے، تاہم اس کے اقدامات ہمیشہ بین الاقوامی قوانین اور سفارتی اصولوں کے دائرے میں رہ کر کیے جاتے ہیں۔
یاد رہے کہ دو روز قبل ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹینٹ جنرل احمد شریف نے بہت عرصے بعد پشاور میں پریس بریفنگ منعقد کی۔ ان کے مطابق پشاور آنے کا مقصد یہاں کے عوام کو یہ یقین دلانا ہے کہ فوج ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ انہوں نے پشاور آنے اور یہاں پریس کانفرنس کرنے کے مقصد کے حوالے سے بتایا، خیبر پختونخوا غیور شہدا کا صوبہ ہے اور ہم یہاں تجدید عہد کے لیے آئے ہیں کہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔ ، ڈی جی آئی ایس پی آر کی تقریباً دو گھنٹے پر محیط پریس کانفرنس میں مختلف معاملات پر بات کی گئی، لیکن زیادہ تر بات چیت سکیورٹی معاملات پر مرکوز رہی۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے اعداد و شمار پیش کرکے سب سے پہلے خیبر پختونخوا میں عسکریت پسندی کے خلاف جاری کارروائیوں کی بات کی۔ تاہم اس آپریشن کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ کچھ عرصے سے ایک خاص بیانیہ بنایا جا رہا ہے اور آپریشن کے خلاف باتیں ہو رہی ہیں، لیکن یہاں پر بنیادی مسئلے یعنی گورننس کے معاملات پر بات نہیں کی جاتی۔ انہوں نے کہا، 40 ارب روپے کی کرپشن کی جاتی ہے، جبکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی مد میں ملنے والے ایک فیصد فنڈ کا کوئی حساب نہیں دیا جاتا کہ وہ روپے کہاں خرچ ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا، اگر پاکستان اور افغانستان بارڈر پر فینسنگ کی گئی ہے تو عسکریت پسند کیسے کراس کرکے پاکستان آتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ بھی فوج کے خلاف ایک بیانیہ بنایا گیا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اتنی لمبی سرحد کو سنبھالنے کے لیے بہت بڑی فوج چاہیے ہوتی ہے۔ جنرل احمد شریف نے بتایا کہ ترقی یافتہ ممالک بھی بارڈر کو پوری طرح سیل نہیں کر سکتے، جیسے امریکہ اور میکسیکو بارڈر ہے۔

