کم ظرف کے شر سے بچو
ہم نے نواز شریف کو بھی سپورٹ کیا مگر باپ بیٹی پر تنقید بھی کھل کر کی۔ بے نظیر کے اچھے کاموں کو بھی سپورٹ بلکہ امریکہ میں ملاقات بھی کی مگر تنقید بھی بے باک کی۔ عمران خان کو سیاست میں ویلکم کرنے والوں میں ہم پیش پیش تھے لیکن ڈی چوک دھرنے میں جس طریقے سے سیاست کا رخ بیساکھیوں کی جانب مڑ گیا ہم بھی خان کی منافقانہ آمرانہ جمہوری طرز سیاست سے بد دل ہو کر چل دئیے اور تب سے اب تک اس کو ہوش کے ناخن لینے کی نصیحت اور گزارش کررہے ہیں۔
عمران خان نے مشرف سے لے کر جنرل قمر باجوہ تک تمام جرنیلوں کے خوب بوٹ پالش کئے۔ اور اب جب ان کی دس سالہ منصوبہ بندی کا بھانڈہ بیچ چوراہے پھوٹ گیا تو ادارے کے لئے وہ شرمناک زبان اور رویہ اپنایا کہ اس آدمی سے شیطان بھی پناہ مانگ رہا ہے۔ اس سے بڑا خود غرض احسان فراموش بے مروت تاریخ نے کوئی سیاستدان نہیں دیکھا۔
تکبر اور انا پرستی نے اسے وہاں پہنچا دیا ہے جہاں سے شاید ہی کوئی بچ پایا ہو۔ کنٹینر پر کھڑے امیرزادوں کو کئی گولیاں لگیں لیکن سب محفوظ رہے؟ نیچے کھڑے ایک غریب ورکر کو صرف ایک گولی لگی اور وہ چل بسا؟ مگر یہ حقائق ہوشمندوں کے لئے ہیں، جہاں شخصیت پرستی آجائے وہاں شعور رخصت ہوجاتا ہے اور برین واشنگ جگہ لے لیتی ہے۔ عمران خان صاحب کے مشیران اور چلوں وظائف سے قطع نظر، کانوں کے کچے اور مقبولیت کے زعم میں گرفتارتمام کارڈز استعمال کر چکے ہیں۔ اب فقط شناختی کارڈ بچا ہے اور اس پر رحم کھاتے ہوئے بغیر اسٹبلشمنٹ کے منت ترلہ کے 2023ء کا الیکشن لڑیں اللہ مدد گار ہوگا۔
اسمبلیاں توڑنے کا آخری کارڈ یا دھمکی بھی بے سود گئی اور آپ اس بلنڈر بیان پر بھی یو ٹرن لینے پر مجبور ہیں لہذا گالم گلوچ الزامات کا رویہ مزید کارگرثابت نہیں ہوگا۔ خان نے سیاست، طارق جمیل نے تبلیغ، پیرنی نے چلہ، فیض حمید نے فوج، ثاقب نثار نے عدلیہARY نے میڈیا سنبھالا پرتبدیلی انقلاب نیا پاکستان ریاست مدینہ حقیقی آزادی کچھ بھی نصیب نہ ہو سکا؟ پہلوں نے جس ملک کو اگر تباہ کرنے میں تیس برس لگائے اس نے صرف ساڑھے تین سال میں وہ کام کر دکھایا کہ دوسری باری لینے کے لئے مقبولیت بھی ساتھ نہیں دے رہی۔
اس نے اپنی پارو سے کہا توڑ دو اس نے توڑ دی، بازو توڑ دو اس نے توڑ لیا، اسمبلی توڑ دو اس نے کہا وہ بھی دو منٹ میں توڑ دوں گا مگر مقبولیت کے دیو داس جی یادرکھو آپ پر30 FIR درج ہیں۔ کے پی کے اور پنجاب اسمبلی توڑ دوگے تو جو پولیس آپ حفاظت کررہی ہے وہی تمہیں اٹھاکر لیجائیگی۔ زمان پارک لاہور بھی موصوف بنی گالہ اسلام آباد میں گرفتاری کے ڈر سے چھپے بیٹھے ہیں۔
اسمبلی ٹوٹ گئی تو سکیورٹی اور پروٹوکول بھی گیا۔ بھلے لاکھ ایاک نعبد و ایاک نستعین پڑھتے رہو اگلی آیت مبارکہ بھی پڑھ لیا کروکہ رب ہدایت بھی دے اور آپ کو سمجھ آسکے کہ نوجوانوں اور عورتوں کی جو کھیپ آپ نے تیار کر دی ہے اب دشمن کی ضرورت نہیں رہی۔ آپ نے نواز شریف کو مدت پوری نہ کرنے دی اور غیر آئینی طریقے سے نکلوا دیا۔ تب آپ نے سوچا تھا کہ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے؟
وہ کہتے رہے مجھے کیوں نکالا کیوں نکالا؟ آپ نکالے گئے تو وہی رونا آپ رو رہے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا؟ ادارے کے وہی محسن جو کل آپ کے مائی باپ تھے آج آپ ان کے خلاف غلیظ مہم چلا رہے ہیں؟ حضرت علی کرم اللہ وجہ نے برحق فرمایا، "، جس کم ظرف پراحسان کرو اس کے شر سے بچو" جو کھچڑی اندر پک رہی تھی اس پر بروقت قابو پانے کے لئے سابق آرمی چیف کو آپ کی نظروں میں برا تو بننا پڑا مگر انہوں نے ملک اندرونی سازش سے بچا لیا۔
جب نواز شریف نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو آرمی چیف بنایا تو اس وقت ایک سابق مقتدر شخصیت کے دستخط سے منظور شدہ عمران خان پروجیکٹ آخری مراحل میں تھا جسے مقدس ڈاکٹرآئن سمجھ کر آگے بڑھایا گیا۔ پانامہ میں نواز شریف اوران کی بیٹی کو الیکشن سے پہلے جیل میں ڈال کرعمران خان کووزیراعظم بنانے کا فائنل راونڈ شروع ہوا۔ بیساکھیاں مہیا کی گئیں اورعمران خان وزیر اعظم بن گئے۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا لیکن 2019ء میں جب عمران خان نے جنرل باجوہ سے کہا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کو ہٹایا جائے۔ جس کو جنرل باجوہ صاحب نے پہلی مرتبہ خطرے کی لائن کراس ہوتے دیکھی مگر خاموشی اختیار کر لی۔
عمران خان بضد رہے اور جنرل باجوہ کو نہ چاہتے ہوئے بھی ان کا فیصلہ ماننا پڑا۔ عمران خان نے اس کے چند ہفتوں کے اندر ساری پی ڈی ایم قیادت کو جیل میں ڈال دیا۔ ملک میں سیاسی بحران پیدا ہوگیا اپوزیشن پر عرصہ دراز تنگ کر دیا گیا ملک کی ساری انتظامی مشینری اور دولت اپوزیشن کو دیوار سے لگانے پر صرف ہوگئی جس کے نتیجے میں ملک کی معیشت بیٹھ گئی۔ فروری 2021ء میں فیصلہ ہوا کہ پاک فوج کا سیاست سے پیچھے ہٹ جانا ہی ملک کے مفاد میں ہے۔ تمام آفیسرز کو ہدایات جاری کر دی گئیں کہ ہم نیوٹرل ہو رہے ہیں لیکن عمران خان کچھ اور ہی پلان بنا رہے تھے۔
آرمی چیف کو وزیر اعظم عمران خان کی اگلے دس سال کی پلاننگ کی بمع ثبوت فائل پیش کی گئی۔ اسی دوران جنرل ندیم انجم کو ڈی جی آئی ایس آئی بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ عمران خان درست فرمایا کرتے تھے کہ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ میں بہت برداشت اور صبر ہے۔ جب خان کے دس سالہ پلان پر پانی پھر گیا تو وہ جنرل باجوہ سے بگڑ گئے جس سے اس مقولہ کی حقانیت سامنے آ گئی کہ "جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو"۔