کعبہ کی رونق اللہ اکبر

نومبر کے مہینے میں اس قدر ہجوم، اللہ اکبر۔۔ زائرین عمرہ ہیں کہ بارہ مہینے چلے آرہے ہیں۔ اے کعبہ تیری قسم تجھ میں رب نے وہ کشش رکھ دی ہے کہ یہ گنہگار قلب تیرے در پر پڑا رہتا ہے اور جسم سات سمندر پار۔ یہ تو مالک کا کرم ہے جو اداسی کی شدت کو زیارت سے شفا بخش دیتا ہے۔ نگاہیں بیت اللہ شریف پر جمی ہوئی تھیں اور ذہن پرانی یادوں میں گم تھا۔ ہم ماہ صفر 1996ء میں عمرہ کی سعادت کے لئے مکہ معظمہ آئے۔
حرم کعبہ میں داخل ہوئے تو سامنے سیاہ غلاف مبارک میں لپٹا بیت اللہ شریف دکھائی نہ دیا بلکہ سفید رنگ کا ایک کمرہ دکھائی دے رہا تھا۔ حج کے بعد محرم صفر کے مہینوں میں زائرین کے ویزے بند کر دئیے جاتے تھے لہذا حرم مکہ میں چند مقامی زائرین اس سفید رنگ کی چار دیواری کا طواف کر رہے تھے۔ بندہ جب مسجد حرام میں قدم رکھتا ہے تو اس کی ترسی نگاہیں کعبہ کو دیکھنے کے لئے بے تاب ہوتی ہیں اور پہلی نظر کعبہ پر پڑتے ہی سفر کی تمام تھکان بھوک پیاس بے معنی ہوجاتی ہے۔ مگر یہاں تو کعبہ ہی دکھائی نہیں دے رہا۔
عجیب منظر دیکھ کر دل بے قابو ہوگیا۔ کپکپاتے قدموں سے صحن حرم میں اتر کر آگے بڑھے تو سفید عارضی چار دیواری کا معمہ پھر بھی حل نہ ہو سکا۔ مطاف میں پہنچ کر زائرین کو فالو کرتے ہوئے ہم نے طواف شروع کر دیا۔ نہ کعبہ نظر آرہا تھا نہ حجر اسود۔ زائرین کی سہولت کے لئے سفید عارضی دیوار پر حجر اسود کا نشان بنا دیا گیا تھا۔ دوران طواف سفید عارضی دیوار کے قریب پہنچے توایک شگاف سے دیکھا کہ کعبہ کے اطراف بہت سے لوگ مرمت کے کام میں مشغول تھے۔
کعبہ پر نہ سیاہ غلاف تھا بلکہ نصف چار دیواری بھی غائب تھی۔ بہت سے ورکرز کعبہ کی دیواروں پر نئے پتھر لگا رہے تھے اور پھر چھت پر کام ہونا تھا۔ طواف سے فارغ ہونے کے بعد وہاں کے ایک خادم سے حقیقت معلوم ہوئی کہ کعبہ کو مضبوط بنیادوں پر قائم رکھنے کے لئے صدیوں بعد اب پھر مرمت اور تعمیر کی ضرورت پیش آ گئی ہے۔ ہم ان دنوں سعودی عرب میں مقیم ہونے کی وجہ سے اس منظر کے چشم دید گواہ ہیں۔
حضرت علامہ جلال الدین سیوطیؒ نے"تاریخ مکہ" میں تحریر فرمایا ہے کہ"خانہ کعبہ" دس مرتبہ تعمیر کیا گیا: ۔ خانہ کعبہ جس طرح آج ہمیں نظر آتا ہے یہ ویسا نہیں ہے جو حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کے دور میں باربارتعمیر ہوا تھا۔ وقت کے ساتھ پیش آنے والی قدرتی آفات اور حادثات کی وجہ سے اس کو بار بار تعمیر کرنے کی ضرورت پڑتی رہی ہے۔ خانہ کعبہ کی دوبارہ تعمیر کا ایک بڑا حصہ نبی کریم ﷺ کی زندگی میں نبوت ملنے سے قبل مکمل ہو چکا تھا، یہ وہ وقت تھا جب نبی کریم ﷺ نے ایک بڑی خون ریزی کو اپنی دور اندیشی سے روکا تھا۔ ایک بڑے کپڑے میں حجر اسود کو رکھ کر ہر قبیلے کے سردار سے اٹھوایا تھا۔ اس کے بعد آنے والے وقت میں کئی مرتبہ خانہ کعبہ کی تعمیر ہوتی رہی ہے۔
آخر میں خانہ کعبہ کی تفصیل سے آرائش 1996ء میں ہوئی تھی، جس کے نتیجے میں بہت سارے پتھروں کو ہٹا دیا گیا تھا اور بنیاد کو مضبوط کرکے نئی چھت ڈالی گئی تھی۔ اس کا ذکر ہم اوپر کر چکے ہیں۔ یہ اب تک کی آخری بڑی تعمیر ہے اور اب خانہ کعبہ کی عمارت کو پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے دو دروازے اور ایک کھڑکی ہوا کرتی تھی: دوبارہ تعمیر کئے جانے سے قبل خانہ کعبہ کا ایک دروازہ اندر داخل ہونے کے لئے اور ایک باہر جانے کے لئے استعمال ہوتا تھا۔ ایک زمانہ تک خانہ کعبہ میں ایک کھڑکی ہوا کرتی تھی۔
خانہ کعبہ کی جو شکل آج موجود ہے اس میں صرف دورازہ ہے کھڑکی نہیں۔ ہم لوگوں کو خانہ کعبہ کو ہمیشہ کالے رنگ کی کسواہ اور سونے کے دھاگوں میں دیکھنے کی ایسی عادت ہو چکی ہے کہ ہم اس کو کسی اور رنگ میں دیکھنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے، یہ روایت زمانوں سے چلی آ رہی ہے لیکن اس سے قبل خانہ کعبہ مختلف رنگ کے غلاف سے ڈھکا رہتا تھا ان رنگوں میں ہرا، لال اور سفید رنگ شامل ہے۔ فتح مکہ کے وقت، نبی کریم ﷺ کو خانہ کعبہ کی چابیاں دی گئی تھیں لیکن بجائے اس کے کہ آپ ﷺ یہ چابیاں اپنے پاس رکھتے، آپ ﷺ نے یہ چابیاں بنی شائبہ خاندان کے عثمان بن طلحہٰ کو واپس کر دیں۔ اس وقت سے آج تک وہ ان چابیوں کے روایتی رکھوالے ہیں اور نبی کریم ﷺ کے نادر الفاظ کی روشنی میں یہ چابیاں ہمیشہ ان کے پاس ہی محفوظ رہیں گی۔
"اے بنی طلحہٰ، یہ چابیاں روزِ قیامت تک تیری تحویل میں رہیں گی، سوائے اس کے کہ زور زبردستی تجھ سے غیر اخلاقی طریقے سے چھین لی جائیں"۔ پہلے خانہ کعبہ ہفتہ میں دو مرتبہ عوام کے لئے کھلا ہوتا تھا اور کوئی بھی خانہ کعبہ کے اندر داخل ہو کر عبادت کر سکتا تھا لیکن موجودہ زمانے میں زائرین کی تعداد زیادہ ہونے اور دوسری وجوہات کی بنا پر خانہ کعبہ کو اب سال میں صرف دو مرتبہ کھولا جاتا ہے اور اس میں صرف خاص مہمان ہی داخل ہو سکتے ہیں۔
خانہ کعبہ کے بالکل اوپر جنت میں ایک اور خانہ کعبہ بھی موجود ہے۔ جس کو بیت المعمور کہتے ہیں۔ اس کا اشارہ قرآن پاک میں بھی موجود ہے اور نبی پاک ﷺ بھی اس بات کی نشان دہی معراج کا واقعہ سناتے ہوئے فرما چکے ہیں۔

