جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں
والدین اپنی اولاد کے لئے دنیا کی شاید ہر نعمت خرید سکتے ہیں لیکن اولاد کا نصیب نہیں خرید سکتے۔ رشتے آسمانوں پر نہ بنتے تو والدین وہ بھی بازار سے خرید لاتے۔ حضرت آدم و حوا کا پہلا رشتہ تھا جو آسمان پر بنایا گیا اور تب سے ان کی نسلوں کے نصیب بھی آسمانوں پر ہی طے ہو رہے ہیں۔
بندے دنیا میں اپنا نصیب تلاش کرتے ہیں نصیب بناتے نہیں۔ قسمت مقدر اور نصیب ایک حقیقت کے مختلف نام ہیں۔ تقدیر، قسمت یانصیب یہ تینوں الفاظ عام طور پر ایک ہی معنی میں بولے جاتے ہیں۔ لفظ تقدیر کے لغوی معنی مقدار، قسمت، نصیب، بخت ہیں۔۔
تقدیر اللہ تعالیٰ کی صفت ہے، تقدیر کا مسئلہ بے حد نازک اور باریک ہے، بس اتنا عقیدہ رکھا جائے کہ دنیا میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اللہ تعالیٰ کو پہلے سے اس کا علم تھا، اور اللہ تعالیٰ نے اس کو پہلے سے لوحِ محفوظ میں لکھ رکھا تھا۔ ایک آدمی نے حضرت علیؓ سے تقدیر کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب دیا: تاریک راستہ ہے، اس پر مت چلو! اس نے پھر سوال کیا تو جواب دیا: گہرا سمندر ہے، اندر مت داخل ہو! اس نے تیسری مرتبہ سوال کیا تو آپ نے جواب دیا: اللہ تعالی کا راز ہے، جو اللہ تعالی نے تم سے چھپائے رکھا ہے، تم اس کو ٹوہ میں نہ لگو!۔۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے علم محیط کی بنا پر آئندہ جو کچھ ہونے والا ہے، اس کو پہلے ہی لوحِ محفوظ میں لکھ دیا ہے۔ اور بندے کو مجبورِنہیں بنایا بلکہ اس کو کسب واختیاردیا ہے۔ اب اگر کوئی انسان برا کام کرتا ہے تو اس وجہ سے نہیں کہ اللہ تعالیٰ پہلے ہی اس کے بارے میں اس کا فیصلہ فرماچکے ہیں ؛ بلکہ آئندہ وہ ایسا کرے گا، اس لیے اللہ نے پہلے ہی اس کو لکھ دیا، اللہ علم غیب رکھتا ہے۔
حضور ﷺ نے صحابہؓ کے سامنے جب تقدیر کی حقیقت بیان فرمائی تو صحابہ نے فرمایا: کیا ہم عمل کرنا چھوڑدیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں تم عمل کرتے رہو، ہرآدمی کا عمل اس کو فائدہ پہنچائے گا۔ باقی یہ مسئلہ تقدیر ہے اس میں بحث وتفتیش کی اجازت نہیں۔ مقدر تقدیر قسمت نصیب یہ تمام الفاظ اللہ تعالی بندے کے لئے لکھ چکا ہوتا ہے البتہ اس کو پانے کی کوشش اور جائز ناجائز طریقے اختیار کرنا بندے کی چوائس ہے۔
اس کی مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ چھری کے نصیب قسمت یا تقدیر میں کاٹنا لکھ دیا گیا ہے اب یہ اختیار عقل یا چوائس بندے کو دے دی گئی ہے کہ وہ چھری سے پھل سبزی کاٹتا ہے یا کسی کی گردن۔ رزق بندے کے نصیب قسمت مقدر میں لکھ دیا گیا ہے کہ کتنا ملے گا مگر اب یہ عقل شعور اختیار بندے کے ہاتھ میں ہے کہ وہ رزق جائز طریقے سے کماتا ہے یا ڈاکہ ڈال کر لاتا ہے۔
شادی کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ کس شخص سے اور کب ہوگی جوڑ آسمان پر بنا دیا گیا ہے مگر بندے کو کلی اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اسے تلاش کرے۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے سینہ رزق آڑ کر منہ میں آن گرے گا نہ زوج گھر چل کر آجائے گا۔ عقل شعور اختیار کوشش وسائل اسباب استعمال کرنے سے ہی مقدر کا حصول ممکن ہوتا ہے۔ بعض اوقات جس رشتے کو متعدد بار انکار کر دیا جائے آخر کار نکاح اسی سے ہوجاتا ہے اسے مقدر نصیب قسمت کہتے ہیں۔
بعض اوقات لاکھ کوشش کے باوجود اس شخص سے رشتہ نہیں ہوپاتا یہ بھی نصیب کی بات ہے۔ اچھے کے لئے کوشش اور محبت کرو مگر جو مل جائے پھر اسے نصیب مقدر سمجھ کر اس پر راضی رہنا سیکھو۔ زندگی میں سب چیزیں سو فیصد نہیں ہوسکتیں ہمیں کچھ چیزیں قبول کرنا ہوتی ہیں۔ جو چیزیں قبول کرنی ہوں ان کو اللہ تعالیٰ کی رضا سمجھ کر قبول کرنا چاہیے۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے "اور ہم تمہیں آزمائیں گے خوف سے، بھوک اور مال و اولاد کے نقصان سے اور صبر کرنے والوں کے لیے خوشخبری ہے۔ وہ لوگ جب انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تووہ کہتے ہیں بیشک یہ اللہ کی طرف سے ہے اور ہم نے اسی کی طرف لوٹ کر جاناہے۔ ان لوگوں پر اللہ کی رحمت اور سلامتی ہے اور یہی ہدایت پانے والے ہیں۔ " (سورۃ البقرۃ)
ہماری زندگیوں کے بارے میں ہمیں سب کچھ پہلے سے قرآن پاک میں بتا دیا گیا ہے کہ ساری مرضی ہماری نہیں ہوگی، ساری چیزیں ہمارے مطابق نہیں ہوں گی، جب سب کچھ ہمارے مطابق نہیں ہوناتو پھر کیوں نہ اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہا جائے۔